ہمارے ملک کی جمہوریت الیکشن کے زمانے میں بیدار ہوتی ہے اور اگلے الیکشن کے آنے تک چین کی نیند سوجاتی ہے۔
مؤرخ شاہد امین نے آزادی کے دوران عوام کے درمیان پھیلنے والی افواہوں کی اہمیت پر کافی لکھا ہے ۔یہ حقیقت ہے کہ آج سے ایک صدی پہلے ترسیل اور ذرائع ابلاغ کے ایسے وسائل فراہم نہیں تھے جو ہمیں آج میسر ہیں۔لہٰذا اس زمانے میں افواہوں کو صحیح مان لیا جانا ایک حد تک تو سمجھ میں آتا ہے مگر انفارمیشن ٹکنالوجی اور تیز رفتار میڈیا کے موجودہ دور میں افواہوں اور جھوٹی خبروں کا چلن ایک عام بات ہوگئی ہے۔حالانکہ اس موضوع پر صرف افسوس ظاہر کرنا ہمارا فریضہ نہیں ہے بلکہ ان کی تفتیش کے ساتھ ساتھ ایسی خبروں کے پس پشت رچی جانے والی سیاست پر سنجیدہ تفہیم بھی لازمی ہے ۔ ایسی خبروں کے درمیان جب ‘ہندو خطرے میں ہے ‘ یا ‘مسلمان خطرے میں ہے ‘ جیسی خبریں ملتی ہیں تو ذہن میں ہندومسلم تعلقات کی ایک خراب تصویرابھر تی ہے۔اس طرح کے فرقہ وارانہ پس منظر میں دونوں قوموں کے زخم مکمل طور پر مندمل بھی نہیں ہوئے تھے کہ ایک بار پھر سے تقسیم کی بو آنے لگی ہے ۔ شاید ایم این رائے نے صحیح کہا تھا کہ ہزار سالوں سے ایک ساتھ رہنے کے باوجود اس ملک میں ہندو اور مسلمان دو ایسی قومیں ہیں جن کے درمیان سماجی رشتے کبھی بھی استوار نہیں ہو سکے۔
سوال یہ ہے کہ آخر دیکھتے دیکھتے یہ ملک بدل کیسے گیا اورہندومسلم رشتوں میں اتنی کڑواہٹ کیوں پیدا ہوگئی ؟ ایسا لگتا ہے کہ آزادی اور تقسیم ہند کی یادیں ایک بار پھر سے تازہ ہوگئی ہیں، نئی نسل جسے تعلیم، ذریعہ معاش اور آسودہ زندگی کے لیے بیتاب ہونا تھا ہمارے رہنماؤں کی حد سے بڑھی ہوئی سیاسی امنگوں نے ان کی چھوٹی چھوٹی امنگوں پر ڈاکہ ڈال لیا۔ شاید اگلے زمانےکا مؤرخ ان شاطر سیاستدانوں کو معاف نہیں کرے گا۔
دلفریب نعرے اور سیاسی جملوں میں ایسی طاقت ہے جو ایک قابل لحاظ آبادی کو متوجہ کر سکتی ہے ۔ دونوں طرف کے ہی رہنماؤں کے پاس دلکش نعروں اور پر زور دعووں کی کمی نہیں ہے۔نتیجتاً اقلیتیں با لخصوص اس ملک کے مسلمانوں کا سب کچھ داؤ پر ہے۔ جہاں ایک طرف دوسرے مسلم ممالک کی لیڈرشپ ہندوستانی مسلمانوں میں اعتماد اور یقین پیدا کرنے میں بنیادی طور پر ناکام رہی ہے ۔ وہیں دوسری طرف اپنے جسم کے ایک حصے سے تخلیق شدہ پڑوسی ملک کے مقدر میں بھی شاید بد نصیبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے مگر افسوس یہ ہے کہ پڑوسی ملک نے ہندوستانی مسلمانوں کے لیے دو دھاری تلوار کا کردار نبھایا ہے۔
اس ضمن میں ایک حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں نے بھی کبھی اپنے اندر وہ حوصلہ نہیں جگایا کہ بر سر اقتدار لیڈران (خواہ مسلم ہوں یا ہندو) کا کھل کر مقابلہ کر سکیں ۔ انہیں یہ بتائیں کہ وہ اس ملک کا اٹوٹ حصہ ہیں ، وہ اپنے برادران وطن سے بھی درخواست کریں کہ وہ ان کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلیں اور ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر آئیں ۔ اس تعلق سے کوششیں تو کی گئی ہیں مگر انہیں کوئی منظم قیادت نہیں مل پائی ۔ چنانچہ دونوں قومیں موجودہ فرقہ وارانہ صورت حال کی ذمہ دار اور برابر کی شریک گناہ ہیں۔
نہرو کا ‘کثرت میں وحدت’ کا عقیدہ، گاندھی اور آزاد کا ‘ ہندوستانی اقدار پر فخر’ اب ہندو تاریخ اور مسلمان تاریخ کے بیچ پھنس کر پیچھے رہ گیا ہے۔ ہمیں ان روایات کو ایک بار پھر سے اپنے درمیان جگہ دینی ہوگی۔ ان روایات اور تاریخ کے روشن حصوں کو عوامی نفسیات کا حصہ بنائے بغیر بات نہیں بنے گی۔ ہمیں اپنی تاریخ کو بانٹنے کے لیے نہیں بلکہ دلوں کو جوڑنے کے لیے لکھنی ہوگی۔ کیوں کہ تاریخ محض ماضی کی نگہبان نہیں ہوتی ہے بلکہ یک جہتی کو فروغ دینا بھی تاریخ کے کا بنیادی فریضہ ہے ۔
عوام ا لناس کی تاریخ اور دانشوروں کی تاریخی بصیرت و شعور میں ایک فاصلہ ہے اس لیے تاریخ سے سبق لیتے ہوئے ہمیں نفرت کی جڑوں کو کمزور کرنے کے لیے ماضی سے سیکھنا ہوگا ۔ شاید یہ نکتہ ایک مثال کے ذریعہ مزید واضح ہوجائے ۔مغل حکمران اورنگ زیب کو ایک طبقہ مولانا اور داعی اسلام کے لقب سے نوازتا ہے تو وہیں دوسری طرف وہ ظالم و جابر مندروں کو توڑنے والا فرقہ پرست بادشاہ ہے ۔ اب درمیانی راستہ ہمیں ڈھونڈنا ہوگا اور اس راستے کو عوام تک لے جانا ہوگا۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اورنگ زیب نہ تو داعی اسلام تھے اور نہ ہی ہندو مخالف بلکہ ایک حکمران جنہوں نے49 برس تک اس خطہ ارض پر حکومت کی ۔ جن کی وزارت میں ہندو منصب داروں کی تعداد داکبر کے دور حکومت سے بھی زیادہ تھی ۔
یہ تاریخی حقیقت بھی ذہن نشین کرنی ہوگی کہ مندر کے ساتھ گولکنڈہ کی شاہی مسجد کو توڑنے میں انہیں زیادہ وقت نہیں لگا کیوں کہ حکمران کبھی بھی بغاوت اور مالی خیانت بر داشت نہیں کرتے۔ سیاہ و سفید کی یہ خانہ بندی ہمیں خسارے میں لے جائے گی ۔ اسی طرز پر 14-9 صدی عیسوی کے دوران مالوہ پر حکومت کرنے والے پرمار حکمرانوں نے مندروں کو ڈھایا ، کلہن پنڈت نے ‘راج ترنگنی ‘ میں لکھا ہے کہ کشمیر کے ہرش دیو نے اپنے ایک آفیسر کو مقرر کیا تھا جو مندروں سے سونے نکالنے کے لیے مورتیوں کی شکل مسخ کر دیا کرتا تھا ۔ بارہویں صدی کے تاریخی متن میں میں درج ہے کہ ششانک حکمراں نے بودھوں کو کافی پریشان کیا، یہی نہیں بلکہ بودھ استوپوں کو بھی ختم کیے اور گوتم بدھ کے بودھی پیڑ کو بھی کاٹا جس کے نیچے بدھ نے روشن خیالی حاصل کی تھی۔
ہم نے مشترکہ تاریخ کا ایک لمبا سفر طے کیا مگر راستے میں بہت کچھ کھوتے بھی گئے ۔ سیاسی اعتبار سے تو ہمارے ملک کی جمہوریت الیکشن کے زمانے میں بیدار ہوتی ہے اور اگلے الیکشن کے آنے تک چین کی نیند سوجاتی ہے۔عملی طور پر ، جمہوریت، یگانگت اور رواداری اس وقت تک ہی سرگرم عمل ہے جب تک ہم اپنے اپنے محلوں میں ہیں مگر جیسے ہی باہر نکلے تو ایک دوسرے کے تئیں خوف، بے اعتمادی اور اجنبیت کا احساس لیے ہی اپنے محلے میں واپس آگئے ۔ سو اس طرح ایک اور دیوار کھڑی کر لی ، نفرت کا ایک اور بیج لگا کر لوٹ آئے ۔ ایسے کشیدہ ماحول میں دونوں طرف کی فرقہ پرست طاقتوں نے ایک دوسرے کو جسمانی اور مالی نقصان پہنچانے کو ہی اپنا ‘مذہبی اور تاریخی’فریضہ محمول کر لیا ہے جس کے نتیجہ میں ہندومسلم رشتوں میں دن بہ دن دوریاں پیدا ہو رہی ہیں۔ جو ہر بار ایک نئے حادثے کا پیش خیمہ ہوتی ہے ۔عملی طور پر بھی ہندومسلم رشتوں میں از سر نو ایک خوشگوار پہل کرنی ہو گئی۔ یہ کام اپنے اپنے محلوں سے ہی شروع ہو سکتا ہے۔ ورنہ خوف، اور عدم تحفظ کی کشمکش میں دونوں قومیں مزید دور ہو جائیں گی اور یکجہتی کا تصور فقط محلوں تک محدود ہو کر رہ جائے گا ۔
اس سے پہلے کہ ہندو مسلم رشتوں میں مزید خلیج پیدا ہو اور اس سے پہلے کہ واقعی اس ملک میں مسلمانوں سے ‘پاک ‘ کرنے کی عوامی مہم شروع ہو، ہم تمام لوگوں کو خلیق ا لزماں چودھری کی کتاب “اے پاتھ وے ٹو پاکستان”میں درج مہاتما گاندھی کے یہ الفاظ تمام برادران وطن کو بھی دہرانے ہوں گے، “میں ہندوستان کے مسلمانوں کو اس سرزمین پر گھسٹ گھسٹ کر مرنے نہیں دوں گا ۔ انہیں فخر اور وقار کے ساتھ اس ملک میں جینا ہوگا۔ “
ہمیں ‘سالم لنگڑے پر مت رو’ جیسی فلمیں اور ‘ٹوپی شکلا’ جیسی کتابیں اپنے نصاب میں داخل کرنی ہوں گی۔اسی طرح مسلمانوں کو بھی سنجیدگی سے اپنے رویے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اس ملک کی مشترکہ تہذیب اورتاریخ کو انہیں اپنی روز مرہ کی زندگی میں بھی لانا ہوگا۔ انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہندوستانی مسلمان اس ملک کی مٹی میں بہت اندر تک دھنسا ہوا ہے۔ فرقہ پرستی کی بنیاد پر سماجی اور سیاسی رشتے نہیں بن سکتے ہیں کیوں کہ فرقہ پرستی ایک نظریہ ہے جس کا کوئی مذہب نہیں ، لہٰذا یہ جس پر حاوی ہو جائے وہ انسانیت کا دشمن بن جاتا ہے اور مذہبی برتری و انانیت سے مغلوب ہو کر بقیہ عوام کی زندگیوں کو داؤ پر لگا دیتا ہے۔
کیا بحیثیت قوم ہم ایک بار پھر سے مذہب کی بنیادوں پر بکھرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں ؟ شاید نہیں! ہمیں ایک اور تقسیم نہیں چاہیے ، دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کا ایک اور سلسلہ اب ہمیں منظور نہیں ۔
(مضمون نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد، کے شعبہ سوشل ورک میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔)
Categories: فکر و نظر