مسلمان کو مارنے کے لئے آپ کو تیار نہیں کیا جا رہا ہے۔ ایک دن کسی کو بھی مارنے کے لئے آپ کا استعمال کیا جائےگا۔ جھارکھنڈ میں بچّا چوری کی افواہ میں نعیم اَور حلیم کے ساتھ اُتّم اَور گَنگیش کو بھی مارا گیا۔
اسپیکر صاحبہ کا بیان شائع ہوا ہے۔ وہ کہہ رہی ہیں کہ کہانی گو کی طرح ہو جاؤ۔تلخ سچ مت بولو۔ سرکار سے بولو تو ذرا محبت سے بولو۔ ایسا شائع ہے۔ میں اُن کا بیان سُننا چاہتا ہوں۔ اَگر آپ ہمیں کہانی کار بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اِندر کے دربار کے دیوتاؤں کی شکلیں بھی تو دِکھا دِیجئے۔ کون ہیں اِن میں سے جو دیوتا ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں جِن کے لِئے ہم داستان گو بن جائیں اَور تلخ سچائی کا ذکر نہ کریں ۔ اَور وہ بھی سچ وہ طئے کر رہی ہیں کہ کیا پسندیدہ سچ ہوگا، کیا نا پسندیدہ سچ ہوگا۔
کَرناٹَک کے اسپیکر نے جو کیا وہ تو سامنے ہے۔ ایک طرح سے یہ جو کوف زدہ کرنے کا پروجیکٹ ہے، یہ اب سامنے آ رہا ہے۔ اور زیادہ آئےگا۔ کَرناٹَک کے اسپیکر نے جو کیا ہے (کَرناٹَک اسمبلی کے صدر کے بی کولیواڈ نے ممبران اسمبلی کے خلاف مضمون لِکھنے کے معاملے میں معروف نامہ نگار رَوی بیلاگیرے سَمیت کنّڑ رسالہ کے دو نامہ نگاروں کو ایک سال جیل کی سزا سُنائی)۔
آپ دیکھئیے کہ ایک بی جے پی کا ممبر اسمبلی ہے، ایک کانگریس کا ممبر اسمبلی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے کردار پر کیچڑ اُچھال رہے ہیں۔ اخبار کے خلاف ٹرولِنگ ہوئی اَور فیس بک نے اخبار کا اکاؤنٹ بند کر دیا۔ وارتا بھارتی وہاں کا 15—20 سال کا پُرانا باو قار اخبار ہے۔ فیس بک اُس کا اکاؤنٹ سسپینڈ کر دیتا ہے، جبکہ یہ جو گالی دینے والوں کی جماعت ہے، جو ٹرول ہیں، اُس کو سسپینڈ نہیں کیا جاتا۔ وارتا بھارتی کے ایڈیٹر نے باقاعدہ فیس بک کو خط لِکھا ہے۔
یہ سب واردات اِتنی ہو رہی ہیں کہ ہم آپس میں ہی ٹرَیک نہیں رکھ پا رہے ہیں کہ کِس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ اَور اب یہ عام ہو گیا ہے۔ گلی سے لےکر چوراہے تَک ایک بھیڑ کھَڑی ہے جو آپ کو شکل سے پہچانتی ہے۔ آپ کو پریس کا کام کرتے دیکھےگی تو پہلے آپ پر شک کرےگی، پھر آپ کی پٹائی کرےگی۔
جو کارواں مَیگزین نے شائع کیا ہے بسِت مَلِک کی تفصیل، وہ پَڑھا بھی نہیں جاتا ہے۔ اُس میں وکیل کا کریکٹر ہے۔ یہ جو وکیل کا کریکٹر ہے، یہ ہرجگہ ہجوم کی شکل میں ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ ہے۔ بہتر ہوگا کہ ہم اِس کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ یہ وکیل کا کردار وہاں کیا کر رہا ہے؟ یہ ایک طرح سے اُس بھیڑ کے لئے لیگل ایمپاورمینٹ سیل ہے۔ تین چار ایسی واردات ہم نے دیکھی ہیں جہاں وکیل ہیں۔
پٹیالہ کورٹ کا تو آج تک کوئی نتیجہ ہی نہیں آیا کہ وہاں کیا ہوا۔ وکیلوں کی ایک فوج آگے کرکے اِس کو انجام دیا جا رہا ہے۔ یوپی میں آئی پی ایس پِٹ گئے اَور اُن کے آئی پی ایس کو دو دن لگا بولنے میں۔
جو ڈر کا نیشنل پروجیکٹ ہے، وہ پُورا ہو گیا ہے۔ ہائی وے بننے سے پہلے، سب کو نَوکری مِلنے سے پہلے ڈر سب کو دے دیا گیا ہے۔ ہر آدمی کے لئے ڈر ایک روزگار ہے اَور ہم طرح طرح سے خوف زدہ ہیں۔ گھر سے نِکلتے ہیں تو سو طرح کی چوکسی کا خیال رکھنا پڑتا ہے کہ یہاں دیکھ لینا، وہاں دیکھ لینا۔
جو گودی میڈیا ہے، وہی ہندوستان میں محفوظ ہے۔ آپ گود میں بیٹھ جائیے، آپ کو کہیں کوئی کچھ نہیں بولےگا۔ ٹیلی ویژن پر بیٹھکر بھجن کرتے رہئیے، طنبورہ لے لِیجئے، نارائن نارائن کرتے رہئیے ۔ یہ ہمارے اسپیکر ہیں، جِن کو جمہوریت کی سَب سے مضبوط شکل مانا جاتا ہے، اُن کے اس طرح کے خیالات ہیں۔
جو راجَستھان میں ہوا اسعد اشرف اَور انُپم کے ساتھ، جو پولس نے کیا کہ تُم کو جوتے ماروںگا، چاہے میں بر خواست ہی ہو جاؤں، اُس کی ہمت اس لئے بڑھی ہوئی ہے کیونکہ اُس کو معلوم ہے کہ اِس ڈرکے نیشنل پروجیکٹ کی جو انتظامیہ ہے، اُس کا پولِٹیکل ماسٹر ہے۔ یہ ہوا میں نہیں بنا ہے۔
جس طرح سے چینلوں کی بات ہو رہی ہے، کچھ دن میں ہم ریپبلِک بھول جائیںگے اَور چینل سے ہی اِنڈیا کو پہچاننے لگیںگے۔ یہی ہمارا اِنڈِیا ہے۔ وہ دن زیادہ دور نہیں ہے۔ ہفتے دس دن میں ہی وہ پروجیکٹ بھی پُورا ہو ہی جائےگا۔ کچھ دن میں وہ اپنا امیدوار بھی کھَڑا کریںگے اَور 80 فیصدی ووٹ سے وہ جیت بھی جائیںگے۔
میں دیکھ رہا ہوں کہ ہندوستان ایک بھیڑشاہی بن گیا ہے اَور اُس بھیڑشاہی میں ہمارے ہی اپنے ہیں۔ ہمارے ہی رشتہ داروں کے بہت سے حصے اُس بھیڑشاہی میں ہیں جو کسی کو بھی لاٹھی سے مار رہے ہیں، جو کسی کو گولی سے مار رہے ہیں۔
ریل گاڑی میں ہمارے دوست اپنی ماں کے ساتھ جا رہے تھے۔ وہ پُرانے خیال کی خاتون ہیں، بُرقع پہنی تھیں۔ اچانک بھیڑ پُورے راستے ریل گاڑی میں اُن پر طعنہ کس رہی تھی۔ ایک دو گھنٹے گُزرتے گُزرتے اُن سب کی خوداعتمادی جا چُکی تھی۔ آپ کو اَگر سروے کرنا ہے تو آپ دیکھ لِیجئے کہ ریل گاڑی میں سفر کرنے والے لوگ جو مسلم ہیں وہ اپنے ساتھ کھانا کیا لے جاتے ہیں؟ اُن کو اِس بات کا ڈر ہو گیا ہے کہ کوئی چیک کر لےگا۔ اس لئے اَچھا کچھ یعنی اَنڈا کری بھی مت رکھنا۔
تو اِنہوں نے ڈر کا اپنا پروجیکٹ پُورا کر دیا ہے، اُس میں ہم سَب سے چھوٹِی اکائی ہیں اَور بہت آسان اکائی ہیں۔ اب یہ نیوزروم تَک چلا گیا ہے۔ یہ کَیسے بہتر ہوگا، مُجھے نہیں معلوم ۔ یہ مار دئے جانے والے، مار کھانے والوں کے لئے ہم ہیلپ لائن بنا سکتے ہیں۔ نیوزروم میں سب برجستہ ہو گئے ہیں اُس داستان گو کی بارہ دری سے۔ صحافت کے لئے سَب سے بَڑی نشانی خبر چی بن گئے ہیں۔ کب بن گئے، ہمیں پتہ بھی نہیں چلا۔
ہمیں یہ دیکھنا پڑےگا کہ ہمارے بہت سارے دوست جو قائم مقام صحافت کا بیڑا اٹھا رہے ہیں، جِن کی چھوٹِی سی ویب سائٹ ہے، چار لوگ مِلکر چلاتے ہیں، اب اُن سب کی باری ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جِن کے پاس ایک لاکھ، دو لاکھ ہِٹس ہیں، پانچ لاکھ ہِٹس ہیں۔ پھر بھی، جب تمام جگہوں پر آوازیں دَبا دی جاتی ہیں تو یہ رپورٹ کر دیتے ہیں۔ کہیں سے کوئی شیئر ہو جاتا ہے، کِسی کے پاس پہُنچ جاتا ہے۔ اب اِن کی بھی پٹائی ہونے والی ہے، لوگ اِن کو ماریںگے۔ اَور یہ پوری طرح سے سیاسی تیاری کے ساتھ ہو رہا ہے۔ ہم کِسی غفلت میں نہ رہیں۔
اُن کے بہت سارے جو لوکل ایجنٹ ہیں، پولیٹکل ایجنٹ ہیں، یہ وینڈر کا کام کرتے ہیں، واٹس ایپ سے فیڈِنگ کا کام کرتے ہیں، یہ اب مارنے کا بھی کام کر رہے ہیں۔ کیونکہ اِتنے کم وقت میں کوئی دس لڑکے نہیں آ سکتے تھے ڈنڈا لےکر مارنے کے لئے۔ بہت ہی کم وقت لگا ہوگا کسی کو وہاں جَمع کرنے میں، کیونکہ اُن کی مشینری تیار ہے واٹس ایپ کے ذریعے۔ تو اب آپ فیلڈ رِپورٹِنگ بھی نہیں کر پائیںگے۔
نوٹ بندی کے دوران مَیں نے خودہی دیکھا کہ اِتنا مشکل ہو گیا کہیں جانا۔ آپ ایس پی جی تو لےکر نہیں جائیںگے نہ؟ جو کہیں نہیں جاتے، اُن کو ایس پی جی دے دی گئی۔ جو کبھی نہیں جائیںگے اُن کو آپ نے سکیورٹی دے رکھی ہے۔ تو کہاں جائیں اَور کِتنے کم وقت میں لوگوں سے بات کرکے آئیں۔ اِس کے لِئے اُنہوں نے اپنی تیاری پُوری کر لی ہے۔ اب راستہ ہمیں نِکالنا پڑےگا کہ اِس خوف کا کیا کِیا جائے۔
خوف کا ایسا حصار ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ جہاں ہر دُوسرا آدمی فون پر بات کر رہا ہو، آپ اُس سے کہہ دِیجئے کہ میرا فون رِکارڈ ہو رہا ہے تو سامنے والا فون کاٹ دےگا۔ وہ بات کرتا ہے تو یہی کہہکر شروع کرتا ہے کہ آپ کا فون رِکارڈ تو نہیں ہو رہا ہے؟ تو کر لو بھائی، میرا فون رِکارڈ کرکے قَومی سطح پر نشر کر دو کہ میں دن بھر کِس کِس سے کیا کیا باتیں کرتا ہوں۔ سب کا کر دو اَگر اِسی سے آپ کا کچھ بھلا ہوتا ہو۔
صرف اِتنا کہہ دینا کہ خطرناک ہے، کافی نہیں ہے۔ میں استعمال تو نہیں کرنا چاہتا تھا، بہت سارے لوگ کہتے تھے، کوئی ہِٹلر سے موازنہ کرتا تھا، کوئی اُس سے موازنہ کرتے تھے، مُجھے ہِٹلر تو نہیں دِکھتا تھا، لیکِن گوئےبلس آ گیا ہے آپ کے پیشے میں۔ وہ ہے، وہ نظر نہیں رہا ہے، اُس نے اپنا کام شروع کر دیا ہے۔
اُس گوئےبلس کا ہی کام ہے کہ ایک معاملہ سات سال پُرانا ہے، اُس کو لےکر ایک ٹیلی ویژن چینل رات بھر پروگرام کرتا ہے۔ تین سال سے میں تو خود پریشان ہوں اَور خود کہہ رہا ہوں کہ ٹی وی مت دیکھو۔ بند کر دو اِس ٹیلی ویژن کو دیکھنا۔ لوگوں کو بتانا پڑےگا کہ آپ جو دیکھ رہے ہیں وہ کوڑا ہے۔
آپ کو مسلمان کو مارنے کے لئے تیار نہیں کیا جا رہا ہے۔ ایک دن آپ کا استعمال کیا جائےگا کسی کو بھی مارنے کے لئے۔ جھارکھنڈ میں بچّا چوری گینگ کی افواہ پھیلی تو اُس میں اُتّم اَور گنگیش کو بھی مارا گیا، نعیم اَور حلیم کے ساتھ۔ گریٹر نوئڈا میں کوئی گائے لےکر جا رہا تھا بھوپ سنگھ اَور جبر سنگھ، اُن کو کہنا پڑا کہ میں مسلمان نہیں ہوں، مُجھے مت مارو۔
تو یہ ایک پروجیکٹ ہے کہ اِس بھیڑ میں ہر آدمی کو ممکنہ قاتل میں بدل دو۔ بھیڑ کو مینج کرنا بَڑا آسان ہوتا ہے۔ یہ ہجوم کوئی خریدتا نہیں لیکِن یہ کراؤڈ ایک گرونمنٹ حاصل کرتی ہے ہرجگہ۔ اِس کی اپنی ایک سرکار ہے، اِس کو حمایت کرنے والے لوگ ہیں۔
ہم صرف جمہوری بحث کا گَلا گھونٹ دینے کے لئے نہیں لڑ رہے ہیں، ہمارے لِئے اب یہ مشکل ہو گیا ہے کہ اب ہم ہمارے مَحَلّے میں بھی نہیں نِکل پائیںگے۔ اِس کی اِنہوں نے تیاری کر دی ہے۔ کئی بار آپ سوچتے ہوںگے کہ جِس کا چہرہ زیادہ پہچانا جاتا ہے، اُس کو زیادہ خطرہ ہوگا۔ پَر بسِت مَلِک کو کون پہچانتا ہے؟ جب تک وہ مَلِک سے کنفیوز ہو رہے تھے، تب تک تو ٹھِیک تھا، لیکِن جیسے ہی وہ اردو دیکھیںگے، کہیںگے یہ تو پاکِستان کی زبان ہے۔ ہم اِس سطح پر پہُنچ گئے ہیں کہ اردو کہیں لِکھا دیکھیںگے تو کہیںگے کہ یہ پاکستانی ہے اَور اُس کو مارنا شروع کر دیںگے۔
کافی تشویش کی بات ہے کہ بہت سے لوگ نہیں آئے ہیں۔ ہم میں سے بہت سے لوگ اِن واردات پر کوئی رد عمل نہیں دیتے ہیں۔ وہ بھی نامہ نگار ہیں اَور ہمیں لگتا ہے کہ اُن کی ایک خاموش رضامندی ہے اس طرح کی واردات کو لےکر۔ میں ایسے بہت سے نامہ نگاروں کے درمیان ہوتا ہوں، اُن کو بے چین ہوتے نہیں دیکھتا ہوں۔ یہ مُجھے بَڑا خطرناک لگتا ہے کہ اب آپ کی یہ بھی شراکت داری چلی گئی کہ آپ کا کوئی دوست پِیٹ دیا گیا اَور آپ کو اُس سے بےچینی نہیں ہو رہی ہے۔
تو اب یہ پروجیکٹ پُورا ہو گیا ہے۔ ہمیں ہرہفتہ کا کلینڈر نِکال لینا چاہئے۔ ابھی تو ہم مذمت کرنے کی میٹنگ کر رہے ہیں، جلد ہی ہم خراج عقیدت کی میٹنگ میں مِلیںگے۔ شکریہ۔
(صحافی باسط ملک 9 جون کو دِلّی کے سونِیا وِہار میں رِپورٹِنگ کرنے گئے تھے۔ وہاں پر ایک جگہ کو لےکر دو طبقات میں تنازعہ ہے۔ ایک گروہ اُس کو مسجد کہہ رہا ہے۔ مَلِک کا الزام ہے کہ جیسے ہی لوگوں کو پتہ چلا کہ وہ مسلم ہیں،بھیڑ نے اُن پر حملہ کر دیا۔ اِس کی مخالفت میں پریس کلب میں رکھے گئے نامہ نگاروں کے اجتماع میں رویش کُمار نے یہ تقریر کی۔)
Categories: فکر و نظر