خبریں

سپریم کورٹ کے حکم کے بعد مسلم پرسنل لا بورڈ نے کہا، 10 ستمبر تک انتظار کیجئے

لکھنؤ :  تین طلاق کے سلسلے میں آج سپریم کورٹ کے فیصلے کا قانونی مطالعہ کرنے کے بعد آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ 10 ستمبر کو بھوپال میں مجوزہ اجلاس میں غورخوض کرے گا۔ عدالت عظمی کے فیصلے کے فوری بعد بورڈ کے رکن مولانا خالد رشید فرنگي محلی نے “يواین آئی” کو بتایا کہ 10 ستمبر کو بھوپال میں ہونے والی میٹنگ میں تین طلاق کے سلسلے میں ملک کے قانون کو ذہن میں رکھتے ہوئے شریعت کے دائرے میں کوئی فیصلہ لیا جا سکتا ہے، اگرچہ اس سے قبل سپریم کورٹ کے فیصلے کا قانونی مطالعہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ابتدائی طور پر بورڈ کا خیال ہے کہ پرسنل لا میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے، لیکن بورڈ بھی چاہتا ہے کہ ملک کے قانون پربھی مکمل طور عمل کیا جانا چاہیے۔ 10 ستمبر کو بھوپال میں اسلامی اسکالرس اور قانون کے ماہرین بیٹھیںگے۔ مل بیٹھ کر ہی کوئی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے ۔

مولانافرنگي محلی نے کہا کہ ایک ساتھ تین طلاق کو روکنے کے لیے بورڈ 1970 سےمصروف عمل ہے۔ بورڈ نے بھی مشاورت جاری کی ہے۔ بورڈ مردوزن کے تنازعات کو باہمی صلح سمجھوتے کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ طلاق کی نوبت ہی نہیں پہنچنی چاہئے۔ بیک وقت تین طلاق کو روکنے کے لئے، بورڈ نے ملکی پیمانے پر مہم بھی چلا رکھی ہے۔ اس کے مثبت نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں۔ انہوں نے دعوی کیا کہ طلاق بدعت کے واقعات میں بھی کافی کمی آئی ہے۔ سوسائٹی طلاق بدعت کی روایت کو ختم کرنے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اسلام میں خواتین کو اولین درجہ حاصل ہے۔ اسلام میں خواتین کو کافی اختیارات حاصل ہیں۔ خواتین شریعت
کے دائرے میں رہتے ہوئے شوہر کے ساتھ پوری رضامندی کے ساتھ رہ سکتی ہے اور جب باہمی رضامندی ہوگی تو طلاق کا سوال کہاں پیدا ہوگا؟

ادھر، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے سپریم کورٹ کے احکامات کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارٹی کی پہل سے اس سماجی مسائل کے تئیں لوگوں میں بیداری آئی ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی فوری طور پر اس پر روک لگاتے ہوئے مرکز کو قانون  بنانے کا حکم دیا ہے۔ پارٹی کے ریاستی جنرل سکریٹری وجے بہادر پاٹھک نے کہا کہ بی جے پی خواتین کو بااختیار بنانے کے حق میں ہے۔ پارٹی کی کوششوں سے ہی اس مسئلے پرمعاشرے میں بیداری آئی اور معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچا۔ عدالت کے حکم کے مطابق ایوان اب اس معاملے میں مناسب فیصلہ کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی کی خواہش تو یہ تھی کہ معاشرہ اس معاملے کو اپنے طور پر
حل کرے ، لیکن عدالت کے حکم کے مطابق،اب پارلیمنٹ کا کردار اس معاملے میں کافی اہم ہوگا۔

فیصلے پر بنگال کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کا مختلف نظریہ

سپریم کورٹ کے فیصلے کا سی پی ایم نے خیرم مقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک سماجی مسئلہ ہے اس لیے پر سیاسی بیان بازی اور مذہبی اشتعال انگیزی سے گریزکرتے ہوئے سماجی ناہمواری کے خاتمے کیلئے کوشش شروع کرنی چاہیے وہیں ترنمول کانگریس کے لیڈر و ممتا بنرجی کی وزارت میں لائبریری و ماس ایجوکیشن کے وزیر مولانا صدیق اللہ چودھری جو مغربی بنگال جمعیۃ کے صدر بھی ہیں نے کہا کہ مذہبی معاملات میں سپریم کورٹ کو مداخلت کرنے کا حق نہیں ہے اور پارلیمنٹ مسلمانوں کے عائلی مسائل پر قانون سازی نہیں کرسکتی ہے۔

کلکتہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سی پی ایم پولٹ بیورو کے ممبر محمد سلیم نے کہا کہ پارٹی پولٹ بیورو کی جانب سے اس پر باضابطہ بیان جاری ہوگا ۔مگر جہاں تک سپریم کورٹ کے فیصلے کا سوال ہے تو اس میں کوئی بھی نیا پن نہیں ہے۔2002میں بھی سپریم کورٹ نے اس طرح کی بات کہی تھی ۔

محمد سلیم نے کہا کہ طلاق بدعت کا مسلم سماج میں بہت ہی کم رواج ہے اور یہ جہالت ، ناخواندگی کی وجہ سے ہوتا ہے ۔اس لیے یہ مسئلہ مکمل طور پر سماجی ہے اس کو حل کرنے کیلئے سماجی طور پر کوشش کرنی چاہیے مگر افسوس ناک بات ہے کہ وزیر اعظم مودی اور ان کی سیاسی جماعت نے اس مسئلے کو سیاسی بنادیا اس کی وجہ سے پیچیدگیاں پیدا ہوگئی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ سے فرقہ واریت میں اضافہ ہوا ہے ۔اس کے ساتھ محمد سلیم نے کہا کہ مسلمانوں کی مذہبی قیادت نے بھی اس مسئلے کو اپنی انا سے جوڑدیا تھا اور اس کا نقصان بھی مسلم سماج کو اٹھانا پڑاہے۔

دوسری جانب ممتا بنرجی کی وزارت میں مولانا صدیق اللہ چودھری نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ متضاد ہے ۔کیوں کہ ایک طرف عدالت نے خود کہا ہے کہ مسلم پرسنل میں مداخلت نہیں کی جائے گی اور وہ بالکل محفوظ رہے گا۔مگر دوسری طرف تین طلاق کے عدم وقوع کا فیصلہ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں نہیں معلوم ہے کہ ترنمول کانگریس کا کیا موقف ہے مگر ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ان کا موقف ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ افسوس ناک اور شریعت میں مداخلت کی راہ ہموار کرنے والا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کو مسلمانوں کے شرعی مسائل سے متعلق کوئی قانون بنانے کا حق نہیں ہے ۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے اس ذہنیت کی سخت تنقید کی کہ پاکستان کی مثال باربار کیوں دی جاتی ہے ۔جب کہ پاکستان اور ہندوستان دو الگ ممالک اور ان کے اپنے قوانین ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان اور پاکستان کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔

کلکتہ کی تاریخی ٹیپو سلطان مسجد کے سابق امام مولانا نورالرحمن برکتی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو غیر معمولی اور منفرد قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے سے مسلم سماج کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے اور شریعت میں مداخلت نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مسلم سماج میں طلاق کی شرح بہت ہی کم ہے اور یہ بات صحیح ہے کہ طلاق بدعت ایک غیر شرعی عمل ہے اس لیے مسلمانوں کو سوچ سمجھ کر طلاق دینا چاہیے۔