عورتوں کے معاملات میں قدم قدم پرمذہب اورروایت کا حوالہ دینے والی یہ ذہنیت اس بات کوآسانی کے ساتھ بھول جاتی ہے کہ اس ملک میں خواتین کوان کے حقوق کی ضمانت خودآئین دیتا ہےاورجنس کی بنیاد پرکسی قسم کی تفریق قانونی اوراصولی طورپرممکن نہیں۔
پچھلے چند مہینوں سے سرخیوں میں رہے طلاق ثلاثہ کے مسئلہ کے کئی اہم پہلو ہیں۔ اس کا ایک پہلو موجودہ حکومت اورمسلمانوں سے متعلق اس کے ارادوں سے ہے تو دوسرا پہلو مسلم سماج میں طلاق کے غلط استعمال سے ہے۔ اس کا ایک اوراہم پہلو یہ بھی ہے کہ طلاق ثلاثہ کے متعلق جاری بحث ومباحثہ میں کچھ مسلم خواتین بھی بڑھ چڑھ کرحصہ لے رہی ہیں اوراس سماجی برائی کے خاتمہ کے لئے کوششیں کررہی ہیں۔ عام طورپراس مسئلہ کے پہلے دوپہلوؤں پربات ہوتی ہے اورتیسرانظرانداز ہوجاتا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہوکہ پہلے اوردوسرےپہلوپربات کرنا آسان ہے جب کہ تیسراپہلو ہم سے زیادہ سنجیدگی اورمعروضیت کا طالب ہے۔
ماضی میں بھی ہندوستانی مسلم سماج کے اجتماعی معاملات میں عورتیں عام طورپرحاشیہ پررہی ہیں۔ ادب اورسیاست اورکچھ اورمیدانوں میں اگر چند خواتین کے نام آتے بھی ہیں تو ان کی شخصیت اورشناخت کا حوالہ خواتین کے مسائل اوران کے حقوق کی لڑائی کبھی نہیں رہے۔ یعنی ہندوستانی مسلم خواتین کے پاس ان کی اپنی ہی جنس سے سماجی برابری کی جدوجہد میں آئی کنز کی کمی ہے۔ لیکن اب یہ صورت حال بہت تیزی سے بدل رہی ہے۔ طلاق ثلاثہ اورعورتوں سے متعلق مسائل پر کچھ خواتین نے سالہا سال کام کیا ہے اوراپنے حق میں فضا ہموارکرنے کی کوشش کی ہے۔ ہمیں یہاں ان کے موقف اورطریقہ کارسے بحث نہیں ہے۔ ہمارا سروکارمسلم خواتین کی سماجی سرگرمیوں کے متعلق مسلم سماج کے مردوں کا ردعمل ہے۔
جب سے طلاق ثلاثہ کے متعلق عمومی بحث ومباحثہ کا آغاز ہوا ہے مسلمانوں کے روایتی مذہبی حلقوں میں ان خواتین کے خلاف جنہوں نے طلاق ثلاثہ کو ختم کرنے کے لئے مہم چھیڑرکھی ہے غم و غصہ کی ایک لہرسی چل رہی ہے۔ اس سلسلے میں واٹس ایپ پرزیادہ تراورکبھی کبھی فیس بک پربھی ان خواتین کے متعلق ایسے لب و لہجے کا استعمال کیا جاتا ہے جوکسی مہذب آدمی کے شایان شان نہیں۔ باربارایسے بھدے اورگندے ریمارکس پڑھنے کو ملتے ہیں جن میں ان سماجی کارکنوں کومسلم دشمن طاقتوں کا ایجنٹ بتاکران کی ذاتی زندگی اورکردارپرحملہ کیا جاتا ہے۔ ان ریمارکس میں عام طورپردوباتیں مشترک ہوتی ہیں: ایک یہ کہ یہ عورتیں شرم و حیا سے عاری اورعفت وعصمت سے محروم ہیں۔ سستی شہرت کے لئے وہ ‘دوسروں’ کا آلہء کاربن کراپنی قوم کی ‘بدنامی’ کا باعث بن رہی ہیں۔ اس پورے مفہوم کو اداکرنے کے لئے جس ایک لفط کا استعمال سب سے زیادہ کیا جاتا ہے وہ ہے ‘رنڈی’۔ اس طرح کے جملے بھی کئی بارنظروں سے گذرے کہ ان کمبختوں کو بہت ‘گرمی’ ہوگئی ہے ان سے کہو ہم سے اکیلے میں مل لیں، ٹھنڈا کردیں گے۔ جو خواتین ٹی وی مباحثوں میں حصہ لیتی ہیں اوراسٹوڈیو میں موجود علماء کے خلاف اپنی رائے کا اظہارکرتی ہیں ان کا نام لے کرانتہائی غیرمہذب اورغیرشائستہ زبان استعمال کرنا ایک عام سی بات ہے۔
اسی طرح کی ایک تحریر کل بھی میری نظروں سے گذری۔ یہ تحریر ایک بزرگ صحافی اورکالم نویس کی ہے۔ انہوں نے ان خواتین کی بے پردگی اوربے شرمی پراظہارافسوس کرتے ہوئے انہیں گھرکی چہاردیواری کے اندررہنے کا مشورہ دیا ہے۔ میرے خیال میں یہ کوئی نئی بات نہیں کیوں کہ مسلم مردوں کی طرف سے مسلم خواتین کو اس قسم کے مفت مشورے ہمشہ دئے جاتے رہے ہیں۔ جب سوالات کے مقابلہ میں جوابات کا ذخیرہ ختم ہوجاتا ہے تومردکردارکشی، جارحیت اوردشنام طرازی پراترہی آتے ہیں۔ مگراس سے بڑھ کر کالم نویس صاحب نے یہ مشورہ بھی دھمکی آمیزانداز میں دے دیا کہ اگران خواتین کوقرآن وحدیث کے طریقہ اورعورتوں کے لئے مقررکردہ دائرہ کار سے اختلاف ہے تو انہیں اسلام کوچھوڑدینا چاہئے۔ آخرکوئی انہیں زبردستی توروک نہیں رہا ہے؟
میرے خیال میں یہ رویہ افسوس ناک اورمنفی نتائج پیدا کرنے والا ہے۔ اس سلسلہ میں چند باتیں ہمارے غوروفکرکی محتاج ہیں۔ مسلم سماج میں مذہبی اورغیرمذہبی ہردوطرح کے مردوں کی ایک بڑی تعداد مسلم عورتوں کی بدلتی ہوئی صورت حال سے واقف نہیں یا پھراس تبدیلی کے نتائج اوراثرات سے نگاہیں چرانے کی کوشش کررہی ہے۔ سونے پرسہاگہ یہ کہ وہ خواتین کے بارے میں بہت سی باتیں خود ایک حقیقت کی طرح مان لیتے ہیں: مثلاً، عورتوں کومردوں کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے؛ سماج میں بغیرمرد کے زندگی گذارنے والی عورتیں بے کردار ہوتی ہیں؛ ان کے مسائل کا حل مردوں ہی کے پاس ہے؛ ان کی اورسماج کی بھلائی اسی میں ہے کہ مردوں کے ذریعہ جن سماجی پابندیوں اوراصولوں کی بات ہوتی ہے اس کا لحاظ کریں، اور، سب سے اہم، مذہبی معاملات میں اپنی ٹانگ نہ اڑائیں۔
عورتوں کے معاملات میں قدم قدم پرمذہب اورروایت کا حوالہ دینے والی یہ ذہنیت اس بات کوآسانی کے ساتھ بھول جاتی ہے کہ اس ملک میں خواتین کوان کے حقوق کی ضمانت خودآئین دیتا ہےاورجنس کی بنیاد پرکسی قسم کی تفریق قانونی اوراصولی طورپرممکن نہیں۔ اس صورت حال میں مذہبی نقطہء نظرسے بھی یہ بات بہتراورزیادہ نتیجہ خیزہوتی کہ جولوگ مسلم سماج کی قیادت کے دعوے دار ہیں وہ اس سماج کے مختلف فکری حلقوں کے مابین مکالمہ کی ایک فضا عام کرنے کی کوشش کرتے۔ اس مکالمہ کے ذریعہ باہمی اعتماد کی جوفضا قائم ہوتی اس میں فقہی موشگافیوں اورقانونی بحثوں سے اوپراٹھ کرمذہب کی روح اوراس کے بنیادی پیغام کوسامنے رکھتے ہوئے متعلقہ مسائل کوحل کرنے کی اجتماعی کوشش کی جاتی۔ مگرایسا نہ ہوسکا۔
اس سلسلہ میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ عام طورپرمسلم سماج میں مرد اس بات کو بھول جاتے ہیں یا بھولنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آج کی نئی نسل پچاس سال اورتیس سال پہلے والی نسل سے بہت مختلف ہے۔ مسلم لڑکیوں میں تعلیم کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے، لڑکیوں کی تعلیم کے متعلق والدین کے رویہ میں مثبت تبدیلی آئی ہے، تعلیم کے بعد معاش کے میدان میں اپنی قسمت آزمائی کرنے والی لڑکیوں کی تعداد میں روزبروزاضافہ ہوتاجارہا ہے، اب تولڑکیوں کے کئی مدرسے بھی اپنی طالبات کے لئے اسکولی تعلیم کا نظم کررہے ہیں۔ نئی نسل کی مسلم لڑکیوں میں تعلیم کی روشنی، معاشی آزادی، فیصلہ سازی میں شرکت، اپنے استحصال کا احساس اوراپنے حقوق کا شعور ایک مثبت سماجی تبدیلی کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ اس کا انکار بہت مشکل ہے۔
لیکن مسلم سماج میں جن لوگوں کوقیادت کا دعویٰ ہے وہ تبدیلیوں سے اس وقت تک آنکھیں چراتے ہیں جب تک کہ وہ تبدیلیاں ان کی زندگی کا حصہ نہ بن جائیں۔ لیکن تب تک تبدیلیوں کے اگلے دورکا آغاز ہوچکا ہوتا ہے اوروہ سماجی تبدیلیوں اورترقیوں کے دوڑمیں پچھڑتے چلے جاتے ہیں۔ ہرنئی چیزسے بدکنا اورہرتبدیلی سے وحشت زدہ ہونا، ایسا لگتا ہے، اس قیادت کا خاصہ ہوگیا ہے۔
ہندوستانی مسلم سماج میں خواتین کے متعلق ہمارے مذہبی حلقوں کا یہ رویہ اسے اپنے سماج کے ایک بہت اہم، فعال اورمؤثرعنصرسے روزبروزدورلے جارہا ہے۔ تعلیم یافتہ اوراپنے حقوق کی بازیابی کے لئے کوشاں مسلم خواتین اورہمارے مذہبی طبقہ میں جب تک مکالمہ کی کوئی راہ ہموارنہیں ہوگی اس وقت تک مذہبی طبقوں کی قیادت کی دعوے داری بھی ادھوری رہے گی۔ اس دوری اوربے اعتمادی کی فضاکو دورکرنے کے لئے ضروری ہے کہ عورتوں کو برابرکا شہری سمجھا جائے، ان کی سماجی سرگرمیوں کو قدرکی نگاہ سے دیکھا جائے اوران کی شخصیت، نفسیات اورکردارکے بارے میں جوبے بنیاد باتیں مردوں نے خود سے ایجاد کررکھی ہیں ان سے اپنے ذہن ودماغ کوپاک کیا جائے۔
مضمون نگار نے ندوہ العلماء‛ لکھنؤ اور جامعہ الفلاح‛ اعظم گڑھ میں مذہبی تعلیم کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ‛ نئی دہلی میں تاریخ اور تقابل ادیان کی تعلیم حاصل کیا ہے اور ان دنوں کشن کنج بہار میں آکسفورڈ انٹرنیشنل اسکول سے وابستہ ہیں۔
Categories: فکر و نظر