ملک کے سب سے بڑے انگریزی اخبار ڈان نے پاکستان کی ستر سالہ تاریخ پر سولہ خصوصی رپورٹوں کی ایک سیریز کی اشاعت کا اعلان کیا ہے۔ ً پاکستان اور ڈان کے ستر سال ً نام کی اس سیریز کے پہلے مضمون میں 1947 سے 1951 تک کے واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔
ہندوستان کی طرح ہمارے پڑوسی ملک پاکستان میں بھی پچھلے ہفتے آزادی کی سترویں سالگرہ کا جشن روایتی جوش وخروش سے منایا گیا۔ اس موقع پر پاکستانی اخبارات میں ہر سال کی طرح سیاسی مبصرین نےخصوصی مضامین لکھ کران ستر سالوں میں ہوئی ملک کی کامیابیوں اور ناکامیوں کاجائزہ لیا۔ الگ الگ صحافیوں نے الگ الگ زاویوں سے اپنے تبصرے پیش کئے اور قارئین کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ 14 اگست 1947کے دن اپنی تشکیل سے آج تک اس مسلم ہوم لینڈ نے کون سی راہ اپنائی۔ تاہم ایک نکتہ جو تقریباً تمام مضامین اور اداریوں میں مشترک نظر آیا وہ تھااس بات کا احساس کہ ملک ان ستر سالوں میں قائد اعظم کے نظریہ پاکستان سے کافی دور چلاگیا ہے۔ زیادہ تر مبصرین کے مطابق پاکستان کی موجودہ صورتحال کی اہم وجہ جناح کے اصولوں اور احکامات سے یہی دوری ہے۔
مقبول اردو روزنامہ ً نوائے وقت ً میں چودہ اگست کے شمارے میںً قائد اعظم کا پاکستان: کیا کھویا کیا پایا ً کے عنوان سے محمد اکرم چودھری کا ایک دلچسپ مضمون شائع ہو ا جس کا لب ولباب یہ ہے کہ اس وقت ملک کی حالت ناگفتہ بہ ہے اور اس کی وجہ ہے معاشرے میں اتحاد اور جذبہء قومیت کاشدید فقدان۔ ً وہی گروہ بندیاں، دھڑے بندیاں، مخالفتیں، نفرتیں، سیاسی مذہبی گروہی دھڑوں میں بٹے ہوئے لوگ جو کسی اعتبار سے (ایک) قوم ہونے کا نقشہ نہیں پیش کرتے ہیںً چودھری نے لکھا ہے۔ان کے مطابق بھوک ، افلاس ،بیروز گاری اور ناانصافیوں کا شکار قوم بھلا آزادی کا جشن کیسے منا سکتی ہے۔ ً کیا یہ ہے قائد اعظم کا پاکستان؟ کیا ہم نے ان عظیم لوگوں کی قربانیوں کا صلہ چور بازاری، رشوت ، کرپشن کی صورت میں دیا ہے؟ چودھری نے سوال کیا ہے۔مضمون کے دوسرے حصے میں بابائے قوم کی مدح سرائی کرتے ہوئے چودھری کہتے ہیں کہ یہ ان کیً فولادی اور با کردار قیادتً کا کرشمہ تھا کہ پاکستان کسی جنگ کے بغیر بن گیا۔ اس کے بعد انہوں نے ایک ممتاز دانشور کا یہ قول ن کیا ً جب اللہ تعالیٰ کو کسی قوم پر رحم آجائے تو وہ اس قوم میں محمد علی جناح جیسی ہستی پیدا کردیتا ہےً ۔ مضمون کے اخیر میں چودھری نے لکھا ہے کہ پاکستانی عوام نے جناح کی قربانیوں کی کبھی قدر نہیں کی اور نہ ہی ان کے احکامات کی تعمیل کی۔ ً اس لئے آج ہم نے کچھ نہیں پایا بلکہ سب کچھ کھویا ہے۔ہم متحدہ پاکستان کو سنبھال نہیں پائے۔۔ہم 70 سال میں بھی ترقی نہیں کرپائےً ۔
چودھری نے اپنے مضمون میں ملک کے ماضی اور ستر سال کی کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کیا تو پاکستان کے کہنہ مشق صحافی اور انگریزی اخبار The Friday Times کے مدیر نجم سیٹھی کو اس کا مستقبل بے حد تاریک نظر آتا ہے اور اس کی وجہ نواز شریف کو وزیر اعظم کے عہدے سے معزول کئے جانے کے بعد پیدا ہوا سیاسی بحران ہے۔ کشیر الاشاعت روزانہ ً جنگ ً کے ادارتی صفحہ پر تیرہ اگست کے دن چھپے مظمون میں سیٹھی نے اپنے ان خدشات کا اظہار کیا ہے۔ً خطرات کرپشن سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ عدلیہ ، فوج اور پاکستان تحریک انصاف کی پیدا کردہ حالیہ بہار پاکستان بحران کو مسلسل گہرا کر رہی ہے جس کے دور رس نتائج خوفناک نظر آتے ہیں۔ایک بھیانک مستقبل منہ کھولے ہمارے سامنے کھڑا ہے۔ًایک سروے کا حوالہ دیتے ہوئے وہ مزید لکھتے ہیں کہ ملک کی نصف آبادی 20 سال سے کم عمر اور 65فی صد آبادی 30 سال سے کم عمر لوگوں پر مشتمل ہے۔اگلے سال تک مزید 1.5کروڑ نوجوانوں کو ووٹ دینے کا اختیارمل جائے گا۔سیٹھی کو ڈر ہے کہ اگر نئی نسل کی اتنی بڑی اکثریت نے اگلے سال کے مجوزہ انتخابات میں مذہبی اور شدت پسند دائیں بازو والی پارٹیوں کو ووٹ دے کر جتا دیا تو ً ملک کو مشرق وسطیٰ جیسے تشدد، عدم استحکام اور خانہ جنگی سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ً
جنگ کے اسی شمارے میں شائع شدہ ایک مضمون ً ستر سال بعدً میں تجزیہ نگار ڈاکٹر صفدر محمود نے پاکستان کی معاشی بد حالی پر تبصرہ کیاہے۔ ڈاکٹر محمود کے مطابق چین پاکستان کے دو سال بعد آزاد ہو ا اور سنگاپور، ملیشیا اور کوریا نے محض تیس سال قبل معاشی سفر کا آغاز کیا تھا۔ ً لیکن یہ تمام اقوام دیکھتے دیکھتے ہمیں بہت پیچھے چھوڑ گئے۔۔۔گذشتہ دہائیوں کے دوران پاکستان معاشی دنیا میں محض بھکاری بن کر رہ گیا ہے اور قرضوں کے عوض میں اپنا ۔ مستقبل گروی رکھ چکا ہےً۔ ڈاکٹر محمود نے پاکستان کی اقتصادی بد حالی کے لئے اس کی ناہل اور بد عنوان قیادت کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ً ً تیزی سے معاشی ترقی کا سفر طے کرنے والے ممالک اور پاکستان میں بنیادی فرق قیادت کا ہے۔اہلیت ، بصیرت ، وژن اور کردار سے عاری قیادت ملک میں کوئی بڑی تبدیلی لاسکتی ہے اور نہ قوم کی صلاحیتوں کو ابھار سکتی ہے۔۔صرف باکرداراور سچی قیادت لوگوں کی سوچ، انداز، جذبے اور ذہنی کیفیت کو بدلتی ہے اور تاریخ میں ہمیشہ زندہ جاوید رہتی ہے۔معاشی ترقی کا خواب شرمندہء تعبیرکرنے کے لئے محنت، جذبے ، نظم و ضبط،منزل کے حصول کی شدید خواہش اور ولولے کی ضرورت ہوتی ہے اور قوم میں ان خوبیوں کی لہر اس وقت پیدا ہوتی ہے جب قوم کو اپنے لیڈر کی سچائی اورکردار پر اندھا یقین ہوً ً تجزیہ نگار نے لکھا۔ان کے مطابق قائد اعظم ایک سچے لیڈر تھے جن پر پاکستانیوں نے مکمل اعتماد کیا اور ان کی توقعات پر پورے اترے اور انہوں نے جو جو وعدے کئے تھے سب پورے کئے اور اپنا سب کچھ ملک اور قوم پر نچھاور کردیا۔ اس کے برعکس ان کے انتقال کے بعد ملک کو جو لیڈر ملے ان میں جناح جیسی کوئی خوبی نہیں تھی۔ ً جب حکمراں لوٹ کھسوٹ، قانون شکنی، جھوٹ و فریب، اقربا پروری کی خود مثالیں قائم کریں توعوام و خواص سے ایمانداری، قانون پرستی اور سچائی کی توقع عبث ہے۔ً
پاکستانی اخبارات میں جہاں ایک طرف نااہل اور مفاد پرست قیادت کو پاکستان کی بدحالی اور مصائب کے لئے ذمہ دار ٹھہرایاگیا ہے وہیں چند تجزیہ نگاروں نے فوجی جنرلوں کے ہاتھوں بار بار جمہوریت کی پاما لی کو بھی اس کا سبب قرار دیا ہے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہئیے کی ان ستر سالو ں میں پاکستان میں تقریباً نصف مدت تک فوجی آمریت قائم تھی ۔ حیرت انگیز طور پر بہت کم تجزیہ نگاروں نے اپنے مضامین میں بانگلہ دیش کی آزادی کا نہایت سرسری طور پر تذکرہ کیا حالانکہ سقوط پاکستان بلاشبہ ہمارے پڑوسی ملک کی سترسالہ تاریخ کا سب سے اہم واقعہ تھا۔
ملک کے سب سے بڑے انگریزی اخبار ڈان نے پاکستان کی ستر سالہ تاریخ پر سولہ خصوصی رپورٹوں کی ایک سیریز کی اشاعت کا اعلان کیا ہے۔ ً پاکستان اور ڈان کے ستر سال ً نام کی اس سیریز کے پہلے مضمون میں 1947 سے 1951 تک کے واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں نہ صرف جناح کے بطورگورنر جنرل اور لیاقت علی خان کے بطورپہلے وزیر اعظم کے دور کا جائزہ لیا گیا ہے بلکہ اس دور کی دو عظیم ادبی شخصیات فیض احمد فیض اور سعادت حسن منٹو کی زندگی اور فن پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ ملک کے مایہ ناز مورخ اور صحافی یہ خصوصی مضامین تحریر کررہے ہیں۔ ان رپورٹوں کے ساتھ ڈان کے آرکائیو سے ان ادوار کی نادر تصاویر بھی شائع کی جارہی ہیں۔ ان سولہ رپورٹوں کی اشاعت کا سلسلہ 25 دسمبر کو جناح کے یوم پیدائش پر اختتام پذیر ہوگا۔ قارئین کی اطلاع کے لئے ڈان کے بانی جناح تھے جنہوں نے 1941 میں یہ اخبار مسلم لیگ کے ترجمان کے طور پر شائع کیا تھا۔ آج بھی ڈان کے ہر شمارے کی پیشانی پر جناح کی تصویر آویزاں ہوتی ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور روزنامہ دی ایشئن ایج ( کلکتہ ) کے سابق ایڈیٹر ہیں۔ )
Categories: فکر و نظر