فکر و نظر

تسلیم الدین کے خلاف مقدمات کی حقیقت

ان کا انتقال 17ستمبر کو چنئی کے اپولو ہسپتال میں ہوگیا تھا ۔19ستمبر کو لاکھوں سوگواروں کی موجودگی میں ان کے آبائی گاؤں سسونا میں انہیں سپرد خاک کیاگیا۔اس موقع پر سماج کے تمام طبقے کے افراد کے ساتھ ساتھ اہم سیاسی شخصیات نے شرکت کی تھی یہ ان کی مقبولیت کی علامت تھی۔

taslimuddin

سیمانچل  گاندھی  کے نام سے مشہور اور سابق وزیرمملکت داخلہ تسلیم الدین ضلع ارریہ کے جوکی ہاٹ تھانہ کے گاؤں سسونامیں4جنوری1940کوپیدا ہوئے۔ اپنے سیاسی کیریرکی شروعات 1959 میں گرام پنچایت میں سرپنچ کی حیثیت سے کی اور 1964میں مکھیا کے انتخاب میں کامیابی حاصل کی،1969 میں پہلی بار کانگریس کے ٹکٹ پر بہار اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ابتداء ہی سے عوامی حقوق کے لئے سرکاری افسران سے لڑتے رہے۔ جس کی وجہ سے انہیں سرکاری بابووں اور افسرشاہوں کی دشمنی مول لینی پڑی ۔وہ ان کی آنکھوں کا کانٹا بن گئے ۔1966 میں بننے والی قومی محاذ حکومت میں پہلی بارمرکزی وزیرمملکت برائے داخلہ بنے،حلف لیتے ہی انہوں نے بابری مسجدکے ملزمین  کو سزا دلانے کی بات اٹھانی شروع کردی۔اپنے بیان میں کہاکہ بابری مسجدکے مجرمین کوبخشا نہیں جائے گا تو ان  کا یہ بیان آتشیں دھماکہ ثابت ہوا جس نے سیاسی گلیارے میں ہلچل مچا دی،جس کی قیمت وزارت کھوکر چکانی پڑی۔اس وقت  پوسٹ ماڈرن ہندو صحافی ارون شوری نےبے بنیاد باتوں کو اخبارات کے ذریعہ ہوا دے کر ان کے خلاف ایک محاذ کھڑا کردیا ۔

تسلیم الدین پرجو مقدمے قائم کئے گئے،ان کی نوعیت عام سی ہے۔پہلا مقدمہ 1982 میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور افسران کی بدعنوانی کے خلاف احتجاج کرنے اور ارریہ بند کے دوران دفعہ144/188کے تحت دائرکیا گیا۔دوسرا مقدمہ بھی 1982 میں ارریہ کے پلاسی بلاک کے ایک گاؤں پیرواخوری سے متعلق ہے،وہاں ایک زمین دار کے اشارے پرمعمولی واقعہ کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر اقلیتوں کی پوری بستی کو جلا کر راکھ کردیا گیا۔ جس میں بے گناہ ہندووں کو پھنسایا گیا۔ اصل مجرموں کو پکڑنے اور بے گناہوں کو بری کرنے کے لئے متحدہ محاذ کے زیر اہتمام تسلیم الدین کی قیادت میں احتجاجی تحریک چلائی گئی۔ جس میں کئی لیڈروں کے علاوہ سی پی ایم کے اس وقت کے ایم ایل ا جیت سرکار نچھتر مالاکار، سی پی آئی کے لال چند ساہنی، لوک دل کے ادے بھانو رائے تھے۔

 تسلیم الدین نے پولیس مظالم کے خلاف بھوک ہڑتال دھرنا شروع کردیا۔ جس میں دفعہ309 کے تحت انہیں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا ۔ان کے علاوہ کئی اورلوگ اسامی تھے اس مقدمے میں ابھی تک گواہی نہیں ہوئی ہے۔ تیسرا مقدمہ زمین پر قبضہ سے متعلق ہے۔دراصل 1985 میں تسلیم جوکی ہاٹ سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے توانہوں نے ان  زمینداروں کے خلاف ایک مہم چھیڑی جو سیلنگ ایکٹ نافذ ہونے کے باوجود ہزاروں ایکڑ زمین پر قابض تھے ۔اس معاملے میں ایس ڈی او کا تبادلہ بھی کردیا گیا،نئےایس ڈی او نے آتے ہی  تسلیم کے خلاف ایک مہم شروع کردی اور عوامی احتجاج کو دبانے کے لئے کئی مقدمے قائم کئے۔ اسی طرح بجلی محکموں کے رشوت خور افسران کے خلاف ایک مہم چلائی،اس سلسلے میں اسسٹنٹ انجینئر نے دفعہ 307 کے تحت مقدمہ قائم کیا۔

چوتھا مقدمہ ارریہ تھانہ مقدمہ نمبر86/42جی آر نمبر68/176ہے جو ایک اپر انسپکٹر نے درج کرایا تھا۔ وہ اپرانسپکٹر ایک منصوبہ بند سوچی سمجھی سازش کے تحت تسلیم الدین کے گھر جاکر گالی گلوج اور بدتمیزی سے پیش آیا۔ وہاں کے لوگوں نے اس کی زبردست مخالفت کی اس سازش کے تحت جھوٹا دفعہ 307کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا۔پانچواں مقدمہ ارریا ہسپتال میں تعینات ڈاکٹر نے کیا اس مقدمے کے خلاف تسلیم نے ہائی کورٹ میں اپیل کی جو عدالت عالیہ کے زیر غور ہے۔ چھٹا مقدمہ 86/54 جی آر نمبر86/333ارریہ تھانہ میں درج ہے جو ایک مجسٹریٹ کے ذریعہ دائر کیا گیا تھا ۔

1986 میں انتظامیہ اور پولیس کے ذریعہ اس وقت کی ریاستی حکومت  کے اشارے پر تسلیم الدین کو بے عزت کرنے اورشبیہہ کو داغدار کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس پولیس ظلم کے خلاف اسمبلی اور سڑکوں پر زبردست احتجاج کیا گیا تھا۔ اس وقت کمیونسٹ ایم ایل اے اجیت سرکار نے بھی اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائی ۔ این ڈی اے کے کنوینر اورسابق وزیر دفاع جارج فرنانڈیز اور سبودھ کانت سہائے اور سابق بہار اسمبلی اسپیکر ترپورار ی پرساد کے علاوہ کئی سیاست دانوں نے ارریہ پہنچ کر پولیس ظلم کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ تسلیم کو جھوٹے مقدمات میں پھنسائے جانے کے خلاف زبردست احتجاج کرنے کی وجہ سے جارج فرنانڈیز کو بھی پولیس کے ظلم کا شکار ہونا پڑا تھا۔ پولیس نے اس وقت من مانی کی تمام  حدوں کو پار کرتے ہوئے آنجہانی تری پوراری پرساد اور سبودھ کانت سہائے کو جیل میں بند لوگوں سے ملنے تک نہیں دیا گیا تھا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جارج  فرنانڈیزنے تسلیم الدین کے معاملے کو لے کر اس وقت بی جے پی کے ساتھ مل کر ایک مہم چھیڑ رکھی ہے جب کہ 1986 میں تسلیم کی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے وہ لڑ رہے تھے۔

اس مقدمے کے بارے میں یہ بات دلچسپ ہےکہ زمیندار اور اس وقت کے بہار سرکار کے ریاستی وزیر نے  ایس ڈ ی او کو( جس نے اس کی سینکڑوں ایکڑ زمین سیلینگ مقدمے میں ضبط کی تھی ) ہٹاکر ایک دوسرے افسر کو ان کی جگہ تعینات کرکے اس معاملے کو پس پشت ڈالنے کی کوشش کی گئی تھی ۔ تسلیم الدین نے اس کے خلاف احتجاج کیا اور ساتھ ہی اس وزیر کے خلاف بدعنوانی کی شکایت اس وقت کے لوک آیکت سے کی گئی تھی۔ ان باتوں کی وجہ  سے سازش کے تحت ایک فرضی مقدمہ قائم کیا گیا اور صرف 42 گھنٹے کے اندر ان کے گھر کو قرقی کے نام پرنیست نابود کردیا گیا تھا۔اس معاملے کو ممتاز صحافی ایم جے اکبر کے سیریل ْ ْْْ آج تک، میں دکھایا گیا تھا۔ اس کارروائی کے خلاف بہار اسمبلی میں زبردست احتجاج ہوا تھا ۔اس وقت کے اسپیکر نے اس معاملے کی تحقیقات کے لئے مسٹر رام لکھن یادو (کانگریس ) کی سربراہی میں اسمبلی کی ایک کمیٹی بنائی  تھی۔اس کمیٹی نے اس کارروائی کو پولیس کی ظلم و زیادتی قرار دیتے ہوئے  تسلیم الدین کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے حکومت کو ہدایت کی کہ وہ مکان کا معاوضہ ادا کرے۔

حیرت کی بات ہے کہ آج بھارتیہ جنتا پارٹی نے داغی وزیروں کی اصطلاح ایجاد کرلی ہے۔ اس سلسلے میں ایک قومی ہندی روز نامہ کے کارٹون ذکر کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا جس میں دکھایا گیا تھا کہ کس طرح سیاسی لیڈر اپنے داغ دونوں ہاتھوں سے چھپائے صدر جمہوریہ کو میمورنڈم دینے جارہے ہیں۔ جو لوگ داغی وزیروں کا معاملہ اٹھاتے ہیں ان کی تعداد آج بھی تمام سیاسی جماعتوں سے بڑی ہے۔ الیکشن کمیشن نے جن 100 ممبران پارلیامنٹ پر فوجداری کا مقدمہ چل رہا ہے، کی فہرست تیار کی ہے ان میں بھارتی جنتا پارٹی سر فہرست ہے ۔ان کے داغی ممبران کی تعداد سو میں 26 ہے اور کانگریس 15کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔سی پی ایم کے 5ممبران ہیں جبکہ بقیہ پارٹیوں کےممبران کی تعداد54ہے۔

تسلیم الدین کاقصور صرف اتنا ہے کہ انہوں نے حکومت کی بد عنوانیوں کے خلاف صدائے احتجاج بلندکیا۔جس کی وجہ سے ان پرسرکاری افسران نے جھوٹے مقدمے قائم کئے۔ ان مقدمات کے حق میں ابھی تک نہ تو ثبوت پیش کئے گئے اور نہ ہی کسی معاملے پر فرد جرم عائدکیا گیا۔