ہم پان کھا کر بھارت ماتا پر پچکاری کرتے ہیں اور پھر وندے ماترم کہتے ہیں ۔سارا کوڑا کچرا بھارت ماتا پر پھینک دیتے ہیں اور پھر وندے ماترم بولتے ہیں ۔اس ملک میں وندے ماترم کہنے کا سب سے پہلا حق اگر کسی کو ہے تو ملک بھر میں صفائی کا کام کرنے والے کو ہے ۔یہ حق بھارت ماتا کی ان سچی سنتانوں کو ہے جو صفائی کا کام کرتے ہیں ۔
ملک میں کھان پان کو لے کر جاری بحث کے درمیان وزیر اعظم نریندر مودی نے سوامی وویکانند کے خیالات کا حوالہ دیتے ہوئے پیر کو کہا کہ کیا کھائیں، کیا نہیں کھائیں،یہ موضوع ہماری ثقافت کا حصہ نہیں ہو سکتا۔ہم وقت اور حالات کے مطابق تبدیلی کے حق میں ہیں ۔
شکاگو میں سوامی وویکانند کے خطاب کی 125 ویں سالگرہ کے موقع پر منعقد ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ 11 ستمبر 1893 کو شکاگو میں سوامی وویکانند کا خطاب صرف تقریر نہیں تھا بلکہ یہ ایک تپسوی کی تپسیا کا حاصل تھا۔ورنہ اس وقت تودنیا میں ہمیں سانپ،سپیروں اور جادوٹونا کرنے والوں کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ اکا دشی کو کیا کھائیں ،پورنیما کو کیا نہیں کھائیں ،اسی کے لیے ہماری ذکر کیا جاتا تھا۔
لیکن سوامی وویکا نندنے دنیا کے سامنے واضح کیا کہ کیا کھائیں ،کیا نہیں کھائیں…یہ ہماری ثقافت کا حصہ نہیں ہوسکتا،یہ سماجی نظام کےتحت آسکتاہے،لیکن ثقافت میں شامل نہیں ہوسکتا۔ہم تو اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ تمام چیزوں میں اپنی ہی صورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم ایسے لوگ ہیں جووقت کے مطابق تبدیلی کے حق میں ہیں ،ہم نے ایسے لوگوں کے خیالات کو فروغ دینے کا کام کیا ہے جو ہماری برائیوں کو ختم کرنے کے لیے کوشاں رہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اس وراثت میں پلےبڑھے لو گ ہیں جس میں ہر کوئی کچھ نہ کچھ دیتا ہے ۔بھیک مانگنے والا بھی علم اور فلسفے سے بھرا ہوتا ہے ۔ اور جب کوئی اس کےسامنے آتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ دینے والا کا بھی بھلا ،نہیں دینے والے کا بھی بھلا۔
میک ان انڈیا کی وکالت کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ اس بارے میں ہمیں سوامی وویکاننداورجمشید جی ٹاٹا کےمکالمہ کو دیکھنا چاہئے، تب ہمیں پتہ چلے گا کہ سوامی وویکانند نے ٹاٹا سے کہا تھا کہ بھارت میں صنعت لگاؤاورتعمیر کرو۔
مودی نے کہا کہ سوامی وویکانندزراعت میں جدید تکنیک کےاستعمال کے حق میں تھے ۔اسی دوران وزیر اعظم نے دین دیال اپادھیائےاور ونووابھاوےکی پہل کا بھی ذکر کیا۔
وندے ماترم کہنے کا پہلا حق صفائی کرنے والوں کو ہے: مودی
پان کھا کرادھرادھرتھوکنے والوں اور کوڑا کچرا پھینکنے والوں کوپھٹکار لگاتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ ملک میں وندے ماترم کہنے کا سب سے پہلا حق صفائی کرنے والوں کو ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ جب وندے ماترم کہتے ہیں ،تب بھارت بھکتی کا احساس بیدار ہوتا ہے۔لیکن میں اس آڈیٹوریم میں بیٹھے لوگوں کے ساتھ پورے ہندوستان سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا ہمیں وندے ماترم کہنے کا حق ہے ۔میں جانتا ہوں کہ ہماری یہ بات کئی لوگوں کو چوٹ پہنچائے گی ۔لیکن میں پھر بھی کہتا ہوں ،50بار سوچ لیجیے کہ کیا ہمیں وندے ماترم کہنے کا حق ہے۔
مودی نے کہا،”ہم پان کھا کر بھارت ماتا پر پچکاری کرتے ہیں اور پھر وندے ماترم کہتے ہیں ۔سارا کوڑا کچرا بھارت ماتا پر پھینک دیتے ہیں اور پھر وندے ماترم بولتے ہیں ۔اس ملک میں وندے ماترم کہنے کا سب سے پہلا حق اگر کسی کو ہے تو ملک بھر میں صفائی کا کام کرنے والے کو ہے ۔یہ حق بھارت ماتا کی ان سچی سنتانوں کو ہے جو صفائی کا کام کرتے ہیں ۔
انہوں نےکہا،اوراس لیےہم یہ ضرور سوچیں کہ سجلام ،سفلام بھارت ماتا کی ہم صفائی کریں یا نہیں کریں ……لیکن اس کو گندا کرنے کا حق ہمیں نہیں ہے۔
انہوں نےکہاکہ گنگا کے لیے عقیدت اوراحترام کااحساس ہو،ہم یہ ضرورسوچتے ہیں کہ گنگا میں ڈبکی لگانے سے ہمارےپاپ دھل جاتے ہیں،ہرنوجوان سوچتا ہےکہ وہ اپنے ماں باپ کو ایک بار گنگا میں ڈبکی لگوائے …لیکن کیااس کی صفائی کے بارے میں سوچتے ہیں ۔کیا آج سوامی وویکا نند زندہ ہوتے تب ہمیں ڈانٹتے نہیں ۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہم سوچتے ہیں کہ ہم صحت مند ہیں کیونکہ اچھے سے اچھے ہاسپٹل اورڈاکٹرہیں۔لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ہم صرف اچھے سے اچھے ہاسپٹل اوربہترین ڈاکٹر کی وجہ سےصحت مند نہیں ہیں بلکہ ہم صحت مند اس لیے ہیں کیونکہ ہمارے صفائی ملازم صاف صفائی رکھتے ہیں ۔
انہوں نے کہا”جب ہم ڈاکٹر سے بھی زیادہ صفائی ملازموں کا احترام کرنے لگیں گے تب وندےماترم کہنے کا آنند آئے گا۔مودی نے کہا کہ ہم سال 2022 میں آزادی کے75 سال منانے جارہے ہیں ۔تب کیا ہم کوئی سنکلپ لے سکتے ہیں کیا یہ سنکلپ زندگی بھر کے لیے ہونا چاہیے ۔میں یہ کروں گا ،یہ مصمم ارادہ ہونا چاہیے ۔
اس سلسلے میں وزیراعظم نےاسٹوڈنٹ لائف اور اس زمانے کی سیاسی سرگرمیوں کا ذکر کیا اور کہا کہ اب تک میں نے نہیں دیکھا کہ طلبایونین انتخاب میں کسی امید وار نے یہ کہا ہو کہ ہم کیمپس کو صاف رکھیں گے ۔ہم نے یہ دیکھا ہوگا کہ انتخاب کے دوسرے دن کالج یا یونیورسٹی کیمپس کی کیا حالت رہتی ہے ۔لیکن اس کے بعد ہم پھر وندے ماترم کہتے ہیں ۔
انہوں نےکہا کہ کیا ہم نہیں چاہتے کہ ہم اپنے ملک کو21ویں صدی کا بھارت بنائیں،گاندھی،بھگت سنگھ، راج گرو،آزاد،وویکانند،سبھاش چندربوس کے خوابوں کا ہندوستان بنائیں ۔یہ ہماری ذمہ داری ہے اور ہمیں اسے پورا کرنا ہے۔
میں روزڈے کے خلاف نہیں ہوں: مودی
وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ وہ کالجوں میں طلبا کے ذریعے منایا جانے والا روز ڈے کے خلاف نہیں ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ایسا اس لیے کیوں کہ ہمیں روبوٹ نہیں بنانے ہیں بلکہ تخلیقی صلاحیت کو بڑھاوا دینا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کالجوں میں مختلف ریاستوں کے مخصوص ایام اورثقافتی تقاریب کا انعقادبھی کیا جانا چاہئے۔
شکاگو میں سوامی وویکانند کی تقریر کی 125 ویں سالگرہ کے موقع پر دین دیال ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے منعقد تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ کالجوں میں کئی طرح کے ڈے منائے جاتے ہیں۔آج روز ڈے ہے ،کل کچھ اور ڈے ہے۔کچھ لوگوں کے خیالات اس کے خلاف ہیں اورایسے کچھ لوگ یہاں بھی بیٹھے ہوں گے ۔لیکن میں اس کے خلاف نہیں ہوں۔
مودی نے کہا کہ ہمیں روبوٹ تیار نہیں کرنے ہیں ،تخلیقی صلاحیت کوآگے بڑھانا ہے ۔ اس کے لیے یونیورسٹی کے کیمپس سے زیادہ اچھی کوئی جگہ نہیں ہوسکتی ۔
قابل ذکر ہےکہ بجرنگ دل سمیت کچھ دائیں بازو کی پارٹیاں یونیورسٹی اور کالج احاطے میں منائے جانے والے روز ڈے جیسے دنوں کی مخالفت کرتے ہیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ لیکن کیا ہم نے کبھی یہ خیال کیا ہے کہ ہریانہ کا کوئی کالج تمل ڈے منائے، پنجاب کا کوئی کالج کیرل ڈے منائے۔انہی جیسا لباس پہنے، زبان کےاستعمال کرنے کی کوشش کرے،ہاتھ سے چاول کھائے،اس علاقے کے کھیلوں کو کھیلے۔
انہوں نے کہا کہ کالج میں طلباتمل فلم دیکھیں۔وہاں کچھ طلباکو مدعو کریں اور ان کے ساتھ مکالمہ قائم کریں۔اس طرح ہم تعلیمی اداروں میں منائے جانے والے ڈے کو صحیح معنوں میں منا سکتے ہیں ۔ایک بھارت کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر سکتے ہیں۔
مودی نے کہا کہ جب تک ہمارے ذہن میں ہر ریاست اور ہر زبان کے لیےفخر کا احساس پیدا نہیں ہوگا اس وقت تک کثرت میں وحدت کا احساس بھی نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ہم کالجوں میں سکھ گرووں کے بارے میں کسی تقریب کا انعقاد کر سکتے ہیں، بتا سکتے ہیں کہ کیا کیا قربانی دیا سکھ گرووں نے۔انہوں نے کہا کہ تخلیق کے بغیر زندگی کی کوئی معنویت نہیں ہے۔ہمیں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے ذریعے ملک کی طاقت بننا چاہیے ۔ ضروریات کی تکمیل کے لیے جد وجہد کرنی چاہیے ۔
وزیراعظم نے کہا کہ سوامی وویکانند نے علم اور ہنر کو ایک دوسرے سے الگ کیا تھا اور آج پوری دنیا میں مہارت کے فروغ پر زور دیا جارہا ہے ۔ہماری حکومت نے مہارت کی ترقی پر خصوصی توجہ دی ہے۔
مودی نے کہا کہ مہارت کا فروغ کوئی نیا موضوع نہیں ہے، اس کام کو پہلے بھی آگے بڑھایا گیا، لیکن یہ بکھرا ہوا تھا. ہم نے اس کے لئے ایک شعبہ بنایا اور خاص طور پر اس کام کو آگے بڑھایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نوجوانوں کو روزگار مانگنے والانہیں بلکہ روزگار پیدا کرنے والا بنانا چاہتے ہیں۔ہمیں مانگنے والا نہیں بلکہ دینے والا بننا چاہیے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ آج جب ہم سوامی وویکانند کی بات کرتے ہیں تب ہمیں خیال رکھنا چاہئے کہ وہ جدت پسندتھے اور جدید خیالات کے فروغ کے حامی تھے ،گھسی پٹی باتوں کو چھوڑنے کے حق میں تھے ۔
انہوں نے کہاہم سماجی زندگی میں تبھی ترقی کر سکتے ہیں، جب ہم مسلسل نئے پن کے ساتھ زندگی گزاریں۔مودی نے کہا کہ بہت سے لوگوں کو یہ لگتا ہے کہ وہ ناکام ہو سکتے ہیں لیکن کیا آپ نے دنیا میں کوئی ایسا انسان دیکھا ہے جو فیل ہوئے بغیر کامیاب ہوا ہو۔کئی بار ناکامی ہی کامیابی کی سیڑھی ہوتی ہے۔کنارے پر کھڑا رہنے والا شخص ڈوبتا نہیں ہے لیکن کامیاب وہی ہوتا ہے جو لہروں کو پار کرنے کی ہمت دکھاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج ہم اسٹارٹ اپ یوجناکو آگے بڑھا رہے ہیں۔ہندوستان کے نوجوانوں میں دانش ہے اہلیت ہے ۔آج ہم اس مقصد سےہنر کو اہمیت دے رہے ہیں،کیونکہ سرٹیفکیٹ سے زیادہ اہمیت دنیا میں ہنرکوقبول کیاجا رہا ہے۔
جب دنیا بحران سے گزر رہی ہو توحل کا راستہ ایک ایشیا ہے: مودی
وزیر اعظم مودی نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ 21 ویں صدی ایشیا کی صدی ہے اور اس تناظر میں وویکانند کے خیال آج بھی بامعنی ہیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ آج خارجہ پالیسی کے بارے میں ڈھیر ساری بحث ہوتی ہے۔لیکن کبھی ہم نےسوچا ہے وویکا نند کے خیال اس بارے میں کیا ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ 120 سال پہلےسوامی وویکا نند نے ایک ایشیا کا خیال دیا۔جب دنیا بحران میں مبتلا ہوتو حل کا راستہ تلاش کرنے کی طاقت ایشیا سے ہوگی۔
مودی نے کہا کہ آج پوری دنیا یہ کہہ رہی ہے کہ 21 ویں صدی ہندوستان کی صدی ہے۔کوئی کہتا ہے کہ چین کاہے،کوئی کہتا ہے کہ بھارت کا ہے. لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ 21ویں صدی ایشیا کی صدی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں بھارت کو مضبوط اور مستحکم بنانا ہےاور اس کے لیے مل جل کر جد و جہد کرنے کی ضرورت ہے۔
(نیوز ایجنسی کےان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں