ہندوستانی صحافت کی تاریخ میں شایدوہ پہلےمدیرتھے،جن کوہندوستان،ہندوستانیت اور قومی یکجہتی کے لیے اپنی جان دینی پڑی ۔
19 ویں صدی کی شروعات میں کئی اخباراپنی کمیونٹی کے مسائل اور خدشات کو خاص انداز میں صیقل کر رہے تھے۔بعض اوقات مذہبی اصلاحات کے نام پر یہ کام انجام دیے گئے۔اس لیے اس وقت کی صحافت میں بھی فرقہ پرستی کو ہوا دینے والی سوچ کی مثالیں مل جاتی ہیں ۔
اس کے باوجوداپنے پیروں پر کھڑی ہوتی پرنٹ میڈیا نے مذہبی تعصب کوکم کرنے کی کوشش کی، اور ہندوستانیت یعنی قومی یکجہتی کے لیےمکالمہ قائم کرتے ہوئے صحافتی ذمہ داری کو نبھایا۔1857بھی صحافت کی تاریخ میں اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے۔اس وقت دلی میں بہت ہی فعال اور متحرک اردو پریس موجود تھا۔
پہلی جد و جہد آزادی کا آغاز ہوا تو باغیوں اور مجاہدوں نے ہندوستانیوں سے ہندوستانی کے طور پر اپیل کی۔آپسی اختلافات بھلا کر یکجہتی قائم کرنے کی اس اپیل میں صحافت نے اپنی ذمہ داری کا ثبوت دیا ۔اس وقت سیدالاخبار اور دہلی اردواخبار سمیت کئی دوسرے اخبار قومی یکجہتی کو قائم کرنےمیں اہم کردار ادا کررہے تھے۔اس معاملے میں دہلی اردواخبار کی اہمیت کئی معنوں میں زیادہ ہے ۔ اس کی ادارت اردو کےمعروف ادبی مؤرخ مولانامحمد حسین آزاد کے والد مولوی محمد باقر کے ہاتھوں میں تھی۔انہوں نے سیاسی مضامین ،تبصرے اور خبروں کی ترتیب و تہذیب میں ایک ذمہ دار صحافی ،مدیر اور محب وطن کے طور پرقابل تقلید کام کیا۔ وسائل کی کمی کے باوجود انگریزوں کے پروپیگنڈہ کا پردہ فاش کیا۔آج کی زبان میں کہیں توفیک اور جعلی نیوز کے سچ کو سامنے لاکریکجہتی کو بنائے رکھنے میں عوام کی رہنمائی کی ۔آج بھی وہاٹس ایپ اور دوسرے سوشل میڈیا کے ذریعے اس طرح کی منظم سازش کی جارہی ہے ۔اس صورت میں میڈیا کی اپنی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔
مولوی محمد باقرنے عوام سے اپیل کرنے کے لئے اپنے اخبار کا بھرپوراستعمال کیا،اوراخبارکےذریعےہی انہوں نےانگریزوں کی تقسیم کرنے والی پالیسی کواجاگر کیا۔اس طرح کی جرٲت اورحوصلےکی پاداش میں قتل کی سازش کاالزام لگاکربرطانوی فوجی افسرہڈسن نے انہیں گولی مار دی۔ہندوستانی صحافت کی تاریخ میں شایدوہ پہلےمدیرتھے،جن کوہندوستان،ہندوستانیت اور قومی یکجہتی کے لیے اپنی جان دینی پڑی ۔
1880سےہی کانگریس کے نمایاں ہونے کے بعداس کی مسلم سیاست اور پھر 20ویں صدی کےآغاز سے،شمالی ہندوستان میں پرنٹ میڈیا نے اکثرسیاسی پارٹیوں کے تعصب کو اپناعقیدہ بنالیا۔چنانچہ آزادی کے بعدہندوستان میں پرنٹ میڈیا ،مین اسٹریم سیاست کے سیاسی تعصب کا ترجمان بن گیا اوران کے امتیازی سلوک کی پیروی کو بھی اپنا شیوہ بناچکا ہے۔
آزادی کےبعداقلیتوں کے لیے سیاسی جماعتوں کا رویہ سب کے سامنے ہے۔ بنیادی طور پر نام نہاد کمیونٹی کے مخصوص رہنماؤں کی پہچان ہی سب کچھ ہے۔ان رہنماوؤں کومتعلقہ کمیونٹی کے نمائندوں کی حیثیت سےمیڈیا نے بھی تسلیم کرلیا ہے۔حالاں کہ یہ نام نہادنمائندے اپنے ملک اور اپنی کمیونٹی کے سماجی واقتصادی مسائل کو اٹھانے میں بہت پیچھے ہیں۔اپنی کمیونٹی کے سیاسی مشیر کے طور پر ان کے خیالات کشادہ نہیں ہیں۔ان کی بدعنوانی اورپسماندہ سیاسی ثقافت کو میڈیا نے وفاداری کے ساتھ اپنا لیاہے۔اس لیے میڈیا کا امتیازی سلوک اور استحصالی رویہ ہمارے زمانے کی بڑی سچائی ہے۔
اس وقت کی مین اسٹریم میڈیافرقہ وارانہ نظریات اورخیالات کی تشہیر میں سیاسی جماعتوں کی مکمل حمایتی ہے۔دوسری طرف فرقہ پرستی کی شدت کو معیار بناکر کہ کون کم فرقہ پرست ہے،مذہبی رہنمااپنی سیاست کر رہے ہیں ۔میڈیا بھی ان مذہبی لیڈروں اورعالموں کے بیانات کو’کمیونٹی’ کی رائے کے طور پر پیش کر رہا ہے ۔
بدقسمتی سےذرائع ابلاغ بڑی سیاسی جماعتوں کے ایجنڈوں کا اشتہار محض ہے۔آج وہی خبریں بنتی ہیں جو سیاسی جماعتیں پروجیکٹ کرتی ہیں۔سنگھ پریوارکے ایجنڈوں کی پیروی میں میڈیا کا ایک بڑا حصہ، خاص طور پر ٹیلی ویژن یہ دعویٰ کرنے میں مصروف ہے کہ مسلمان پسماندہ ہیں،وہ محب وطن نہیں ہیں ،دہشت گردی میں ملوث ہیں۔
جعلی خبروں اوردوسرے طرح کےپروپیگنڈہ کی تکنیک کا استعمال کیا جارہا ہے۔پھرایسےمسلم رہنماؤں کی کمی بھی نہیں ہے جو اس طرح کے ٹی وی شوز میں جانے کے لئے تیار بیٹھے ہیں،جہاں انہیں رجعت پسنداورتنگ ذہن کہا جاتا ہے۔ان چینلوں کو مسلمانوں کے تشخص اور غلط پہچان کے لیے پوری آزادی حاصل ہے۔
آج جب ہم مولوی محمد باقر کو خراج تحسین پیش کررہے ہیں توہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ قومی اتحاد اور یکجہتی کے لئے ان کی خدمات بیش بہا ہیں ۔لیکن وہ کام ابھی ادھوراہے۔آج بھی بہت سے صحافی اور میڈیا ہاؤس مذہبی بنیادوں پرقومی یکجہتی کو کمزور کرنے کے لیے فعال ہیں۔