خبریں

عمر عبداللہ نے ’آئی لو محمد‘ بورڈ پر ایف آئی آر کی مذمت کی، پوچھا – یہ لکھنا غیر قانونی کیسے؟

کانپور پولیس نے بارہ وفات کے جلوس کے دوران مبینہ طور پر ‘آئی لو محمد’ لکھے بورڈ لگانے پر ایف آئی آر درج کی ہے۔ جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ اگر دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے لیے اپنے دیوی-دیوتاؤں کے نام لکھنا غیر قانونی نہیں ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے؟

عمر عبداللہ۔ (فوٹوبہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بدھ (24 ستمبر) کو پیغمبر اسلام سے اظہار محبت کے حق کا پرزور دفاع کیا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ تین عام سے لفظ –’آئی لو محمد’-  کیسے غیر قانونی قرار دیے جا سکتے ہیں اور عدالتوں سےاس پر فوراً کارروائی کرنے کی اپیل کی۔

ہندوستان ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق، یہ تنازعہ 9 ستمبر کواس وقت شروع ہوا، جب کانپور پولیس نے 4 ستمبر کو بارہ وفات (عید میلاد النبی) کے جلوس کے دوران سڑک پر ‘آئی لو محمد’ لکھے بورڈ لگانے کے الزام میں 9 نامزد اور 15 نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی۔

کچھ ہندو تنظیموں نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے اسے ‘نیا رجحان’ قرار دیا تھااور دعویٰ کیا کہ یہ شعوری اور اشتعال انگیز اقدام ہے۔

اس معاملے نے اس وقت توجہ حاصل کی جب اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا کہ ‘آئی لو محمد’ کہنا کوئی جرم نہیں ہے۔

اب جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ ان تین الفاظ پر مقدمہ درج کرانے کا مطلب ہے کہ کوئی شخص دراصل ذہنی طور پر بیمار ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ عدالتیں اسے جلد از جلد ٹھیک کریں اور پوچھا کہ ‘آئی لو محمد’لکھنا کیسے غیر قانونی ہو سکتا ہے۔

عمر نے صحافیوں سےکہا،’کسی کو یہ لکھنے پر اعتراض کیوں  ؟ ان تین الفاظ پر کون اعتراض کر سکتا ہے؟ مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ یہ تین الفاظ لکھنے سے گرفتاری کیسے ہو سکتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کوئی شخص واقعی ذہنی طور پر بیمار ہے کہ ان تینوں الفاظ پر مقدمہ درج کراسکتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ عدالتیں اسے جلد از جلد ٹھیک کریں۔’آئی لو محمد’لکھنا کیسے غیر قانونی ہے؟’

عبداللہ نے کہا کہ چاہے اس کا تعلق کسی خاص مذہب سے ہو، ‘آئی لو محمد’ لکھنا کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی اپنے گرو یا دیوتاؤں کے تئیں اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔

عمر نے پوچھا،’اگر آپ اسے کسی مذہب سے بھی جوڑتے ہیں تو اس میں غلط کیا ہے؟ کیا دوسرے مذاہب کے پیروکار اپنے دیوی دیوتاؤں کے بارے میں نہیں لکھتے؟ کیا ہمارے سکھ بھائی بہن اپنے گرووں کے بارے میں نہیں لکھتے؟کیا ہمارے ہندو بھائی بہن اپنے مختلف دیوی دیوتاؤں کے بارے میں نہیں لکھتے؟ وہ لکھتے ہیں۔ جموں و کشمیر سے باہر کہیں بھی جائیں، آپ کو شاید ہی ایسی کوئی گاڑی ملے گی جس پر کسی دیوی-دیوتا کی تصویر نہ لگی ہو۔ اگر وہ غیر قانونی نہیں ہے، تو یہ کیسے ہے؟’