رہائشی اسکولوں میں پڑھنے والے بچوںکے ساتھ جنسی استحصال ، ظلم و زیادتی اور ان کے موت کے واقعات عام ہو چلے ہیں لیکن اس موضوع پرعام طور سے کہیں کوئی بات نہیں ہوتی ۔
اڑیسہ کے ملکانگری ضلع میں تعینات بارڈر سیکورٹی فورس کے باڈاپاڈا واقع عارضی ہسپتال کے بستروں پر چند روز پہلے کچھ الگ طرح کا منظر تھا، وہاں ہسپتال کے بستروں پر فورس کے جوان نہیں بلکہ چھوٹی چھوٹی بچیاں، جو بیشتر اسکول کے یونی فارم میں ہی تھی لیٹی تھیں ،اور ان کی دیکھ بھال میں فورس کے جوان مستعد دکھ رہے تھے۔ میڈیا میں وہ تصویریں بھی شائع ہوئی ہیں فورس کے جوان اپنےاسپیڈ بوٹ سے ان کو لے جا رہے ہیں۔
یہ بچیاں ضلع کے چتراکونڈا علاقے کے باڈاپاڈا نامی دوردراز علاقے میں بنے رہائشی اسکول کی طالبات تھیں، جن کی تعداد 150 کےقریب تھی۔ دراصل جب ان بچیوں نے موٹے چاول سے بنا، ناشتہ کرنا شروع کیا تو کئی کو الٹیاں ہونے لگیں اور زبردست پیٹ درد شروع ہوا۔
اسکول میں ہنگامہ بڑپا ہوگیااور پھرآناًفاناً میں فورس کے جوانوں کو بلاکر ان کو ہسپتال پہنچانا پڑا۔جانکاروں کا کہنا تھا کہ شاید اسکول کے لیے جو چاول ٹیمپو میں لےجائے جاتے ہیں وہ اس میں رکھے فنائل سے آلودہ ہوئے، تو کئی بچیوں کے ماں باپ کا کہنا تھا کہ عام طور پر بچیوں کو ایک دن پہلے کا تیار چاول دیا جاتا ہے جو کبھی کبھی ٹھیک رکھ رکھاؤ نہ ہونے سے خراب ہو جاتا ہے۔
غورکرنے والی بات یہ ہے کہ اس واقعہ کے ایک دن پہلے ریاست کے کالاہانڈی ضلع کے پانچ الگ الگ اسکولوں سے اسی طرح کی خبریں آئی تھیں، جب لانجی گڑھ بلاک کے لوما، کبری، باندھپاری، راجیندرپور اور ڈانگری گاؤں کے اسکولوں کے کئی طالبات دوپہر کے کھانے کے بعد اچانک بیمار ہوئے، ان کو الٹیاں اور پیٹ درد ہونے لگا اور ان میں سے اسّی طالبات کو ہسپتال میں بھرتی کرنا پڑا۔
آخری خبر آنے تک کم از کم تین بچوں کی حالت سنگین بتائی گئی تھی جن کو ضلع ہسپتال بھیجا گیا ہے۔ بہر حال ملک بھر کے رہائشی اسکولوں میں جس طرح کی صورت حال آدی واسیوں اور دیگرپسماندہ طبقوں کے بچوں کی ہے،اس سے اس طرح کی خبرو ں کا ملنا بعید نہیں ہے۔
مثلاً گزشتہ ماہ ملک کے ایک بڑے اخبار میں بستر ضلع سے خبر آئی تھی کہ حکومت کے ذریعے چلائے جا رہے ہاسٹلوں اور رہائشی اسکولوں میں چار بچوں کی موت ہوئی ہے۔ (انڈین ایکسپریس، 27 اگست 2017)
اخبار میں یہ بھی بتایا گیا کہ ایک ہاسٹل میں آدھے درجن سے زیادہ بچےاس وقت شدید طور پر بیمار ہیں، جن کا علاج چل رہا ہے۔ اسی ہاسٹل کی 6سالہ بچی کی موت پر ابھی بھی پردہ پڑا ہے۔
مہاراشٹر سے آئی اس خبر کو بھی دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح ایک ماں باپ نے یہ خواب میں بھی سوچا نہیں ہوگا کہ ان کی بیٹی کے پیٹ کے درد کے بہانے اس کے اسکول میں چل رہے جنسی استحصال کے شرمناک واقعہ کا پردہ فاش ہوگا۔
ڈاکٹر نے جانچکر کے بتایا کہ وہ حاملہ ہے۔ واضح ہو کہ مہاراشٹر کے بلڈھانا ضلع کے کھامگاؤں میں قبائلی بچیوں کے لیے بنے ایک آشرم شالہ میں پڑھ رہی ببلی (بدلا ہوا نام)،اسکول کی کئی دیگر طالبات کی طرح اساتذہ اور دوسرےملازمین کی ہوس کا شکار ہوئی تھی۔
جب ببلی کے والدین نے پولیس میں شکایت درج کی تو کئی دیگر لڑکیوں نے بھی ہمت کی اور بتایا کہ وہ بھی اسی طرح کے ظلم کا شکار ہوئی ہیں۔ معاملے کی سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے ریاست کے ایک سینئر وزیر نے اسکول کے ساتھ پاس کے گاؤں کا دورہ کیا ہے اور افسروں سے بات کی۔
آشرم شالہ میں پڑھنے کے لیے بھیجے گئے بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کااور ان کی موت کی ایسے تمام واقعات اس قدر عام ہو چلے ہیں ۔ اس کے باوجود یہ مین اسٹریم میڈیا کی خبر نہیں ۔ جو بار بار اسی بات کی تائید کرتی رہتی ہے کہ ان کو کس طرح سے باعزت زندگی سے محروم کرنے کا منظم سلسلہ چلتا رہتا ہے۔
گزشتہ سال ملک کے ایک نمایاں اخبار نے اس سلسلے میں حق اطلاعات قانون کے تحت جو معلومات حاصل کی، وہ چونکانے والی تھی۔ اخبار میں آئین کی پانچویں فہرست کے تحت قبائلی اکثریت دس ریاستوں میں سرکاری رہائشی اسکولوں میں ہونے والی موت،موت کی وجہ،جنسی استحصال کی واردات اور ایسے ماں باپ جن کو ابھی معاوضہ نہیں مل سکا ہے، وغیرہ پر یہ درخواست ڈالا تھا۔ (اکونامک ٹائمز18 اپریل 2016)
رپورٹ کے مطابق 2010 سے 2015 کے درمیان ایسے مرنے والوں کی تعداد 882 ہے جن میں سے صوبہ مہاراشٹر اول ہے، جہاں 684بچّے مرے، اس کے بعد اڑیسہ کا نمبر آتا ہے، جہاں 155 بچّے مرے اور پھر گجرات (30 اموات)، آندھر پردیش (15 اموات)، راجستھان (13 ماوات)ایسے اعدادوشمار ملے۔
یہ بھی پتا چلا کہ اموات کے ان تمام معاملات میں اسکولوں نے یہ بھی جاننے کی کوشش نہیں کی کہ بچےکیسے مرے۔ اخبار کی طرف سے حق اطلاعات کے تحت جن ریاستوں کے پاس درخواست بھیجی گئی تھی، ان میں سے چھتّیس گڑھ اور ہماچل پردیش نے جواب دینے کی ضرورت بھی نہیں سمجھی۔
ہم قیاس لگا سکتے ہیں کہ اکونامک ٹائمزکی رپورٹ دراصل اسی واقعے کی سنگینی کو نشان زد کرتی ہے، جو بتاتی ہے کہ ملک بھر میں پھیلے آشرم شالاوؤں میں ایسی واردات کا ہونا اب استثنا نہیں رہا۔
دھیان رہے کہ نوودیہ اسکول کی طرز پر اکلویہ ماڈل رہائشی اسکول جس میں 12 ویں تک کے بچّے پڑھتے ہیں اور مرکزی حکومت کی قبائلی ذیلی منصوبہ کے تحت چلائے جا رہے آشرم شالاوؤں میں ایسے واقعات کی کثرت دیکھی گئی ہے۔
سوال اٹھتا ہے محروم طبقے کے مستحق بچوں کی تعلیمی ترقی کے لیے بنے ایسے اسکول موت کے کنوئیں کیوں بن رہے ہیں، اس کی نگرانی کرنے والا یا اس پر نظر رکھنے والا آلہ بھی دستیاب نہیں ہے۔
تین سال پہلے ممبئی عدالت عالیہ کے جسٹس پی وی ہری داس اور جسٹس پی این دیش مکھ کی دو رکنی بنچ کے سامنے جب یہ حقیقت پیش ہوئی کہ گزشتہ دس سالوں میں مہاراشٹر میں بنے آشرم شالاوؤں میں، جن کی تعمیر بالخصوص ناقابل رسائی علاقوں میں رہنے والے قبائلی سماج کی اولادوں کو تعلیم یافتہ بنانےکے لیے کی گئی ہے، 793 بچّے لقمہ اجل ہوئے ہیں، اور حالات کی سنجیدگی کے باوجود حکومت بچوں کی صحت کی ترقی کے اس معاملے کو نظرانداز کر رہی ہے، تب وہ نہ صرف بےحد بدحواس ہوئے بلکہ ان کو کہنا پڑا کہ ان آشرم شالاوؤں میں زیر تعلیم بچوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔
عدالت کو کہنا پڑا کہ وہ ہر ایسےآشرم شالا کے آس پاس کم ازکم ایک میڈیکل افسر کی تعیناتی کویقینی بنائے اور خالی پڑی اسامیوں کو بھر ا جائے۔
ان اموات کی تفصیل دیتے ہوئے عدالت کو مطلع کیا گیا کہ ان میں سے 62 بچّے حادثہ میں، 55 بچّے سانپ کاٹنے، 434 بچّے بیماری کے سبب، 56 بچّے پانی میں ڈوبکر، 129 بچّے قدرتی وجوہات سے اور 57 بچّے دیگر اسباب سےمرےہیں۔
اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ عدالت کے سامنے ان حقیقت کو سرکاری وکیل نے پیش کیا، اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے کہ حقیقی تعداد اس سے زیادہ ہوگی۔
قبائلی اور دیگر محروم طبقات کے ساتھ کئے جا رہے فریب کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایسی اموات کو لےکر حکومت کے ذریعے طے کی گئی پالیسی کے حساب سے حادثہ کے شکار بچّے کے ماں باپ کو معاوضہ کی رقم ادا کی جانی چاہیے، مگر ان دردناک اموات میں سے تقریباً آدھے معاملات میں ایسی کوئی ادائیگی آج تک نہیں کی گئی تھی۔
کچھ سال پہلے ملک کی عدالت کے ذریعے مرکز اور تمام ریاستی حکومتوں کو جاری ایک نوٹس نے ایک طرح سے ایسی بدانتظامی کا ادراک کرتے ہوئے ہدایت جاری کی تھی۔
ایک طلبہ تنظیم کے ذریعے ملک کے 240 ضلعوں میں پھیلی درج فہرست ذات اور قبائلیطلباء کے لیے بنے 1301 ہاسٹلوں میں موجود ‘دوزخی ماحول ‘کے بارے میں دائر عرضی سے متعلق موجودہ چیف جسٹس کےجی بالاکرشنن اور جسٹس پی ست شیوم اور جسٹس آفتاب عالم کی بنچ نے مذکورہ نوٹس جاری کیا تھا۔
واضح ہو کہ سروے رپورٹ میں ان حقائق کو بھی اجاگر کیا گیا تھا کہ ان میں سے کئی ہاسٹل جنگلات میں بھی بنے ہیں جہاں بجلی کی غیرموجودگی میں طلباء کو موم بتی کی روشنی میں پڑھنا پڑتا ہے، پینے کا صاف پانی بھی دستیاب نہیں ہے۔
اس تعلق سے’قومی تعلیمی تحقیقی و تربیتی کونسل ‘ (این سی ای آر ٹی)کے زیراہتمام شائع ہوئی ‘نیشنل فوکس گروپ آن پرابلمس آف شیڈیولڈ کاسٹ اینڈ شیڈیولڈ ٹرائب چلڈرین ‘مرکزی رپورٹ ،اساتذہ اور درج فہرست طبقے کے طلبا کے باہمی رشتے پر بہتر روشنی ڈالتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اساتذہ کے بارے میں یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ درج فہرست ذات اور قبائلی طلبا اور طالبات کے بارے میں ان کی کم از کم توقعات ہوتی ہیں اور جھگی بستیوں میں رہنے والے غریب بچوں کے تئیں تو بےحد برا اور ہراساں کرنے والا سلوک رہتا ہے۔ اساتذہ کے دل میں بھی ‘محروم ‘اور’ کمزور ‘معاشرتی پس منظر سے آنے والے درج فہرست ذات / قبائلی بچوں کے تہذیبی پس منظر، زبانوں اور پیدائشی ذہنی کمزوری کے بارے میں زبانی یا خاموش رائے ہوتی ہیں۔ وہ لیبل بازی، درجہ بندی اور سکھانے کے امتیازی تعلیمی طریقہ کار کی تقلید کرتے ہیں اور نچلی ذاتی کے طلبا کی محدود ذہنی و شعوری صلاحیتوں کے ‘ حقیقی ‘اندازے کی بنیاد پر کام کرتے ہیں۔
یقیناًصرف سرمایہ کی دلیل کی بنیاد پر دلتوں قبائلوں کی تعلیمی دنیا کی پریشانی کو واضح نہیں کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا پہلو ہے جس کو ہم ‘سِول سماج ‘/مہذب معاشرہ کا اپنا اندرونی پہلو کہہ سکتے ہیں، اس کا مرض کہہ سکتے ہیں جو دلتوں وآدیواسیوں کے لیے تعلیم اور بہتری کےدیگر تمام راستوں پر گویا کنڈلی مارکر بیٹھا ہے۔
یہ مسئلہ ہے شہری سماج (سول سوسائٹی)پر حاوی ‘طبقاتی نظام ‘ کا۔ اگر اسکول میں کام کرنے والے استاد یا تعلیمی محکمے کے دیگر ملازمین اس مسئلے پر حساس اور سنجیدہ نہیں ہے، تو یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ وہ اپنے برتاؤ سے ان طبقات کے طلبا کو اسکول سے دور رکھنے میں بالواسطہ کردار نبھاتے ہیں۔
رہائشی اسکولوں میں درج فہرست طبقے کے طلبا کو ذلت برداشت کرنی پڑتی ہوں، یا این سی ای آر ٹی کے ذریعے اساتذہ و طلبا کے باہمی رشتے پر کیا گیا مطالعہ ہو، ایک بات واضح ہے کہ 21 ویں صدی میں بھی تعلیم حاصل کرنا درج فہرست طبقے کے بیشتر طلبا کے لیے آسان نہیں ہے۔
اس کا اثر ہم ان کے ڈراپ آاؤٹ شرح پر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ یہ بلا وجہ نہیں کہ مردم شماری کے اعدادوشمار ہمیں یہی بتاتے ہیں کہ ان طبقات کے ڈراپ آؤٹ شرح یعنی اسکول چھوڑنے کی شرح میں کمی کے کوئی آثار نہیں دکھائی دے رہے ہیں۔
(مضمون نگار سماجی کارکن اور مفکر ہیں)
Categories: حقوق انسانی, فکر و نظر