افسوس کی بات ہے کہ ابھی تک مولوی محمد باقرکی یادگار کو قائم کرنے کے سلسلے میں حکومت کی طرف سے کوئی پیش قدمی نہیں ہوئی ہے ۔حالاں کہ علمی و ادبی حلقے سے مسلسل اس کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔
نئی دہلی :مولوی محمد باقر ہندوستانی صحافت کی تاریخ میں قلم کے سپاہی اور مجاہد کے طور پر یاد کیے جاتے ہیں ۔انہوں نے اپنے اخبار میں انگریزوں کے خلاف پہلی بغاوت کی کہانی لکھی اور احتجاج کی ایسی آواز بلند کی کہ برطانوی حکومت کے ہاتھوں ان کو شہید ہونا پڑا ۔ظلم کے خلاف قلم کو ہتھیار بنانے والے مولوی محمد باقر نے انگریز کی سازشوں کا پردہ فاش کیا ،ان کےپروپیگنڈہ کو ناکام بنانے میں اہم کردار اداکیااور بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں اپنے اخبار کو پوری طرح سے بغاوت کا نعم البدل بنادیا۔اس لیے جب پورا ہندوستان بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں آزادی کے لیے جد وجہد کر رہاتھا تب انہوں نے دہلی اردو اخبار کا نام بدل کر اخبار الظفر کر دیا۔اس کے آخری شمارے اسی نام سے نکلے۔افسوس کی بات ہے کہ ابھی تک مولوی محمد باقرکی یادگار کو قائم کرنے کے سلسلے میں حکومت کی طرف سے کوئی پیش قدمی نہیں ہوئی ہے ۔حالاں کہ علمی و ادبی حلقے سے مسلسل اس کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : ہندوستان کے پہلے شہید صحافت مولوی محمد باقر
دہلی اردو اخبار کی جہاں ادبی اہمیت ہے وہیں اس زمانے کی سیاست میں بھی اس کا اپنا نمایاں رول تھا۔اس بات کا اندازہ اس طرح لگاسکتے ہیں کہ دہلی اردو اخبار کا ذکر خطوط غالب کے علاوہ ،بہادرشاہ کے مقدمے اور گارساں دتاسی کے خطبات میں ملتا ہے،وہیں ہندوستانی صحافت کی تاریخ میں اس کا ذکر اس حوالے سے اکثر کیا جاتا ہے کہ دہلی اردو اخبار نے 1857کی بغاوت میں بنیادی کردار ادا کیا ۔مئی 1857 کا پورا شمارہ ہی انقلاب اور جدو جہد آزادی کے لیے مخصوص تھا۔
مولوی محمد باقر کے صاحبزادے اور اردو کے معروف ادیب مولانا محمد حسین آزاد کی تحریریں بھی اس میں شائع ہوتی تھیں ۔اس اخبار کی کاپیاں نیشنل آرکائیوز نئی دہلی،ادارہ ادبیات اردوحیدرآباد،عثمانیہ یونیورسٹی اور مولانا آزاد لائبریری علی گڑھ وغیرہ میں موجود ہیں ۔پہلےاس کا نام اردو اخبار دہلی تھا،10مئی 1840کو اس کا نام دہلی اردو اخبار رکھاگیا۔13ستمبر 1857کو اس کا آخری شمارہ نکلا۔مولوی محمد باقر دہلی کالج میں استاد بھی رہ چکے تھے ۔ انہوں نے پرنسپل ٹیلر کو فارسی پڑھائی تھی ۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد اخوند محمد اکبر سے حاصل کی تھی ۔انہوں نے1827سے 1834تک دہلی کالج میں درس وتدریس کا فریضہ انجام دیا۔اس کے علاوہ محکمہ کلکٹری میں ملازمت کی۔
یہ بھی پڑھیں : فیک نیوز کے سچ کو اجاگر کرنے والے پہلے صحافی تھے مولوی محمد باقر
مولوی محمد باقردوراندیش صحافی اور عالم تھے۔ اس لیے انہوں نےاپنے جعفریہ پریس کا نام بدل کراردو اخبار پریس کردیاتھا۔اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے مذہبی عقیدے پر کس طرح ملک ووطن کے مفاد کو ترجیح دی ۔1843میں مظہر الحق کے نام سے اپنے مذہبی عقیدے کی ترجمانی میں بھی اخبار جاری کیا ۔لیکن قومی یکجہتی اور ملک کی آزادی کے لیے انہوں نے دہلی اردو اخبار کو تمام طرح کے مسلکی اختلافات اور مذہبی تعصبات سے اٹھ کر جاری کیا ۔جس کی پاداش میں ان کو اپنی جان دینی پڑی ۔
مولوی محمد باقراستاد ذوق کے پرستار اورہم سبق تھے،اس لیے مرزا غالب کے بارے میں بعض خبروں کو بہت نمایاں طور پر جگہ دی جاتی تھی ۔اس سلسلے میں یہ بات اہم ہے کہ جب غالب کو قمار بازی کے الزام میں سزا ہوئی تو دہلی اردو اخبار نے اسے جلی حرفوں میں شائع کیاتھا۔اس اخبار کا اپنا ایک کھلا نظریہ تھا ،اخبار کے ایک شمارے میں اس نظریے کی ترجمانی کرتے ہوئے مواد کے اخلاقی معیار کے ساتھ ایڈیٹر کے اخلاقی معیار پر بھی زور دیا گیا ہے۔
Categories: ادبستان