رئیس امروہوی بیسویں صدی کے سب سے بڑے قطعہ نگار شاعر تھے۔
نئی دہلی :آج ہی کے دن 1988کی شام جب رئیس امروہوی کراچی میں اپنے دولت کدےپرمطالعےمیں مصروف تھےتو انہیں ایک نامعلوم شخص نے گولی مار دی تھی۔قلم کے اس مجاہد نے کبھی کہا تھا :
قلم روداد خون و اشک لکھنے سے جھجکتا ہے
قلم کو اشک و خوں ہی میں ڈبو لیتے تو اچھا تھا
یوپی کے مردم خیز خطہ امروہہ میں پیدا ہونے والے رئیس امروہوی اپنے وقت کے معروف صحافی،ممتاز شاعر،دانشوراور ادیب تھے ۔ان کا ایک تعارف یہ بھی ہے کہ وہ اردو کے مشہور شاعر جون ایلیا کے بڑے بھائی تھے ۔ان کا پورانام سید محمد مہدی نقوی تھا،عرفیت اچھن تھی۔
12ستمبر1914میں پیدا ہوئے۔پہلا شعر1924میں کہا۔ان کواردوکےعلاوہ انگریزی،عربی اور فارسی پرعبور حاصل تھا۔
مختلف اخبارات اور رسائل سے متعلق رہے۔ اکتوبر1947میں پاکستان گئے اورکراچی میں سکونت پذیر ہوئے۔مدیرکی حیثیت سےروزنامہ’’جنگ‘‘ کراچی سےان کی وابستگی رہی۔چالیس سال سے زیادہ’’جنگ‘‘میں حالات حاضرہ پرقطعات بھی لکھے۔حالات حاضرہ کی ترجمانی میں ان کے دو شعر پیش کیے جارہے ہیں:
خاموش زندگی جو بسر کر رہے ہیں ہم
گہرے سمندروں میں سفر کر رہے ہیں ہم
پہلے بھی خراب تھی یہ دنیا
اب اور خراب ہو گئی ہے
رئیس اکادمی کے زیر اہتمام ان کی تیس سے زیادہ کتابیں شائع ہوئیں۔مانا جاتا ہے کہ وہ بیسویں صدی کے سب سے بڑے قطعہ نگار شاعر تھے۔انہوں نے صحافت میں قطعہ نگاری کو ادبی صنف کے طورپربھی قائم کیا۔انہوں نے ادبی سفر کا آغازصبا عرفانی کے نام سے کیا،بعد میں اپنے والد علامہ سید شفیق حسن ایلیاکے مشورے پر صبا عرفانی سے رئیس امروہوی ہوگئے۔
”الف “ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔جس میں انہوں نے اپنے بارے ایک دلچسپ بات لکھی ہے کہ “میں پہلی جنگ عظیم کے آغاز میں پیدا ہوا۔دوسری جنگ عظیم میں میری شاعری پروان چڑھی اور تیسری جنگ عظیم ؟”
قلم کی ذمہ داری پر اس صحافی نے کبھی ان لفظوں میں تبصرہ کیا تھا:
ملک الموت سے ٹکرا کے رئیس
دیکھنا ہے کہ کہا ں گرتے ہیں
ہم کہ اس شہر کے بازاروں میں
سر ہتھیلی پر لئے پھرتے ہیں
Categories: ادبستان