نئی دہلی : (رائٹر) میانمار سے روهنگيا پناہ گزینوں کے ملک چھوڑ کر بھاگنے کے معاملہ میں اقوام متحدہ کی طرف سے شہریوں کے تحفظ کی اپیل اور اس مسئلے پر بنگلہ دیش کے عالمی برادری سے مدد مانگنے کے ساتھ ساتھ میانمار پر بین الاقوامی دباؤ میں اضافہ ہواہے۔ میانمار سے اپنا گھربار چھوڑ کر بھاگنے والے تین لاکھ سے زیادہ پناہ گزیں بنگلہ دیش میں پناہ لے چکے ہیں۔جس کی وجہ سے بنگلہ دیش حکومت نے بین الاقوامی برادری سے مدد مانگی ہے۔
بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ ابوالحسن محمد علی نے غیر ملکی سفارت کاروں سے بات چیت کرنے کے بعد کہا کہ ان پناہ گزینوں کو رہائش گاہوں کے ساتھ ساتھ دیگر سہولیات بھی مہیا کرانا ضروری ہے،جو بنگلہ دیش کے لئے کافی چیلنج بھرا کام ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی برادری سے درخواست کی ہے کہ وہ میانمار پر اس مسئلہ کا مستقل حل نکالنے کے لیےدباؤ ڈالے ۔
اقوام متحدہ انسانی حقوق تنظیم کے ایک اعلی افسر نے رخائن ریاست میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ظالمانہ فوجی مہم چلانے پر میانمار کی سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ‘قبائلی قتل عام کی نصابی کتابوں جیسی ایک مثال’ ہے۔
امریکہ نے کہا ہے کہ میانمار سے روہنگیا مسلمانوں پر تشدد اورانکی نقل مکانی سے پتہ چلتا ہے کہ ملک کی سیکورٹی فورس شہریوں کی حفاظت نہیں کر رہی ہے اور میانمار کی حکومت کو اس پر روک لگانی چاہئے۔
امریکی صدر کے دفتر نے کل ایک بیان جاری کر کے کہا،”ہم میانمار کے سیکورٹی حکام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ قانون کی حکمرانی کا احترام کریں،تشدد پر روک لگائیں اور سبھی برادری کے شہریوں کی نقل مکانی کو روکیں ۔
میانمار حکومت کے ترجمان اس معاملہ میں تبصرہ کے لئے دستیاب نہیں ہوئے لیکن وہاں کی نوبل انعام یافتہ رہنما آنگ سان سو چی کے ترجمان نے امریکہ کے بیان کے فوراً بعد کہا کہ میانمار بھی روہنگیا لوگوں کے مصائب کے تعلق سے فکر مند ہے لیکن اس کی سیکورٹی فورس صرف انتہاپسندوں سے نمٹنے کی کوشش کررہی ہیں ۔ ترجمان نے کہا،”میانمار کی حکومت حال ہی میں دہشت گرد سرگرمیوں کی وجہ سے بھڑکے تشدد کے تعلق سے سبھی کمیونٹیز کے لوگوں کی نقل مکانی اور ان کے دکھ درد کے تئیں بین الاقوامی برادری کی تشویش سے آگاہ ہے۔”
بنگلہ دیش نے میانمار سے آ رہے روهنگيا پناہ گزینوں کو دوردراز کے جزیرے پر آباد کرنے کے اپنے منصوبے کے لئے بین الاقوامی برادری سے تعاون مانگا ہے۔ میانمار میں 25 اگست سے اب تک تین لاکھ سے زیادہ روہنگیا بنگلہ دیش میں پناہ لے چکے ہیں اور یہاں پہلے سے ہی چار لاکھ سے زیادہ پناہ گزیں رہ رہے ہیں۔
دنیا کے غریب ترین ملکوں میں شامل بنگلہ دیش نے ایک جزیرے تھینگھر چھار کو ان پناہ گزینوں کا ٹھکانا بنانے کا منصوبہ بنایا ہے جس کی زبردست مخالفت ہو رہی ہے لیکن بنگلہ دیش کا کہنا ہے کہ مسلسل بڑھ رہی پناہ گزینوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ طے کرنا اس کا حق ہے کہ انہیں کہاں پناہ دی جائے۔
واضح ر ہے کہ گذشتہ 25 اگست کو رخائن ریاست کے شمالی علاقے میں مبینہ طور پر روہنگیا شدت پسندوں نے پولیس چوکیوں کو نشانہ بنایا جس میں 12 سیکورٹی جوان ہلاک ہو گئے تھے۔ اس واقعہ کے بعد وہاں تشدد بھڑک اٹھا اور تین لاکھ سے زیادہ روہنگیا مسلمانوں کو ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔
Categories: حقوق انسانی, خبریں