شایدآج کل تعلیمی اداروں کے وی سی کا کام اپنی یونیورسٹی اور وہاں کے طلبہ و طالبات کا خیال رکھنے کے بجائے حکومت کاایجنڈہ سیٹ کرنا ہے۔
گزشتہ کئی دنوں سے بنارس ہندو یونیورسٹی(BHU) میں طالبات ،چھیڑخانی کے خلاف سڑک پر ہیں ۔حالاں کہ یہ احتجاج حال میں ہوئے ایک معاملے کے ردعمل میں شروع ہوا،لیکن جہاں تک مجھے یاد آتاہے بی ایچ یو میں چھیڑ خانی کی روایت بہت پرانی ہے۔ راستے سے گزرتی لڑکیوں کو بائیک سوار لڑکےچھیڑتے ہوئے بہت آسانی سے گزر جاتے ہیں‘بھلا انھیں کسی بات کا خوف کیوں ہوگا،جب انتظامیہ بھی کان میں تیل ڈال کراور آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر سو رہا ہو۔
میں بی ایچ یو میں داخلہ ملنے کے بعد پہلی بار گھر سے ہاسٹل میں رہنے گئی تھی،وہاں میرا پہلا سبق کلاس روم سے باہر کیمپس کی سڑکوں پر چلنے کے آداب سے متعلق تھا۔ میری بڑی بہن جو وہاں پہلے سےاسٹوڈنٹ تھی،اس نے پہلا سبق مجھے یہی دیا تھا کہ کیمپس میں سڑک پر چلتے ہوئے احتیاط کرنا اور اگر آس پاس سے کوئی بائیک والا گزر رہا ہو تو زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ وہاں بائیک سوار لڑکے سے چھیڑے جانے کی شکار کم و بیش ہر دوسری لڑکی ہے۔ کسی لڑکی کے پاس سے اس کو یہاں وہاں چھوتے ہوئے گز جانا ان کاروز کا معمول ہوتا ہے۔
خود مجھے اپنے شعبے میں جانے کے لئے آرٹس فیکلٹی کے اندر سے گزرتے ہوئے تقریباً روز ہی بھدےکمنٹس سننے کو ملتے تھے۔سڑک پر چلتے ہوئے اگر آپ نے ہیڈ فون لگایا ہوا ہے تو بھی فون آپ کو اپنے بیگ میں ہی رکھنا ہوگا ، کیونکہ کسی بھی منچلے کا جب دل چاہے گا وہ آپ کا فون بہ آسانی چھین کر بھاگ سکتا ہے ،بالکل اسی طرح جس آسانی سے وہ آپ کو کہیں بھی چھو کر تیزی سے بھاگ سکتا ہے۔
بی ایچ یو میں گھر سے دور رہنے کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا، اس سے پہلے چونکہ میں نے گرلس کالج میں تعلیم پائی تھی،اس لیے مجھے یہی لگتا تھا کہ شاید ہمارے ملک کی ساری یونیورسٹیوں میں لڑکیوں کو روز ان اذیتوں سے گزرنا پڑتا ہوگا۔ حالانکہ اس وقت تک میں نے جے این یو کے بارے میں صرف سنا تھا کہ وہاں لڑکیا ں رات بھر لائبریری میں پڑھ سکتی ہیں اور آدھی رات کے وقت بھی جب دل چاہے اپنے ہاسٹل جا سکتی ہیں۔ لیکن یہ مجھے ایک خواب کی طرح لگتا تھا ،جس کے پیچھے کی حقیقت پر مجھے شک تھا۔
ہمیں گھر جانے سے پہلے ایک خاص طرح کی اجازت لینی ہوتی تھی۔ یعنی آپ کو ہاسٹل اتھارٹی سے اپنےگھر والوں کی فون پر بات کرانی ہوگی تاکہ ہاسٹل والے کنفرم ہو سکیں کہ آپ گھر ہی جا رہی ہیں کہیں آوارہ گردی کرنے نہیں۔ میں تریوینی سنکُل کے سرسوتی ہاسٹل میں رہتی تھی ۔گرلس ہاسٹل کا مین گیٹ شام 7.30کے آس پاس بند ہو جایا کرتا تھا۔ اگر آپ اس کے بعد ہاسٹل آئی ہیں تو لیٹ انٹری کے ایک رجسٹر میں انٹری کرنی ہوتی تھی اور اگر آپ کی لیٹ انٹری کی تعداد حد سے زیادہ ہے تو اس کے لیے بھی کچھ قانون بنائے گئے تھے۔ قابل غور ہے کہ لڑکوں کے ہاسٹل میں اس طرح کی کوئی پابندی نہیں تھی ۔ان کے ہاسٹل کا گیٹ رات بھر کھلا ہوتا تھا اور وہ سڑکوں پر بڑے آرام سے اپنے ماں باپ کا نام روشن کرتے پھرتےتھے۔
ہولی کے تہوار کے دوران گرلس ہوسٹل کے مین گیٹ پورے دن اوررات بھر بند ہی رہتے تھے۔وجہ یہ بتائی جاتی تھی کہ کوئی لڑکابھانگ پی کر بد تمیزی نہ کرے یعنی ہماری حفاظت کے لیے مین گیٹ بند ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دن ہاسٹل کے میس میں صرف دن کا کھانا ملتا تھا ،رات میں میس آف ہوتا تھا؛تو رات میں آپ کیا کھائیں گے، ہاسٹل اتھارٹی کو اس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ اس وقت لڑکیوں کا اپناجگاڑ کام آتا تھا۔
میں اپنے کلاس میں اکلوتی لڑکی تھی ،جو ہاسٹل میں رہتی تھی ،باقی بچے بنارس کے ہی تھے اس لیے گھر سے آتے تھے۔ایک دفعہ رمضان میں مجھے ویک اینڈ پر پھوپھی کے گھر جانا تھا،جو بنارس میں ہی رہتی تھی۔ چونکہ رمضان کے لیے ہاسٹل میں کوئی انتظام نہیں تھا۔ اس لیے مجھے سارے انتظام خود ہی کرنے پڑتے تھے۔ان کا گھر اتنا دور تھا کہ 3 بار آٹو لینی پڑتی تھی۔رمضان میں روزہ رکھ کر ان کے گھر اتنی دور جانے کا سوچ کر ہی مجھے قیامت کے بارے میں پڑھے گئے تمام قصے یاد آنے لگتے تھے۔پھر پھوپھی نے مشورہ دیا کہ بھائی کے ساتھ آجاؤ۔ میرا پھوپھی زاد بھائی تب درگا کنڈ کے جے آر ایس میں پڑھا کرتا تھااور اس کی کلاس رات میں 9 بجے کےآس پاس چھوٹتی تھی ۔میرے ہاسٹل کا گیٹ اس سے بہت پہلے بند ہو جایا کرتا تھا۔ اس لیے یہ ترکیب نکالی گئی کہ میں اپنی بہن کی ایک دوست جو کیمپس سے باہر روم لے کر رہتی تھی ،ان کے پاس چلی جاؤں تاکہ وہاں سے بھائی مجھے پک کر سکے۔ اب میرے لیے یہ زیادہ آسان اور سہولت بھرا تھا کہ میرا بھائی مجھے ہاسٹل سے پک کر لے یا یہ کہ میں کیمپس کے باہر کی گلیوں کی خاک چھانوں جبکہ میں اس وقت بنارس میں نئی تھی؟اس آسانی پر غور کرنے کی ضرورت ہے؟
تو یہ تھا میرا بی ایچ یو جہاں تین دنوں سے لڑکیاں اپنے حق کی لڑائی لڑ رہی ہیں ۔پہلی بار جب مجھے خبر ملی کہ بی ایچ یو میں طالبات نے اپنی لڑائی کا آغاز کر دیا ہے تو میرے دل میں سب سے پہلے جو خیال آیا وہ یہی تھا کہ یہ احتجاج وہاں بہت پہلے ہی شروع ہوجانا چاہیے تھا۔ کیونکہ بی ایچ یو سے نکل کر جے این یو آنے کے بعد میں نے جانا تھا کہ لڑکیاں بھی انسان ہیں۔ وہ بھی آزادی سے رات بھر لائبریری میں بیٹھ کر پڑھائی کر سکتی ہیں ،آدھی رات کو بلا خوف لائبریری سے ہاسٹل آ سکتی ہیں اور کسی ہاسٹل کا کوئی بھی گیٹ ان کے لیے کبھی بند نہیں ہوتا۔نہ انھیں کسی کے گندے اور بھدے کمنٹس روز روزاگنور کرنے پڑتے ہیں۔
جے این یو آنے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ ایک جگہ ایسی بھی ہے،جہاں لڑکیاں آزادی سے سانس لے سکتی ہیں۔ بی ایچ یو کی طالبات جو اپنے حق کے لیے مرد پولیس کی لاٹھیاں تک کھا رہی ہیں ان سے کہا گیا کہ ‘تم بی ایچ یو کو جے این یو بنا دینا چاہتی ہو’؟تو صاحب میں کہنا چاہتی ہوں کہ جے این یوانسانوں کی آزادی کی علامت ہے،جہاں نہ صرف لڑکیاں آزادی سے سانس لیتی ہیں بلکہ انھیں اپنے خیالات کے اظہار کی آزادی بھی حاصل ہے۔ پھر بی ایچ یو کے جے این یو بن جانے سے ڈرنا کیسا؟ کیا طالبات کے تحفظ کی ذمہ داری بی ایچ یو انتظامیہ کی نہیں ہے؟اور آخر لڑکیاں ان سے ایسا کیا مانگ رہی ہیں کہ بدلے میں ان پر لاٹھی چارج کیا جارہا ہے؟ اسٹریٹ لائٹ،سی سی ٹی وی کیمرہ اور تحفظ بس— کیا یہ ان کا بنیادی حق نہیں ؟اتنے سے حق کے لیے ان پر لاٹھیاں برسائی جا رہی ہیں؟ کیا کسی تعلیمی ادارے اور اس کے وی سی کے لیے یہ شرم کی بات نہیں ہے ؟ آخر کب تک لڑکیاں اس طرح کے واقعات برداشت کریں گی، کبھی کُرتے میں ہاتھ ڈال دینا، کبھی پیچھے سے ہاتھ مارتے ہوئے گزر جانا ،کبھی گندے کمنٹس برداشت کرنا ، آخر یہ کب تک برداشت کیا جائے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وی سی صاحب ملاقات کے لیے اپنا چیمبر استعمال کرنا چاہتے ہیں ، جس کے لیے لڑکیاں تیار نہیں ہیں ۔آخر وی سی صاحب باہر آکر بات کرنے سے اتنا ڈر کیوں رہے ہیں ؟
ویڈیو : بی ایچ یو میں طالبات کا احتجاج کیوں ؟
قابل غور بات یہ بھی ہے کہ ملک کے وزیر اعظم بھی فرائیڈے کو وہاں موجود تھےاور ان کا لمبا چوڑا قافلہ بی ایچ یوسے کچھ ہی فاصلے پر تھا، لیکن طالبات سے بات کرنے کے بجائے،ان کے مسئلے سننے کے بجائے ان کے قافلے کا راستہ بدل دیا گیا۔ وزیر اعظم کو طالبات سے ایسا کون سا خطرہ تھا جو انھوں نے ان سے بات کرنے کی بجائے راستہ بدلنا زیادہ مناسب سمجھا۔
حکومت کی مہربانیوں سے اب جے این یو بھی کئی معاملوں میں پہلے والا جے این یو نہیں رہا ،لیکن یہ اب بھی لڑکیوں کے لیے بہت سے بی ایچ یو سے بہتر ہے۔سوال یہ ہے کہ کیااپنے بنیادی حق کے لیے احتجاج کر رہی لڑکیوں پر لاٹھی چارج کرنا، طلبہ و طالبات کے ساتھ گالی گلوچ کرنا ، ہماری تہذیب وثقافت کا حصہ ہے؟
کیا بھارتیہ سبھیتا ہمارے سماج کو یہی تعلیم دیتی ہے۔ وہ تمام رولس جو لڑکیوں کے لیے بنائے جاتے ہیں نہ صرف ہاسٹل میں بلکہ گھر پر بھی، اگر لڑکوں کے لیے بنائے جائیں اور عمل بھی کروایا جائے تو میرے خیال سے لڑکیاں اپنے کیمپس میں ہی نہیں بلکہ سڑکوں پر بھی محفوظ رہیں گی۔
بی ایچ یو کی ان لڑکیوں کو میرا سلام کہ اتنی بربریت اور بد سلوکی کے بعد بھی ان کے حوصلے بلند ہیں ۔یہ جنگ صرف ان کی نہیں ہے بلکہ ہر اس لڑکی کی ہے جو اس معاشرے کی ستائی ہے اورآئے دن اس طرح کے واقعات سے دو چار ہوتی رہتی ہیں ۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس ذہنیت کے خلاف بولا جائے،جس نے عورت کو بھوگ کی وستو بنا کر گھر میں اور باہر اس کی آزادی پر قدغن لگایا ہے۔لیکن حیرت کی بات ہے کہ کئی بار کہا جاتا ہے کہ تم لوگوں کو کس بات کی آزادی چاہیے ؟ کیا تم لوگ سڑک پر ننگے گھومنے کی آزادی چاہتی ہو؟ ایسے لوگوں سے میں صرف ایک بات کہنا چاہوں گی کہ ہم اپنی آزادی کی پری بھاشا بھی خود لکھیں گے ،سڑک پر کیسے گھومنا ہے، کب گھومنا ہے اس کا فیصلہ کرنے والے آپ کون ہوتے ہو؟ جس دن وہ اپنی گھٹی میں پڑی سوچ سے آزاد ہو جائیں گے، لڑکیوں کی آزادی سے متعلق اس طرح کے سوالات ان کے ذہن میں نہیں آئیں گے ۔
چلیں آپ اور ہم مل کر عورت کی نہیں ‘مرد ‘کی آزادی کی دعا کرتے ہیں ، کہ اسے اس’آزادی’ کی ضرورت ‘عورت’ سے بھی زیادہ ہے۔
لڑکیوں کو بھوگ کی وستو سمجھنے والے لوگ بڑی تعدادمیں اقتدارمیں عمل دخل رکھتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان طالبات کے حوصلوں کو لاٹھی برسا کر توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عورت کو دیوی بنا کر پوجنے والے اس سماج کی حقیقت وی سی کے اس بیان میں بھی دیکھی جا سکتی ہے؛جہاں رات میں اپنے ہی‘ کیمپس میں گھومنا بھی ریپ کرانے کے لیے گھومنا ہے ‘میں یہ کہنا چاہتی ہوں محترم وی سی صاحب سے کہ صاحب ‘مردوں’ کو گھروں میں بند کر دیجیے ، عورت خود بہ خود محفوظ ہو جائے گی۔
شایدآج کل کے تعلیمی اداروں کے وی سی کا کام اپنی یونیورسٹی اور وہاں کے طلبہ و طالبات کا خیال رکھنے کے بجائے حکومت کاایجنڈہ سیٹ کرنا ہے۔ کچھ سیاست دانوں کا اس پورے مدعے کو ’سیاسی‘ بتانا بھی افسوس ناک ہے۔ عورت کے نام پر سیا ست کرنے والے آج اس کے سنگھرش کو سیاست سے جوڑ کر اس کی اہمیت کم کرنا چاہتے ہیں ۔یہ شاید وہی لوگ ہیں جن کے لیے عورت’دیوی’ تو ہو سکتی ہے لیکن انسان نہیں۔
(مضمون نگار جے این یو میں ریسرچ اسکالر ہیں )
Categories: حقوق انسانی, فکر و نظر