فکر و نظر

بی جے پی نے ملک میں فرقہ پرستی اور نفرت کا جن چھوڑ دیا ہے

دایاں محاذ کی شدت سے تنقید کرنے والی صحافی گوری لنکیش کےبہیمانہ قتل کے بعد نفرت پھیلانے والی طاقتوں نے یہ صاف کر دیا ہے اب وہ کچھ بھی کر سکتی ہیں، و ہی اقتدار ہیں۔ دھمکانا، تشدد اور یہاں تک کہ قتل کی  واردات ان کے لئے عام  ہیں ،کیونکہ وہ جانتے ہیں ان پر کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔

Lankesh-collage-2

جولائی 2016 میں مجھے ایک گمنام میل ملا، جس میں لکھا تھا، ‘تم نے سناتن سنستھا اورمعزز ہندوؤں کے بارے میں بدکلامی  کرتے ہوئے ساری حدیں پار‌کر دی ہیں۔ تم نے سناتن سنستھا کو بدنام کرنے کی سازش کرتے ہوئے اس پر پابندی لگانے کی بات کہی۔ اب تمہاری ان سب گھٹیا حرکتوں کا حساب دینے کا وقت آ گیا ہے۔’

اس خط کو میرے تمام’ گناہوں ‘ کا حساب کتاب، جس میں نرودا پاٹیا اور گلبرگ سوسائٹی معاملوں میں دی گئی میری گواہی بھی شامل تھی، کے بارے میں بتاتے ہوئے ان سطروں پر ختم کیا گیا تھا، ‘جیسا کہ تم جانتے ہو کہ ہم جانتے ہیں کہ تم کہاں رہتے ہو اور کیا کر رہے ہو۔ دابھولکر اور پانسرے جیسے حال کے لئے تیار ہو جاؤ۔’

یہ دھمکی ملنے کے بعد میں نے دلی پولیس میں شکایت درج کروائی،لیکن انہوں نے  کوئی جواب نہیں دیا اور پھر میں بھی اس کے بارے میں بھول گیا۔ایک سال بعد،مئی 2017 میں مجھے ایسی ہی دھمکی بھری ایک اور چٹھی ملی۔ یہ ہندی میں لکھی تھی اور اس میں لکھا تھا کہ میری موت قریب ہے۔

‘ اب وقت آ گیا ہے کہ فاسق ششوپال کی طرح تمہارے گناہوں کاقصہ پاک کر دیا جائے۔ تمہارے جیسے صحافیوں کی وجہ سے سادھوی پرگیہ سنگھ جیسے سنتوں کو سالوں تک جیل میں سڑنا پڑا ……ویریندر سنگھ تاوڑے (سناتن سنستھا کے ممبر اور نریندر دابھولکر کے قتل میں ملزم) جیسے شریفوں کو جیل بھجوانے میں بھی تمہارا ہاتھ تھا، تمہارے جیسے بدکار،ہندو ر اشٹر میں سزائے موت کے مستحق ہیں اور یہ کام خدا کی مرضی کے ساتھ بہت جلدی پورا ہو جائے گا۔ ‘

Ashish-Khetan-tweet

اس بار میں نے اس کو لےکر پولیس اور عدالت جانے کی سوچی۔ جب میرے کئی بار خط بھیجنے کے باوجود دلی پولیس نے کوئی جواب نہیں دیا، تب میں نے سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کیا۔ وہاں دو ججوں کی ایک بنچ نے میرا کیس سنا۔ ایک نے کہا کہ مجھے پہلے ہائی کورٹ جانا چاہئے تھا، ایک نے کہا کہ مقامی مجسٹریٹ کے پاس۔

یہاں سپریم کورٹ کے ذریعے 2009 میں گجرات دنگوں کے گواہوں کو مناسب حفاظت دینے کے حکم کی پوری طرح سے توہین کی گئی۔ میری عرضی خارج کر دی گئی۔ جب جمہوریت خطرے میں ہو تب عدالت عالیہ  سے امید کی جاتی ہے کہ یہ حالت کو بھانپ‌کر اس کے حساب سے قدم اٹھائے، لیکن یہ دکھ کی بات ہے کہ کورٹ تکنیکی باتوں میں الجھ‌کر رہ گیا۔

اس کے بعد میں نے ہائی کورٹ کی پناہ لی۔ یہاں پولیس کی طرف سے عدالت کے سامنے گول مول بیان دیا گیا۔ اس پر میرے وکیل نے اس بات پر زور دیا کہ دلی پولیس کو لکھ‌کر دینا چاہئے کہ حفاظت سےمتعلق کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس بات کو مہینے بھر سے زیادہ بیت چکا ہے، لیکن دلی پولیس نے اب تک مجھے تحریری طور پرکوئی دستاویز نہیں دیا ہے۔

ایک انویسٹی گیٹو جرنلسٹ  کے بطور آپ خطروں کے ساتھ رہتے ہی ہیں۔ ایک رپورٹر کے طور پر 15 سالوں کے دوران، جہاں کئی بار میں نے چھپ‌کر بھی کام کیا، میں کئی بار بال بال بچا۔ ان 6 مہینوں کے دوران، جب میں 2002 کے گجرات میں ہوئے قتل عام کے لئے ذمہ دار لوگوں کے درمیان ایک کٹّر سویم سیوک کے حلیے میں خفیہ طور پر ان کےقتل،ریپ اور لوٹ پاٹ کرنے کے قبول نامے رکارڈ کر رہا تھا، تب کئی بار میری پہچان ظاہر ہوتے ہوتے بچی۔

تب بھی مجھے کبھی اپنی جان جانے کی فکر نہیں ہوئی۔ ہاں، دسمبر 2004 میں جب میں اسپائی کیمرہ پہن‌کر وڈودرا کے دبنگ لیڈراور بی جے پی ایم ایل اے مدھو شریواستو کے یہاں، ان کے ذریعے ظہیرہ شیخ کو پالا بدلنے کے لئے دی گئی رقم کے بارے میں جانکاری نکالنے گیا تھا، میں مانتا ہوں میں نرْوس تھا، پر ڈرا ہوا نہیں۔

پیچھے دیکھتا ہوں تو لگتا ہے کہ تب مجھ میں ایک خوداعتمادی تھی کہ آخر کار قانون ان کی طرف ہے جو صحیح ہیں۔ اسی یقین پر میں اور باقی صحافی کام کرتے رہے۔ مجھے لگتا تھا کہ ہندو تو بریگیڈ کی یہ شدت پسندی استثنا ہے، 2002 کے فسادات، بیسٹ بیکری قتل عام، یہ سب استثنا محض  ہیں۔

میرا سوچنا تھا کہ دایاں محاذ تشدد کے لیے اس وقت آمادہ ہوتی ہے ، جب وہ بھیڑ کا حصہ ہوتی ہے۔ وہ بزدل ہیں۔ ساتھ ہی ان میں عدالت اور قانون کا ڈر بھی ہے۔ اصل میں، وہ مجھ جیسے صحافی سے ڈرتے ہیں، اور اگر وہ جانتے بھی کہ میں کون ہوں تب بھی وہ مجھے نقصان نہیں پہنچانا چاہتے۔

لیکن آج مجھے یہ سمجھ آ گیا ہے کہ وہ کسی الگ وقت کی بات ہے۔ آج مجھے اپنی اور اپنی فیملی  کی حفاظت کی فکر ہوتی ہے۔ اسی ہفتے بینگلرو شہر کے بیچوں بیچ ایک بہادر اور آزاد صحافی گوری لنکیش کوگولی مار‌کر قتل کر دیا گیا۔

یہاں ایک عجیب سا پیٹرن ہے۔ گزشتہ3 سالوں میں دلیل کے ساتھ بات کرنے والوں اور آزاد خیال لوگوں کو دھمکیاں ملنے کی واردات بڑھنے لگی ہیں۔ کچھ معاملات میں یہ دھمکیاں صرف سوشل میڈیا تک ہی محدود رہتی ہیں۔ لیکن کئی بار جیسے میرے ساتھ ہوا، یہ دھمکیاں براہ راست دی گئیں۔

دابھولکر، سی پی آئی (ایم) کارکن گووند پانسرے اور ایم ایم  کلبرگی کے قتل عام حالات میں ہوئے۔دایاں محاذکی جانب  سے مسلسل ان کو نشانہ بنایا گیا، ان کو کئی بار دھمکیاں دی گئیں اور آخر کار ان کا  قتل کر دیا گیا۔

آج ملک میں دایاں محاذکے کئی گروہ فعال ہیں۔ ان میں سناتن سنستھا، ابھینو بھارت، ہندو جن جاگرتی سمیتی، ہندی رکشک سمیتی، بجرنگ دل، درگا واہنی، شری رام سینا، وشو ہندو پریشد اور قومی سویم سیوک سنگھ اہم  ہیں۔

ان گروہوں کے کارکن اکثر ایک دوسرے سے میل کھاتے ہیں۔ جو بات ان کو ایک ساتھ باندھے رکھتی ہے، وہ ہے ان کی نفرت اور تشدد کا نظریہ۔ ان کے نشانے پر وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے نظریات ان سے نہیں ملتے۔

مہاراشٹر میں سناتن سنستھا کے دفتروں پر سی بی آئی کے چھاپوں میں کئی صحافیوں اور سماجی کارکن کے نام کی ‘ہٹ لسٹ ‘ بر آمد ہوئی تھی۔ لیکن اس کے بعد اس ایجنسی کے ذریعے اس بارے میں کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔

سناتن سنستھا کے کئی ممبر، جن پر گووا اور مہاراشٹر کے بم  دھماکہ سمیت دابھولکر اور پانسرے جیسے  قتل کے معاملے سے منسلک ہونے کا شک ہے، ایک دہائی سے فرار ہیں۔ مالیگاؤں اور حیدر آباد مکہ مسجد دھماکوں کے لئے بم  بنانے والوں کو 10 سالوں میں گرفتار نہیں کیا جا سکا۔

یو پی اے حکومت بھلے ہی نااہل رہی ہو، وہ ان گروہوں کے نظریے  سے اتفاق نہیں رکھتی تھی۔ لیکن موجودہ اقتدار کو انہی گروہوں سے حمایت ملتی ہے۔ نفرت کے ان جھنڈابرداروں میں سزا ملنے کے متعلق ایک ان کہی بےفکری دکھائی دیتی ہے۔

ان کو لگتا ہے ان کو کچھ نہیں ہوگا کیونکہ حکومت ان کے ساتھ ہے۔ میں نے سزا ملنے کے بارے میں ایسی ہی بےفکری گجرات فسادات کے ملزموں میں دیکھی تھی۔ پر وہ اتنی بےلگام نہیں تھی۔

سپریم کورٹ کی نگرانی میں ہوئی تفتیش، بابو بجرنگی، مایا کوڈنانی اور ان کے جیسے سیکڑوں کی گرفتاری اور سزا تک پہنچی۔ قتل کرنے والے پولیس والوں کو سسپینڈ اور گرفتار کیا گیا۔ میں نے فسادات کے تین معاملوں میں گلبرگ سوسائٹی، نرودا گرام اور نرودا پاٹیا میں سیکڑوں دیگر گواہوں کے ساتھ گواہی دی تھی، جو عدالت میں مرکزی حفاظتی دستوں کی نگرانی میں کئی ہفتوں تک رکارڈ کی گئی۔

پانچ سال بعد آج  مجھے دھمکیاں بھیجنے والوں کے خلاف ایکشن لینے کی پولیس اور عدالت سے گزارش کر رہا ہوں۔ میں ان گواہوں کی حالت سوچ‌کر کانپ جاتا ہوں جو ملزم کے پڑوس میں رہتے ہیں۔ ان کے پاس کالم لکھنے یا سپریم کورٹ تک جانے کا اختیار نہیں ہے۔

دایاں محاذ کی شدت سے تنقید کرنے والی صحافی گوری لنکیش کےبہیمانہ قتل کے بعد نفرت پھیلانے والی طاقتوں نے یہ صاف کر دیا ہے اب وہ کچھ بھی کر سکتی ہیں، و ہی اقتدار ہیں۔ دھمکانا، تشدد اور یہاں تک کہ قتل کی  واردات ان کے لئے عام  ہیں ،کیونکہ وہ جانتے ہیں ان پر کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔

بی جے پی رہنماؤں نے امید کے مطابق ہی رد عمل دیا ہے۔ لنکیش کے قتل کو ریاستی حکومت کی ناکامی بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ معاملہ کچھ بھی ہو، لیکن یہ تو ماننا ہوگا کہ بی جے پی نے فرقہ پرستی اور حسد کا ایک ایسا جن چھوڑ دیا ہے، جو لن چنگ، قتل اور دوسرےوحشیانہ جرم کو انجام دے رہا ہے۔

(مضمون نگار دلی حکومت کے دلی ڈائیلاگ کمیشن کے صدر ہیں۔)