خاص خبر

میرٹھ میں ہندو اور مسلمان کے درمیان گھر کا سودا، اتر پردیش کا نیا فرقہ وارانہ تنازعہ

میرٹھ میں ہندو خاندان سے ایک مسلمان کےگھر خریدنے کے سودےنے نیا تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔ مقامی ہندو گروپوں نے اس کو لے کرپولیس تھانے اور بعد میں گھر کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیااور ہنومان چالیسہ کا پاٹھ بھی کیا۔ بیچنے والے خاندان کا کہنا ہے کہ انہیں خریدار کے مسلمان ہونے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ جس نے اچھی قیمت دی، انہوں نے اس کو مکان بیچ دیا۔

میرٹھ سٹی جنکشن ریلوے اسٹیشن کا سائن بورڈ۔(تصویر بہ شکریہ: روی دویدی/وکی میڈیا کامنز)

نئی دہلی: اترپردیش کے شہر میرٹھ میں ایک مسلمان کے ہندو خاندان سے گھر خریدنے کے سودے نے نیا تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔ مقامی ہندو گروپوں نے اس کو لے کرپولیس تھانے اور بعد میں تھاپر نگر میں واقع گھر کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا اور ہنومان چالیسہ کا پاٹھ کیا۔

اس دوران، ہندو تنظیموں نے ‘ہندوؤں کی نقل مکانی’کو روکنے کا عہد کیا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ جائیداد کی رجسٹریشن رد کی جائے اور اگر اس کو فروخت ہی  کیاجائے تو صرف غیر مسلم کو  فروخت کیاجائے۔

قابل ذکر ہے کہ یہ تنازعہ اتوار (30 نومبر) کو اس وقت مزید بڑھ گیا، جب پاس کے گرودوارہ کے باہر اسکوٹر پر سوار دو نامعلوم افراد نے گوشت کے ٹکڑے پھینک دیے۔

مقامی ہندوتوا رہنما سچن سروہی کے مطابق، یہ کام ودھرمیوں (غیر ہندوؤں کے لیے استعمال ہونے والی توہین آمیز اصطلاح) کا ہے۔

اس سلسلے میں اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس، کرائم برانچ، میرٹھ پولیس، آیوش سنگھ نے خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کو بتایا کہ گرودوارہ کے قریب زیر تعمیر عمارت سے گوشت ملا ہے۔

ان کے مطابق، ‘ابتدائی تفتیش سے پتہ چلتا ہے کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے کے لیے نامعلوم افراد نے جان بوجھ کر گوشت پھینکا۔’

بڑھتی ہوئی کشیدگی اور انتظامیہ کی جانب سے امن و امان کی اپیل کے درمیان، گھر خریدنے والے مسلمان سعید احمد کو دل کا دورہ پڑا اور انہیں ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ اس وقت وہ میرٹھ کے ایک اسپتال میں زیر علاج ہیں۔

اپنی ساری جمع پونجی  لگا دی

دراصل 26 نومبر کو 40 سالہ سعید احمد نے میرٹھ کے تھاپر نگر میں وینا کالرا اور ان کے بیٹے انوبھو کالرا سے ایک مکان خریدا ۔

قابل ذکرہے کہ تھاپر نگر ایک پوش کالونی ہے، جہاں زیادہ تر سکھ اور ہندو آباد ہیں۔ سعید نے کالرا خاندان کو 1.46 کروڑ روپے ادا کیے اور مقامی ہندوتوا گروپوں کی مخالفت کے باوجود فوری طور پر اپنے خاندان کے ساتھ وہاں رہنے چلے گئے۔

سعید کے بھائی شاہ روز نے دی وائر کو بتایا،’اس پراپرٹی کو خریدنے کے لیے انہوں نے بھاری قرض لیا تھا۔ ہمارے محلے میں ان کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔ یہ گھر ان کے پرانے کاروبار کےپاس تھا، اس لیے انہوں نے اپنی ساری بچت اس پراپرٹی کو خریدنے کے لیے خرچ کر دی ۔’

شاہ روز نے دی وائر کو بتایا کہ سعید اور انوبھو کے والد نریش (گھر کے سابق مالک) دونوں ایک ہی کاروبار کرتے تھے اور کبھی بی جے پی سے وابستہ تھے۔

یہ سعید کے لیے ایک منافع بخش سودا تھا، کیونکہ کالرا خاندان دودھ کا ہول سیل ڈیلر تھا۔ ان کے بھائی نے کہا،’انہوں نے سوچا  تھاکہ چونکہ وہ باہر جا رہے ہیں، اس لیے انہیں  کالرا کے پرانے گاہک مل جائیں گے۔’

یہ کالرا خاندان کے لیے بھی اتنا ہی منافع بخش تھا۔ انوبھو اور وینا کے ایک حلف نامے کے مطابق، کئی مہینوں تک اپنی جائیداد بیچنے کی کوشش کے بعد، آخر کار انہوں نے اسے سعید کو بیچنے کا فیصلہ کیا کیونکہ انہوں نے انہیں مکان کی اچھی قیمت کی پیشکش کی۔

اس میں کہا گیا ہے کہ کچھ لوگوں نے مسلمانوں کو جائیداد کی فروخت پر اعتراض کیا تھا، لیکن پراپرٹی کا مالک ہونے کے ناطے انہیں خریدار کی شناخت پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

ان کے مطابق،’یہ ہماری ذاتی جائیداد ہے اور جو بھی مانگی ہوئی رقم ادا کرے گا ہم اسے فروخت کر دیں گے اور ہم فوری طور پر قبضہ خریدار کے حوالے کر دیں گے۔’

‘مسلمانوں کو انصاف نہیں’

تاہم، جائیداد کی یہ معمولی فروخت اب فرقہ وارانہ تنازعہ میں تبدیل ہو رہی ہے اور اس نے علاقے میں امن و امان کی سنگین صورتحال پیدا کر دی ہے۔

شاہ روز نے وضاحت کی کہ جائیداد کی چابیاں تین ماہ سے مقامی ایم ایل اے امت اگروال کے پاس تھیں، کیونکہ کالرا خاندان کو امید تھی کہ وہ ایک اچھا سودا حاصل کرنے میں ان کی مدد کر سکتے ہیں۔ جب وہ سودا کروانے میں ناکام رہے تو سعید نے انوبھو کوپیسے دے کر گھر لے لیا۔

دی وائر نے اس معاملے کے تعلق سے مقامی ایم ایل اے امت اگروال سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ تبصرہ کے لیے دستیاب نہیں ہوئے۔

شاہ روز نے مزید کہا،’ہم نے ابھی تک کوئی شکایت درج نہیں کرائی ہے، لیکن اگر میرے بھائی کو کچھ ہوا تو سچن سروہی ذمہ دار ہوں گے۔ ایسا اس لیے ہو رہا ہے کیوں  کہ مسلمانوں کو انصاف نہیں مل رہا ہے۔’

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔