جی ڈی پی کا تین فیصدی سائنسی تحقیق اور دس فیصدی تعلیم پر خرچ کرنے کی مانگ کو لےکر بدھ کے روز ملک بھر میں ہزاروں کی تعداد میں سائنس داں اور ماہر تعلیم سڑک پر اترے۔
دلّی میں مارچ فار سائنس۔ (فوٹو بشکریہ : رامپھل سہاگ / فیس بک)
بدھ کے روز ہندوستان کے قریب 30شہروں میں ہزاروں کی تعداد میں سائنس داں، ریسرچ اسکالر اور طالب علم مارچ کرتے ہوئے نظر آئے۔ ان کی اہم مانگ جی ڈی پی کا تین فیصدی سائنسی تحقیق اور دس فیصدی تعلیم پر خرچ کرنے کی تھی۔
دراصل حکومت کے ذریعے دی گئی رقم کو لے کر سائنس داں خوش نہیں ہیں۔ ان سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جی ڈی پی کا صرف 0.9 فیصد ہی سائنسی تحقیق کےلئے دیا جاتا ہے جو کافی کم ہے۔
اس پروگرام کاانعقاد دہلی، چنئی، بنگلورو، الہ آباد سمیت ملک کے 30 شہروں میں تھا۔ نئی دہلی کے منڈی ہاوس سے لے کر جنتر منتر تک انڈیا مارچ فار سائنس نکالا گیا۔
این ڈی ٹی وی خبر کے مطابق ان سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگر دوسرے ملک کے ساتھ مقابلہ کیا جائے تو سائنسی تحقیق کے معاملے میں ہم لوگ بہت پیچھے ہیں۔ ساوتھ کوریا اپنے سائنسی تحقیق کےلئے جی ڈی پی کا 4.15 فیصد خرچ کرتا ہے۔ جاپان میں یہ 3.47 فیصد ہے جبکہ سویڈن حکومت 3.16 فیصد اور ڈنمارک 3.08 فیصد خرچ کرتا ے۔ ایسے میں اتنی کم رقم میں ان ممالک کے ساتھ سہولتوں اور پیداور کے معاملے میں مقابلہ کرنا ممکن نہیں ہے۔
بنگلورو میں مارچ فار سائنس۔ (فوٹو بشکریہ : نوین گوپال / فیس بک)
وہیں ان سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ امریکہ اپنے جی ڈی پی کا 6.4 فیصد، نیوزی لینڈ 6.9 فیصد، شمالی کوریا 6.7 فیصد، ناروے 6.5 فیصد، اسرائیل 6.5 فیصداور کیوبا جی ڈی پی کا 12.4 فیصد تعلیم کے میدان میں خرچ کرتا ہے جبکہ ہندوستان میں یہ تقریباً 3 فیصد ہے۔ ایسے میں سائنس داں مانگ کر رہے ہیں کہ حکومت ہند تعلیم پر مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے مجموعی خرچ کو جی ڈی پی کا 10 فیصد تک کر دے۔
ساتھ ہی مارچ میں حصہ لینے والے ماہرین تعلیم نے غیر سائنسی خیالات کو لے کر فکر ظاہر کی۔ ان کا کہنا ہے موجودہ اسکول اور یونیورسٹی نظام سے نکلنے والے طالب علموں کے دماغ میں کوئی بھی ’سائنسی دماغ‘نہیں ہے۔ اس لئے سائنس میں مفید کیریئر کے لئے عام طور پر ایسے بچّے غیر مربوط ہیں۔
چنئی میں مارچ فار سائنس۔ (فوٹو بشکریہ : نوین گوپال / فیس بک)
چیزوں کو اور بھی خراب بنانے کےلئے، اسکول کی نصابی کتابوں اور نصاب میں بھی غیر سائنسی خیالات کو پیش کیا جا رہا ہے۔ تعلیمی منتظم اور نصابی کتابوں کے غیر مناسب ذاتی اعتماد کو تعلیمی نظام میں دراندازی کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔
حال کے دنوں میں غیر سائنسی روایات اور توہم پرستی پھیلانے کی کوشش بڑھ رہی ہے۔ کبھی کبھی ثبوتوں کی کمی کے طور پر غیر سائنسی خیالات کو سائنس کی شکل میں مشتہر کیا جاتا ہے جس کو روکا جانا چاہئے۔