میں نے تین پروڈیوسروں کی کہانی بیان کی ہے ۔فلم کی لائن میں پروڈیوسر اس طرح بھی کامیاب ہوتے ہیں ۔اپنی زبان سے صاف مکر جانا اور پیسہ نہیں دینا بمبئی میں عام ہے۔
میری ابتدائی فلمی زندگی کی کہانی عجیب و غریب ہے۔ اداکار کے طور پر مجھ کو پہلی فلم اس وقت ملی تھی جب میں فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا (FTII)پونے میں طالب علم تھا۔ اس فلم کا نام’ مرگ ترشنا’تھا۔اس فلم میں جلال آغا صاحب اور راکیش پانڈے بھی تھے اور اس کے ڈائریکٹر آر.این.شکلا تھے جو ایف ٹی آئی آئی میں میرے سینئر تھے۔ لیکن میرپہلی فلم جو ریلیز ہوئی تھی وہ ہے ‘چرس’جس کی کہانی بہت دلچسپ ہے ۔اسے رامانند ساگر صاحب نے پروڈیوس کیا تھا۔ ان کا بیٹا پریم ساگر صاحب ، یہ بھی فلم اسٹوڈیو سے ہیں جو میرے سینئر رہ چکے ہیں ۔ یہ ایک مرتبہ کسی کام سے فلم اسٹوڈیو آئے تھے ۔ اس وقت میں اسٹوڈیو کی کسی فلم کی شوٹنگ کر رہا تھا جس میں شوٹ کے لیے مجھے کسی درخت پر چڑھنا تھا۔ درخت اونچا تھا لیکن میں چوں کہ مسوری کا رہنے والا ہوں ، اس لیے میرے لیے درخت پر چڑھنا بندروں کی طرح آسان ہے ، اس لیے ،میں درخت پر چڑھ گیا۔ پریم ساگرصاحب اس وقت مجھے دیکھ رہے تھے۔اس واقعے کے ڈیڑھ دو سال بعد جب راما نند ساگر صاحب ‘چرس’ فلم بنا رہے تھے تو انھوں نے اپنے بیٹے پریم سے کہا کہ مجھے کوئی ایسا کلاکار چاہیے جو کسی حد تک بولڈ ہو اور ایکشن وغیرہ کرتا ہو۔ پریم ساگر نے اپنے والد سے کہا کہ میں ٹام آلٹر نام کے ایک کلاکار کو جانتا ہوں جس کا تعلق مسوری سے ہے ۔ اس طرح گویا پہلا کام مجھ کو میری ایکٹنگ کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس لیے ملا کہ میں درخت پر بہ آسانی چڑھ سکتا تھا۔
‘چرس’فلم کمال کی تھی۔ وہ چلی بھی خوب۔ اس فلم میں دھرمیندر اور ہیما مالنی کے ساتھ کام کرنے میں بڑا لطف آیا ۔ وہ زمانہ ہی کچھ اور تھا۔سادگی بھری زندگی تھی ۔ پہلے دن جب میں شوٹنگ کے لیے اسٹیشن سے پیدل ہی اسٹوڈیو گیا تو دروازے پر چوکیدار نے مجھے روک لیاجو ایک عام بات تھی اور ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ میں شوٹنگ کے لیے آیا ہوں۔ اس نے کہا کہ سب یہی کہتے ہیں !چلو بھاگو یہاں سے۔ بڑی منت سماجت کے بعد اس نے ساگر صاحب سے بات کی ۔ اس کے بعد نٹراج فلم اسٹوڈیو میں تقریبا ًتیس سال تک میرا آنا جانا رہا ۔ میں جب بھی جاتا تو وہ چوکیدار دونوں ہاتھ جوڑ کر نمستے کرتا۔ میری اس سے دوستی ہو گئی تھی۔ ممبئی میں جب میں دھرم پا جی کے ساتھ شوٹنگ کر رہا تھا تو شدید گرمی تھی۔ مجھےزور کی پیاس لگی ہوئی تھی۔چوں کہ میں ابھی بالکل نیا نیا تھا ، اس لیے مجھے وہاں کوئی پوچھ ہی نہیں رہا تھا۔ دھرم پا جی ایک چھتری کے سایے میں بیٹھے لسّی پی رہے تھے اور میں دھوپ میں بیٹھا جل رہا تھا۔ وہ بار بار مجھے دیکھ رہے تھے۔ انھوں نے ایک شخص سے کہا کہ جا کر اس انگریز سے پوچھو کہ اسے لسّی چاہیے۔ اس نے آکر مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ کو لسّی چاہیے۔ میں نے اس سے کہا کہ ضرور چاہیے۔ لسی آئی جسے میں نے دو چار ہی گھونٹ میں ختم کر دیا ۔ دھرم پا جی نے اس شخص سے کہا کہ پھر جا کر اس انگریز سے پوچھ کہ کیا اور لسی چاہیے۔ اس طرح دوسری بار اور پھر تیسری بار بھی میں نے لسی پینے کے لیے اپنا عندیہ ظاہر کیا تو دھرم پا جی کی زور سے آواز آئی ‘اوے توسی انگریز ہو یا پنجابی؟’وہ سادگی سے بھرے دن تھے ۔ کسی کو کسی سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ ایسے دن اب بمبئی کی زندگی میں پھر کبھی نہیں آئیں گے ۔ انہی دنوں دھرم پا جی کے ساتھ دوستی ہوئی ۔ اس زمانے میں ہیما جی کے ساتھ ان کا زبردست رومانس چل رہا تھا۔
رامانند ساگر صاحب رائٹر، شاعر اور بہت بڑے فلم ڈائرکٹر تھے۔ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ جب میں شوٹنگ کر رہا تھا تو شام کے وقت انھوں نے مجھ سے کہا کہ ٹام Relax۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر کہا کہ ٹام Relax۔ ان کے ری لیکس کہنے کا مطلب میں سمجھ نہیں رہا تھا۔ تیسری مرتبہ انھوں نے خود ہی مجھے بلا کر کہا ٹام Relaxکا مطلب بمبئی کی پنجابی میں یہ ہوتا ہے کہ تمھارا آج کا کام ختم ہو گیا اب تم جا سکتے ہو۔
27 مئی 1976کو جب ‘چرس’ فلم ریلیز ہوئی تو جگادری میں جہاں انیس بیس برس کی عمر میں کبھی میں نے ایک اسکول میں ٹیچر کی نوکری کی تھی ، وہاں کے اپنے دوستوں سے وعدہ کیا کہ جب میری پہلی فلم ریلیز ہوگی تو میں اسے آپ لوگوں کے ساتھ جگادری ہی میں دیکھوں گا۔فلم یمنا نگر جو جگادری کے بالکل سامنے ایک سنیما ہال میں ریلیز ہوئی ۔ جگادری کے اپنے ایک دوست ڈیویڈ کو میں نے 1976 میں ڈیڑھ سو روپے کا منی آرڈر بھیج دیا تھااور اس سے کہا تھا کہ وہ اس پیسے سے جتنے ٹکٹ مل جائیں خرید لے ۔ اس وقت غالباًپانچ روپے میں ایک ٹکٹ ملا کرتا تھا۔ اس طرح گویا تیس آدمی کا بندوبست ہو گیا ۔ میں 27 مئی 1976 کو اپنی موٹر سائیکل پر بیٹھ کر مسوری سے جگادری کے لیے تین بجے کے شو کے لیے روانہ ہوا۔
اس فلم میں میری انٹری شروع میں نہیں بلکہ ایک گھنٹے کے بعد ہے۔ جو لوگ میرے ساتھ سنیما ہال میں یہ فلم دیکھنے آئے تھے جب میں انھیں شروع میں اسکرین پر دکھائی نہیں دیا تو ان لوگوں نے یہ کہتے ہوئے ‘ارے ٹام آلٹر! تم اس فلم میں ہو بھی یا نہیں ‘ہوٹنگ شروع کر دی مگر جب فلم میں میری پہلی انٹری ہوئی تو اس وقت ہال میں یہ کہتے ہوئے ‘اوٹام آلٹرواہ واہ کیا بات ہے’جو تالیاں بجی ہیں ، وہ میرے لیے نا قابل فراموش ہے۔
دہرہ دون میں کنک سنیما ہال ہے جہاں ‘چرس’ فلم لگنے والی تھی۔ جمعے کو مسوری سے جاتے ہوئے صبح صبح میں وہاں رکا اور کنک کے مینجر سے کہا کہ اتوار کی شام میں مجھے چھے بجے کی شو کے لیے پچیس ٹکٹیں چاہیے کیوں کہ مسوری والے میرے دوست فلم دیکھنے کے لیے آرہے تھے۔ اس نے مجھ سے کہا اگر آپ کو سنڈے کی ٹکٹیں چاہیے تو آپ پھرسنڈے کو ہی آئیے اور ٹکٹ حاصل کیجیے۔ اس کو اس وقت تک یہ معلوم نہیں تھا کہ میں کون ہوں۔ میں سنڈے کو اسی سنیما ہال میں آیا اس وقت تک ‘چرس’ہٹ ہو چکی تھی ۔ وہی منیجر جو دو دن قبل مجھ سے بات تک نہیں کر رہا تھا دیکھتے ہی کہنے لگا’ارے ٹام صاحب آئیے آئیے، یہ سنیما ہال آپ ہی کا ہے۔ کیا لیں گے، کتنے ٹکٹ چاہیے، پورا ہال آپ ہی کا ہے۔ یہ سموسے لیجیے اور پکوڑے لیجیے’۔ یہ ہے جادو ہماری فلموں کا کہ کس طرح دو دن میں کایا پلٹ ہو جاتی ہے۔ میرے ساتھ مسوری سے دہرہ دون لگ بھگ پچیس آدمی فلم دیکھنے کے لیے آئے تھے ۔ ہم لوگ اوپر بال کنی میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ منیجر صاحب کو چوں کہ میری تواضع کرنی تھی ، لہذا انھوں نے انٹرول میں سب کے لیے اوپر کیلےبھجوائے تھے۔ رات میں انٹرول میں کیلے کون کھائے گا لیکن یہ کیلے چوں کہ منیجر صاحب کی طرف سے آئے تھے ، اس لیے، سب لوگ وہاں بیٹھ کر بندروں کی طرح کیلے کھا رہے تھے۔ بڑا مزا آیا۔ آج کل بھی فلمیں جمعے کو ریلیز ہوتی ہیں اگر وہ Mondayتک چل جائیں تو بہت بڑی بات ہے۔ ‘چرس’ تو دہرہ دون میں پچیس ہفتے سے زائد چلی تھی۔
تقریباًایک مہینے بعد مسوری میں واسو سنیما ہال میں چرس لگی تو میں وہاں بھی فلم دیکھنے کے لیے گیا تھا۔ فلم دیکھنے کے بعد واسو سنیما ہال سے جب میں باہر نکلا تو وہاں ایک اجنبی شخص نے مجھ سے نمستے کیا۔ میں نے بھی نمستے کیا۔ اس نے کہا ٹام بھائی مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے۔ میں نے کہا کہیے۔ اس نے کہا کہ یہ فلم مجھے بہت اچھی لگی ۔ آپ نے بہت اچھا کام کیا ہے لیکن ٹام صاحب ایک بات کا خیال رکھیے گا ۔ میں نے کہا کہ ضرور رکھوں گا لیکن کس بات کا۔ اس نے کہا کہ آپ نے جو کیا وہ وہ سب کرنا چاہتے ہیں لیکن نہیں کر پاتے ۔ آپ یوں سمجھیے کہ آپ نے جو بھی کیا ہے وہ سب ہمارے لیے کیا ہے ، اس لیے آپ کے اندر گھمنڈ یا غرور نہیں آنا چاہیے۔ بس اس چیز کا خیال ہمیشہ رکھیے گا۔ اس وقت تو اس شخص کی یہ باتیں عجیب لگی تھیں۔ میں تو سنیما ہال سے نکلنے کے بعد جشن منانے والا تھا لیکن اس اجنبی شخص کی باتوں نے مجھے بہت کچھ غور و خوض کرنے پر مجبور کر دیا۔ آج تک مجھے اس شخص کی باتیں ذہن نشیں ہیں۔
یہ بات سچ ہے کہ کروڑوں لوگ فلموں میں آنا چاہتے ہیں لیکن معدودے چند ہی آپاتے ہیں ۔ حقیقت میں ہم لوگ بہت ہی خوش نصیب ہیں کہ کیمرے کے سامنے فلموں میں آتے ہیں۔ یہ ایک ذمہ داری تو نہیں ہے مگر یہ سمجھنا چاہیے کہ لاکھوں لوگوں کی دعائیں ہماری اس چھوٹی سی کامیابی کے پیچھے ہوتی ہیں۔
مرگ ترشنا اچھی لیکن آرٹ فلم تھی ۔ یہ اسی وقت یعنی چرس کے ساتھ ہی اس کے کچھ روز بعد ریلیز ہوئی تھی ۔ آرٹ فلموں کا اس وقت کوئی خاص چلن نہیں تھا، اس لیے ، یہ فلم نہیں چل سکی ۔ اس وقت آرٹ فلمیں بہت کم بنتی تھیں۔ مرگ ترشنا بہت اچھی فلم تھی ۔ اس میں جلال آغا اور راکیش پانڈے تھے اور ہیما مالنی جی کا ڈانس تھا۔ یوگیتا بالی جنھوں نے بعد میں متھن چکرورتی سے شادی کی، کا بھی اس فلم میں اہم رول تھا۔
میں آپ کو 1974 کے آخر کی ایک بات بتاتا ہوں۔ ہم لکھنؤ میں ترشنا کی شوٹنگ کر رہے تھے جس میں مَیں ایک انگریز افسر بنا تھا۔ کمال کا منظر ہے سامنے جھیل ،اسٹیچو، لمبی لمبی سیڑھیاں اور ایک بڑی سی عمارت ہے ۔ افسر گھوڑے پر سے اتر کر سیڑھیوں پر جاتا ہے ۔ ٹھیک چالیس برس بعد 2014 میں مَیں نے وہی شوٹنگ کی۔ وہی منظر، وہی سیڑھیاں اور وہی اسکول یعنی لامار ٹینیر(Lamartenier)۔ البتہ 1974 میں مَیں گھوڑے پر سوار ہو کر آیا تھااور 2014 میں جیپ پر سوار ہو کر آیا۔ میں نے دیکھا کہ میں پہلے سے کچھ موٹا ہو گیا ہوں لیکن چال، لوکیشن اور شوٹ بالکل وہی ہے۔ یہ بہت بڑا تجربہ ہے ۔ ہم ایکٹر جب فلموں میں کام کرتے ہیں تو ہم اپنے آپ کو کیمرے میں دیکھتے ہیں۔ہم جس اسٹیج پر کام کرتے ہیں تو بمشکل وہ کام دیکھنے کو ملتا ہے۔ البتہ جب لوگ تعریف کرتے ہیں تو ہم سوچتے ہیں کہ لوگ ہماری تعریف کیوں کر رہے ہیں۔آخر ہم نے کیا کیا ہے۔ یہ کیمرہ ایسی چیز ہے کہ اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں رہتی۔ آپ اگر پریشان ہیں تو آپ کی پریشانی اس پر نطر آئے گی۔آپ اگر خوش ہیں تو آپ کی خوشی کے تمام زاویے اس پر عیاں ہو جائیں گے۔ اگر آپ موٹے ہیں تو آپ کا موٹاپا بھی اس پر نظر آئے گا۔ آج جب تقریباًچالیس پینتالیس برس بعد میں اپنے پرانے کام کو دیکھتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا کام اتنا برا تو نہ تھاجو اس وقت اچھا نہ لگتا تھا۔ حالاں کہ جن حالات میں ہم کام کر رہے تھے اس کے اعتبار سے تو ٹھیک ہی تھا۔
‘لیلیٰ مجنوں ‘ کا تجربہ عجیب و غریب ہے ۔ ایچ اے رویل صاحب اس سے پہلے بڑی بڑی فلمیں بنا چکے تھے۔ انھوں نے راجندر کمار کے ساتھ لکھنؤ کی کہانی پر ‘میرے محبوب’نام سے ایک فلم بنائی تھی اور لیلیٰ مجنوں فلم بھی بنانا چاہتے تھے۔ میں اس وقت FTIIسے نکل کر فلم کی دنیا میں کام ڈھونڈ رہا تھا۔اس فلم میں ہیروئن رنجیتا تھی جو میری کلاس میٹ تھیں ۔ میرے بارے میں انھوں نے سن رکھا تھا کہ مجھے اردو بھی آتی ہے۔ انھوں نے مجھے بلایااور کہا کہ ٹام ہم لیلیٰ مجنوں کو ایک نئے انداز میں کچھ اس طرح پیش کرنا چاہتے ہیں کہ کالج اسٹوڈنٹ کسی ریگستان میں بھٹک جاتے ہیں جہاں ایک گائیڈ ہوتا ہے جو انھیں یہ بتاتا ہے کہ یہ مجنوں کا مزار ہے اور پھر لیلیٰ مجنوں کی کہانی شروع کر دیتا ہے۔ یہ دونوں اسٹوڈنٹ فلیش بیک میں چلے جاتے ہیں اور لیلیٰ مجنوں اسکرین پر آجاتے ہیں۔ ہم نے دو تین دن جے پور کے ریگستان میں یہ فلم شوٹ کی جس میں مَیں گائیڈ بنا تھا اور خالص اردو میں گفتگو کر رہا تھا۔ میرا رول بہت مختصر تھا لیکن میرے رول کی بڑی تعریف ہوئی تھی ۔ میں بڑا خوش تھا۔ بہر حال فلم ریلیز ہوئی جس کے تعارف میں میرا نام تھالیکن مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ فلم بنتے بنتے لوگوں نے جب اس فلم کو دیکھا تو کہا کہ فلم کا موجودہ تصور Cinematic Senseکے خلاف ہے۔ لہذا ان لوگوں نے اس آئیڈیا کو بالکل ہی چھوڑ دیا اور کسی نے مجھے کچھ نہیں بتایا۔ فلم ریلیز ہوئی تو میں اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ سنیما ہال میں فلم دیکھنے کے لیے گیا۔ ابتدائی تعارف میں جب میرا نام آیا تو وہ لوگ جو میرے ساتھ گئے تھے خوش ہوئے لیکن جب فلم شروع ہوئی تو صحیح معنوں میں ہیرو اور ہیروئن لیلیٰ مجنوں بنے پھر رہے ہیں۔ میں اس فلم میں ہوں ہی نہیں۔ یہ تو بمبئی کی بات ہے ۔ اب مسوری کا حال سنیے۔ اس وقت تک میری دو تین فلمیں آ چکی تھیں۔ میں اپنے دوستوں سے ‘لیلیٰ مجنوں ‘ کی بہت تعریف کر چکا تھا،اس لیے ،آدھی مسوری فلم دیکھنے کے لیے مسوری سنیما ہال پہنچ گئی ۔وہاں بھی میں نے اپنے کچھ دوستوں کو فلم دیکھنے کے لیے پیسے دے رکھے تھے ۔ پورے مسوری کو فلم میں رشی کپور اور رنجیتا سے کوئی سروکار نہیں تھا ،انہیں ٹام الٹر سے دلچسپی تھی جو اس فلم میں کہیں تھا ہی نہیں۔ایک بندے نے پہلے روز یہ فلم تین بار دیکھی کہ کہیں توٹام آلٹر ہوگا ۔اگلے روز اس کا فون آیا تھا۔خوب گالیاں دے رہا تھا۔کہہ رہا تھا پندرہ روپے ضائع کیے۔پانچ پانچ روپے دے کر تین بار فلم دیکھی تم اس میں کہیں بھی نہیں ہو۔میں نے اس سے کہا سنو ایک گانا ہے کہ ‘کوئی پتھر سے نہ مارے میرے دیوانے کو’وہاں تین لاشیں پڑی ہوئی ہیں انہی لاشوں کی قطار میں جو تیسری لاش ہے وہ میری ہے !!!اب یہ نہ کہو کہ میں وہ نہیں ہوں۔
لیکن اس فلم کی کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی ۔میرے خیال میں اس فلم کے لیے مجھے اس وقت دس ہزار روپے ملنے والے تھے ۔جب اس فلم کی شوٹنگ شروع ہوئی تو اس کے پروڈیوسر شنکر بی سی تھے ۔انھوں نے مجھ کو یہ کہہ کر پانچ ہزار وپے دیے کہ جب فلم ریلیز ہوجائے گی تو بقیہ پانچ ہزار روپے لے لینا۔یہ 1974کی بات ہے اس وقت پانچ ہزار روپے اچھی رقم مانی جاتی تھی ۔فلم سپر ہٹ ہوئی تھی ۔کافی چلی تھی ۔میں بقیہ پانچ ہزار روپے کی رقم لینے کے لیے گیا تو شنکر بی سی صاحب نے کہا کہ تم کون ہوبھائی! میں نے کہا میں ٹام آلٹر ہوں ۔وہ کہنے لگے تم تو میری فلم میں ہو ہی نہیں ۔میں تمھیں پیسہ کیوں دوں ۔میں نے کہا سر!اس فلم میں میرا نام ہے ۔انھوں نے صاف کہہ دیا کہ میں تمھیں نہیں پہچانتا،جب کہ وہ مجھے خوب پہچانتے تھے ۔پھر میں رویل صاحب کے پاس گیا اور اپنا مسئلہ بیان کیا۔انھوں نے مجھ سے کہا کہ تم فکر نہ کرو۔میرے خیال میں انھوں نے مجھے یہ رقم اپنی جیب سے دے دی ۔شنکر بی سی شاید مارواڑی تھے ۔
اسی دوران ‘شطرنج کے کھلاڑی’ کی شوٹنگ چل رہی تھی ،جس کے پروڈیوسر کوئی سندھی تھے ۔فلم شطرنج کے شروع میں میرا ایک سین تھا۔شنکر رے صاحب سے طے ہوا کہ دو دن میں یہ سین شوٹ کرلیں گے۔مجھے اس زمانے میں ایک دن میں ایک ہزار روپے کے حساب سے معاوضہ ملتا تھا ۔دوسرے دن خوب اچھی طرح شوٹنگ ہوئی ۔لنچ کے وقت ڈائرکٹر صاحب نے کہا کہ کام پورا ہوگیا ۔سب نے کہا ابھی تو آدھا دن باقی ہے ۔ لیکن انھوں نے کہا کہ ہم نے ٹام اور رچرڈ کو دو دون کا وقت دیا تھا لیکن انھوں نے ڈیڑھ دن میں ہی سین کو اچھی طرح شوٹ کر کے پورا کردیا،اس لیے ،اب چلو تم لوگ آرام کرو۔پروڈیوسر کی سوچ کیا ہوتی ہے ،وہ دیکھیے۔جب پیسہ دینے کی نوبت آئی تو اس نے مجھے پانچ سو روپے کم دیے اور کہا جب تم نے لنچ تک آدھے دن کا کام کیا تو میں تمھیں پورے دن کا پیسہ کیوں دوں ۔اس نے کہا ٹام تم ایمان داری سے بتاؤکہ تم نے پورے دن کا کام کیا ۔میں نے کہا کہ نہیں آدھے دن کا کام کیا۔ اس نے کہا پھر میں تمھیں پورے دن کا پیسہ کیسے دے سکتا ہوں ؟ہم نے اچھی ایکٹنگ کی سین جلدی شوٹ ہو گیا لیکن پروڈیوسر تو پروڈیوسر ہوتا ہے۔
آخر میں ایک اور کہانی سن لیں ۔کافی دنوں پہلے ایک فلم ‘عاشقی ؛بنی تھی جو ہٹ ہی نہیں بلکہ سپر ہٹ ہوئی تھی ۔اس میں میرا اچھا خاصا رول تھا۔ اس فلم کے پروڈیوسر مکیش بھٹ تھے جو مہیش بھٹ کے بھائی ہیں ۔یہ مجھے فلم سائن کرنے دس ہزار روپے لے کر آئے تھے ۔ اس وقت کیش کا لین دین تھا۔انھوں نے مجھے دس ہزار روپے دیتے ہوئے یہ کہا کہ تم اس وقت یہ روپے رکھو اور کام شروع کرو ۔اگر فلم ہٹ ہوگئی تو تم دیکھنا کہ ہمارا دل کتنا بڑا ہے ۔میں نے کہا ٹھیک ہے ۔فلم ہٹ کیا سپر ہٹ ہوئی ۔وہ دن اور آج کا دن مجھے صرف وہی دس ہزار روپے ملے جو شروع میں مل گئے تھے ۔انھوں نے عاشقی پارٹ-2بنائی ۔یہ فلم بھی ہٹ ہوئی ۔بیس سال سے ہماری کوئی بات چیت نہیں ہوئی ۔ایک مرتبہ مکیش بھٹ ایئر پورٹ پر ملے میں نے ان سے کہا مکیش جی مبارک ہو آپ عاشقی پارٹ ٹو بنا رہے ہیں بہت اچھی بات ہے ۔وہ شخص مجھ سے یہ کہتا ہے کہ ‘عاشقی ‘ میں مجھے بہت زیادہ خسارہ اٹھانا پڑا تھا،اس لیے ،اب اس کی بھرپائی کے لیے عاشقی پارٹ ٹو بنا رہا ہوں ۔میں اس شخص کا منہ دیکھتا رہ گیا ،انھوں نے ‘عاشقی ‘فلم سے کروڑوں روپے کمایا ہے ۔جب وہ مجھ سے خسارے کی بات کر رہے تھے تو انھیں یقیناً یہ بات یاد تھی کہ انھوں نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔
میں نے تین پروڈیوسروں کی کہانی بیان کی ہے ۔فلم کی لائن میں پروڈیوسر اس طرح بھی کامیاب ہوتے ہیں ۔اپنی زبان سے صاف مکر جانا اور پیسہ نہیں دینا بمبئی میں عام ہے۔
مظفر علی صاحب کے ساتھ میں نے ایک ہی دفعہ کام کیا ہے ۔تقریباً پچیس برس پہلے انھوں نے واجد علی شاہ پر ایک ٹی وی سیریل بنایا تھاجس میں انھوں نے خود واجد علی شاہ کا رول ادا کیا تھا اور میں لکھنؤ کا ریذیڈنٹ تھا۔جہاں تک مجھے یاد ہے کہ کوئی بڑی رقم نہیں تھی لیکن مجھ سے جو طے ہوا تھا وہ مجھے ملا،اس لیے مظفر علی سے مجھے کوئی شکایت نہیں ہے۔
فلم کی دنیا میں سب لوگ ایک طرح کے نہیں ہوتے ۔میں منوج کمار کو اپنا بڑا بھائی اور استادمانتا ہوں ۔کرانتی فلم سپر ڈوپر ہٹ ہوئی تھی ۔شوٹنگ چل رہی تھی اور اسی درمیان مجھے شادی کرنی تھی ۔منوج صاحب میری ہونے والی بیوی کو جانتے بھی تھے۔انھوں نے کہا کہ ٹام ! شادی کر نے کے واسطے تمھارے پاس پیسے ہیں ؟میں نے کہا کہ منوج صاحب ہیں تو سہی لیکن کچھ کم ہیں ۔انھوں نے پوچھا کتنے ہیں ؟میں نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ہم لوگ ان کے گھر پر بیٹھے ہوئے تھے انھوں نے وہیں سے اپنے دفتر میں فون ملایا اور مہتہ صاحب سے فون پر کہا کہ ٹام صاحب آپ کے پاس آنے والے ہیں ۔ان کو شادی کرنی ہے۔آپ انھیں اتنے کا چیک فوراً دے دیجیے ۔اچھی خاصی رقم تھی ۔یہ 1978کی بات ہے ۔میں نے وہ چیک لیا۔اسی رقم سے شادی بہت اچھے طریقے ہوئی ۔شادی ہی نہیں اس پیسے سے ہنی مون بھی منایا گیا اور بھی بہت کچھ ہوا۔اب الگ بات ہے کہ شادی کے بعد’کرانتی’میں ملنے والے معاوضے کے باب میں مجھے کچھ اور نہیں ملالیکن جب ضرورت تھی تو بغیر مانگے انھوں نے اپنی طرف سے اچھی خاصی رقم دے دی ۔ایسے لوگ بھی ہیں۔
رامانند ساگر کی پانچ فلموں کے علاو ہ ان کے تین یا چار ٹی وی سیریلز میں بھی میں نے کام کیا۔شروع میں جب میں نے چرس میں کام کیا تھا جو لگ بھگ میری پہلی فلم تھی ۔میں نے کبھی پیسوں کی بات نہیں کی تھی ۔اس کے بعد بھی میں نے کبھی ان سے یا ان کے کسی بیٹے سے پیسے کی بات نہیں کی ۔لیکن میں جانتا ہوں اگر آج بھی مجھے پیسوں کی ضرورت ہوگی ،ضرور دے دیں گے۔اس زمانے میں کنٹریکٹ وغیرہ نہیں ہوتا تھا۔اگر میں اس وقت اڑ جاتا کہ نہیں مجھے ایک لاکھ چاہیے تو قطعی ممکن تھا کہ ایک ہی فلم کے بعد وہ مجھے خدا حافظ کہہ دیتے ۔ہماری فلمی دنیا میں رشتے عجیب طرح کے ہوتے تھے ۔زبان کے اوپر کام چلتا تھا۔اب اگر زبان دینے کے بعد کوئی مکر گیا تو کوئی اس سے ملتا نہیں تھا۔
رامانند ساگر صاحب کے ایک بیٹے ہیں شانتی ساگر صاحب ۔بہت ہی نیک اور کمال کے آدمی ہیں۔ایک دن میں ان کے دفتر میں بیٹھا ہوا تھا ۔وہ ایک فلم بنارہے تھے جس میں شتروگھن سنہا اور ونود کھنہ ہیرو تھے ۔شانتی ساگر کے ساتھ ہنسی مذاق کا رشتہ تھا۔انھوں نے کہا ٹام کھانے میں کیا لوگے جو عام طور پر پوچھا جاتا ہے اورعام طور پرآدمی جواب میں چائے یا کافی کہتا ہے۔میرے منہ سے یوں ہی مذاق میں نکل گیا تندوری چکن ،ملائی کوفتہ ،تین بٹر نان اور دال مکھنی وغیرہ وغیرہ ۔اس نے اپنے آدمی کو فوراً بلایا اور نٹراج اسٹوڈیو کے سامنے ہی جو ہوٹل تھا وہاں سے یہ ساری چیزیں منگوائیں اور شتروگھن سنہا ،ونود کھنہ اور ٹام آلٹر اطمینان سے بیٹھ کر تندوری چکن وغیرہ کے ساتھ سیر ہو کر کھانا کھایا۔
راجندر سنگھ بیدی ہندوستان کے اردو کے بڑے رائٹر ہیں ۔وہ ایک فلم بنارہے تھے جو کبھی ریلیز نہیں ہوئی ۔اس فلم کا نام تھا’آنکھوں دیکھی ‘،جس میں میرا اچھا خاصا رول تھا ۔اس میں میرا کردار یہ تھا کہ ایک انگریز افسر ہے جو اپنے دوسرے انگریز ساتھیوں سے بغاوت کر کے کہتا ہے کہ اب میں ہندوستانیوں پر ظلم زیادتی سے پیش نہیں آؤں گا ۔سامنے جو سینئر افسر بنے تھے وہ ایک پارسی تھے سپاری والا صاحب جو ہمیشہ انگریز کے رول کیا کرتے تھے۔اس وقت وہ کافی ضعیف ہوچکے تھے۔ہم وہ سین شوٹ کر رہے تھے جس میں سپاری والا صاحب کو کچھ کرنا نہیں تھا۔میرےڈائیلاگ لمبے تھے ان کو صرف ہوں اور ہاں بولنا تھا لیکن ان سے وہ ہو نہیں پا رہا تھا۔دن بھر ہم اسی میں لگے رہے ۔ہوسکتا ہے یا تو وہ ڈائیلاگ بھول گئے تھے یاٹائم سے وہ انھیں ادا نہیں کر پارہے تھے جس کی وجہ سے سب کو کافی تکلیف ہورہی تھی ۔ہم نے پندرہ بیس بار اس سین کو کرنے کی کوشش کی مگر وہ نہیں ہوا۔آخر میں بیدی صاحب پستہ قد ہونے کی وجہ سے میز کے نیچے بیٹھ گئے اور سپاری والا صاحب سے کہا کہ میں نیچے سے یوں اشارہ کروں گا اور آپ صرف ہاں کہیے۔بیدی صاحب نے جیسے ہی نیچے سےوہ اشارہ کیا تو سپاری والا صاحب نے نیچے مڑکر ان کی طرف دیکھ کر پوچھ لیا ؛ کیاکہنا ہے؟ اس دن شام ہوگئی تھی اور بیدی صاحب نے کہا ہم اس سین کو اب کل شوٹ کریں گے ۔میں صبح سات بجے بیدی صاحب کے دفتر آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ زار و قطار رو رہے ہیں ۔میں نے ان سے پوچھا بیدی صاحب کیا ہوا تو انھوں نے کہا میں تمھیں کیسے بتاؤں کہ پندرہ منٹ پہلے سپاری والا صاحب کی بیوی آئی تھیں بتا رہی تھیں کہ سپاری والا صاحب کا انتقال ہوگیا ہے اور گھر میں ان کی آخری رسوم کی ادائیگی کے لیے ایک پیسہ بھی نہیں ہے ۔چوں کہ ان کا سین نہیں ہوا تھا اس لیے ان کو کل کا پیسہ نہیں دیا تھا اور ان کی بیوہ وہ کل کا پیسہ مانگنے آئی تھیں ۔میں نے ان کی بیوہ کو کل کا پیسہ دے دیا ہے۔بیدی صاحب جس طرح کے آدمی تھے انھوں نے یقیناً اس رقم سے بہت زیادہ دیا ہوگاجو واجب تھا۔فلموں میں ہم زندگی کے جتنے رنگ دیکھتے ہیں وہ سب فلم والوں کی زندگی میں بھی ظہور پذیر ہوتے ہیں۔سپاری والا صاحب تو اندر سے بالکل ٹوٹ چکے تھے لیکن گھر میں پیسہ نہ تھا ،اس لیے کام کرنے آگئے تھے۔
(بہ شکریہ سہ ماہی’اردوادب’،انجمن ترقی اردو(ہند)نئی دلّی)
Categories: ادبستان