دادری میں پیٹ پیٹ کر مار دئے گئے اخلاق کے بھائی کا کہنا ہے کہ ان کی فیملی پر لگے گو کشی کے الزام کے بعد پولیس نے اب تک کسی رشتہ دار کا بیان تک نہیں لیا ہے۔
دادری میں افواہ کے چلتے پیٹ پیٹ کر مار دئے گئے اخلاق کے بھائی جان محمد کے مطابق اخلاق کی فیملی پر گو کشی کے الزام لگنے کے 14 مہینے بعد بھی پولیس کے ذریعے کسی ممبر سے پوچھ تاچھ نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی کسی کا بیان لیا گیا ہے۔
دی اکانومک ٹائمز کی خبر کے مطابق اس معاملے کی جانچ کرنے والے اتر پردیش پولیس کے سینئر حکام نے رازداری کی شرط پر اس بات کی تصدیق کی ہے کہ مقدمہ اصل میں ٹھنڈے بستے میں چلا گیا ہے۔ ساتھ ہی پولیس اس معاملے میں فائنل رپورٹ داخل کرنے کو لے کر غیر یقینی حالت میں ہے۔
دوسری طرف جان محمد نے پولیس پر الزام لگاتے ہوئے کہا ہے ‘اب تک میرے یا میری فیملی کے ان ممبروں کا بیان تک نہیں لیا گیا ہے جن کے خلاف گو کشی کا جھوٹھا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ پولیس بھی جانتی ہے کہ ملزم کی فیملی سے جڑے لوگوں نے جھوٹی شکایت درج کروائی تھی۔ ہم بھی گائے کی عزت کرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ ہندو گائے کی پوجاکرتے ہیں۔ ہم کبھی کسی گائے کو نہیں ماریںگے’۔
انہوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ واردات کے دو گھنٹے بعد اخلاق پر حملے کے ملزموں کے ذریعے گائے کا گوشت رکھا گیا تھا۔ انہوں نے کہا‘ سال 2015 میں پولیس رات کو قریب 10:30 بجے موقع واردات پر پہنچی تھی اور اخلاق کواسپتال لے جایا گیا تھا۔ اس کے بعد پولیس رات کو قریب 1 بجے گاوں لوٹ کر آئی اور ہمارے گھر سے 200 میٹر دور ٹرانس فارمر کے پاس سے گوشت بر آمد کیا۔ یہ وہاں ملزم نے ہی گوشت رکھا تھا جس سے وہ اخلاق کے ساتھ کی گئی مارپیٹ اور تشدد کو صحیح ثابت کر سکیں’۔
وہ آگے کہتے ہیں‘ سب جانتے ہیں کہ کہیں کسی بھی گائے کا قتل نہیں ہوا تھا۔ اخلاق کو منصوبے کے مطابق افواہ پھیلاکر مارا گیا ہے۔ منصوبہ کے مطابق ہی ملزموں نے گوشت ٹرانس فارمر کے پاس رکھا تھا’۔
اس معاملے میں درج چارج شیٹمیں ضبطی میمو (سیزر میمو) کا حوالہ دیتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ گوشت ایک عوامی جگہ سے ضبط کیا گیا تھا نہ کے اخلاق کے گھر یا ان کی فریج سے۔
اترپردیش پولیس نے شروعات میں اخلاق کے گھر والوں کے خلاف گو کشی کا معاملہ درج کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ بعد میں ملزم نے کورٹ سے متھورا فورینسک لیب کی اس رپورٹ کو عوامی کرنے کو کہا، جہاں اس بات کی تصدیق کی گئی تھی کہ گوشت گائے یا کسی گائے کے نسل کی جانور کا ہے، جس کے بعد اخلاق کے گھر والوں پر جون 2016 میں ایف آئی آر درج کی گئی۔
ایک سینئر پولیس افسر نے اس اخبار سے بات کرتے ہوئے یہقبول کیا کہ گزشتہ سال پولیس اس معاملے میں جانچ بند کرنے والی تھی کیونکہ کسی بھی طرح سے یہ نہیں ثابت کیا جا سکا کہ بر آمد گوشت کا اخلاق کی فیملی سے کوئی تعلق تھا اور نہ ہی اس بات کا کوئی ثبوت ملا کہ کہیں کوئی گوکشی ہوئی تھی۔
انہوں نے بتایا‘ لیکن گزشتہ سال جب ایک ملزم روی سسودیا کی جیل میں ہی موت ہوئی، تب اس کی آخری رسومات کے وقت لوگوں نے بساہڑا گاو ¿ں میں جم کر ہنگامہ کیا۔ وہ اس بات پر اڑے تھے کہ گو کشی کے الزام میں اخلاق کے گھر والوں کو گرفتار کیا جائے۔ دوسرے معاملے کے حقائق کی دوبارہ جانچ کی جائے، لیکن اب تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے’۔
Categories: فکر و نظر