صحافت میں دن بہ دن کئی غلط رواج سامنے آ رہے ہیں،جیسے خبروں کو غیر ضروری طریقے سے ترمیم کرنا، پیڈ نیوز، ذاتی تعلقات کے نفع کے لئے کچھ خبروں کو چلانا وغیرہ۔ میڈیا ادارہ اب خبر تک پہنچنا نہیں چاہتے، اس کے الٹ،انہوں نے صحافت کی آڑ میں تجارتی معاہدے کرنے شروع کر دئے ہیں،کچھ اہم اطلاعات اور خبریں عوام تک پہنچتی ہی نہیں ہیں کیونکہ میڈیا ادارہ ان کو کسی شخص یا خاص ادارہ کو نفع پہنچانے کے مقصد سے سامنے لانا ہی نہیں چاہتے۔ آہستہ آہستہ ہی صحیح پر عوام بھی اس بات کو سمجھنے لگی ہے کہ صحافت خطرے میں پڑ رہی ہے۔ عام لوگوں کا میڈیا پر اعتماد کم ہو رہا ہے۔ وہی میڈیا جو جمہوریت کا ‘ چوتھا ستون ‘ ہونے کا دم بھرتا تھا،اپنی معتبریت کھوتا جا رہا ہے۔
مئی،2015 میں ‘ د وایر ‘ کے وجود میں آنے کی خاص وجہ یہی تھی۔ اب اسی مقصد کے ساتھ جلدہی ہم اس کی ہندی ورژن لا رہے ہیں۔ اگر صحافت کو بچائے رکھنا ہے تو اس کو مدیرانہ اور اقتصادی آزادی دینی ہی ہوگی۔ اور اس کا ایک ہی راستہ ہے کہ عام لوگوں کو اس میں شراکت دار بننا ہوگا۔ جو قاری اس طرح کی صحافت بچائے رکھنا چاہتے ہیں، سچ تک پہنچنا چاہتے ہیں،چاہتے ہیں کہ خبر کو صاف گوئی سے پیش کیا جائے نہ کہ کسی کے فائدے کو دیکھکر تو وہ اس کے لئے سامنے آئیں اور ایسے اداروں کو چلانے میں مدد کریں۔
ایک ادارے کی شکل میں ‘ د وایر ‘ کے ہندی ورژن مفاد عامہ اور جمہوری اقدار کے مطابق چلنے کے لئے پابند ہے۔ خبروں کے تجزیہ اور ان پر تنقید کرنے کے علاوہ ہمارا مقصد رپورٹنگ کی روایتی تصویر کو بچائے رکھنے کا بھی ہے۔ جیسےجیسے ہمارے وسائل بڑھیںگے،ہم زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچنے کی کوشش کریںگے۔
اس مقصد کی طرف یہ ہمارا چھوٹا ہی صحیح پر اہم قدم ہے۔ صحافت کی اس صورت کو لےکر ہماری سوچکے راستے میں صرف ضروری وسائل کی عدم دستیابی ہی رکاوٹ ہے۔ ہمارے قرأ سے بس اتنی گزارش ہے کہ ہمیں پڑھیں،شیئر کریں،اس کے علاوہ اس کو اور بہتر کرنے کے سجھاؤ دیں۔ ۔
Categories: Uncategorised