سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ جموں وکشمیر کے مسئلے پر ہماری اپنی غلطیوں کی وجہ سے پاکستان تیسرا فریق بن چکا ہے۔
حیدرآباد: بی جے پی رہنما یشونت سنہا نے پیر کوصلاح دیا ہے کہ جموں و کشمیرمیں فوج کوبیرکوں میں واپس چلے جانا چاہیےاوردہشت گرد مخالف مہم کی ذمہ داری سی آر پی ایف اور ریاستی پولیس کو سونپ دی جانی چاہیے۔ سنہا کےمطابق یہ وہاں کے لوگوں کے ذہن پر مرہم کی طرح کام کرےگا۔
سابق وزیرخارجہ نے کہا کہ جموں وکشمیر کے مسئلے پر ہماری اپنی غلطیوں کی وجہ سے پاکستان تیسرا فریق بن چکا ہے۔ یہاں’ کشمیر اب اور آگے کا راستہ ‘کے موضوع پر ایک مذاکرہ میں سنہا نے جموں وکشمیر میں ہمارے اپنے لوگوں سے فوراً بات چیت پر زور دیا اور کہا کہ وہاں پہلے ہی کافی تشدد ہو چکا ہے اور محافظ دستوںسمیت کافی جانیں جا چکی ہیں۔ اب اس کو ختم کرنے کا وقت آ گیا ہے۔
سنہا نے کہا کہ یہ اب فوج کی بنیادی ذمہ داری بن گئی ہے کہ وہ جموں و کشمیرکی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے آگے رہے۔ سنہا نے کہا،گاؤں اور قصبوں میں جہاں دہشت گردی کا ماحول ہے، تو سب سے آگے ہندوستانی فوج ہے،اس کے بعد سی آر پی ایف اور جمّوں و کشمیر پولیس ہے۔
سابق وزیر نے کہا کہ وہ قانونی صورت حال کو سنبھالنے میں مسلح افواج کے اس قدر تعیناتی کے خلاف ہیں۔ انہوں نے کہا،اب فوج واپس بیرکوں میں جائے،دہشت گردی کے خلاف مہم کو سی آر پی ایف اور جمّو ں کشمیر پولیس پر چھوڑ دے۔ انہوں نے کہا،یہ لوگوں کے دل پر مرہم کی طرح کام کرےگا۔
انہوں نے دلیل دی کہ سی آر پی ایف دہشت گردی کو سنبھالنے کے لئے پوری طرح آراستہ اور تربیت یافتہ ہے،جیسے وہ ملک میں بایاں محاذ کی انتہا پسندی سے مقامی پولس کے ساتھ ملکر نپٹ رہی ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ کشمیر ایک سیاسی مسئلہ تھا اور لوگ چاہتے ہیں کہ بات چیت کا عمل شروع ہو، جیسا کہ ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔ جموں و کشمیرمیں بڑی تعداد میں لوگوں نے یوم آزادی کے موقع پر وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعے دیے گئے پیغام کا استقبال کیا تھا،جس میں انہوں نے زور دیا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ نہ گالی سے حل ہوگا، نہ گولی سے، بلکہ کشمیری کو گلے لگانے سے ہوگا۔
بی جے پی رہنما نے کہا،وہ ایک سیاسی پروسس کی شروعات کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ لیکن،پہلا کام اندرونی حصےداروں کی پہچان کرنا ہے۔ پہلے اپنا من بنائیے کہ کون حصےدار ہیں۔ ان کی پہچان ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا،فطری طور پر حصےدار جموں و کشمیرکی سیاسی جماعت، شہری سماجی گروپ،روشن خیال لوگ،تجارتی تنظیم، نوجوان اورمختلف شعبہ جات ہوںگے۔ انہوں نے کہا،اس کے بعد ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ مذاکرہ کرنے والےکون ہوںگے۔
انہوں نے کہا کہ جس دن مرکز مذاکرات کے عمل کو شروع کرنے کی خواہش ظاہر کرے گا اور اعلان کرےگاکہ فلاں مذاکرہ کریںگے،ریاست کی صورت حال میں ڈرامائی طورپر بہتری دیکھنے کو ملےگی۔
انہوں نے کہا،ہمارے اپنے لوگوں سے مذاکرات پر عمل شروع کرتے ہیں۔ جموں و کشمیرریاست میں ہمارے اپنے شہری سےیہ مذاکرات کے عمل شروع کرنے کا وقت ہے،کوئی بھی انسان تشدد نہیں چاہتا۔ لوگ امن چاہتے ہیں۔
گزشتہ اپریل میں بھی یشونت سنہا نے کشمیر میں جاری بدامنی کے لئے بی جے پی اور پی ڈی پی اتحادکو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ سنہا نے جمّو ں وکشمیر کی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی اور وزیر اعظم نریندر مودی کی ملاقات کے بعد کہا تھا کہ جس طرح سے مذاکرہ چل رہا ہے،مایوس کن ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ اتحادی حکومت کے کم از کم مشترکہ پروگرام کے تحت جو ایجنڈہ ہے اس کو نافذ نہیں کیا جا رہا ہے۔
اس وقت سنہا نے کہا تھا کہ ‘جموں و کشمیرمیں حکومت بنے دو سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن ہم ایجنڈہ کے تحت آگے نہیں بڑھ رہے ہیں۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: حقوق انسانی, خبریں