پولیس رکارڈ کے مطابق 1983 سے لےکر ستمبر 2009 کے درمیان 91 ہلاکتیں سیاسی معاملات سے جڑی ہوئی تھیں۔ ان میں 31 معاملے آر ایس ایس ،بی جے پی ممبروں کے قتل کے تھے، جن میں ماکپا کے ممبروں کو ملزم بنایا گیا تھا۔ 33 معاملے ماکپا ممبروں کے قتل کے تھے،ان میں آر ایس ایس ،بی جے پی کارکنوں کو ملزم بنایا گیا تھا۔ 14 دیگر معاملے کانگریس آئی کے ممبروں کے قتل کئے تھے، جن میں ملزم کے طور پر ماکپا کارکنوں کے نام درج تھے۔
پچھلے کچھ دنوں سے سنگھ پریوار شمالی کیرل کے کنّور ضلعے کو قومی بحث کے مرکز میں لانے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔دلّی یونیورسٹی کیمپس میں سنگھ پریوار کی طلبہ تنظیم اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد نے کنّور میں مارے گئے آر ایس ایس بی جے پی کارکنوں کی بےچین کر دینے والی تصویریں ہورڈنگس کے طور پر لگائیں۔ خبروں میں چھانے والی تقریر میں ایک سنگھ مبلغ کو ملک کے اس جنوبی ریاست میں قدامت پسند ہندو نظریاتی کارکنوں کی ہلاکتوں کا بدلہ لینے والے کو انعام کے طور پر بڑی رقم دینے کی بات کرتے سنا گیا۔
ایسی نمائشوں اور تقریروں کے ذریعے سنگھ پریوار کے ممبروں نے خود کو ہندوؤں کی زندگی کو تباہ کر دینے والے سفاکانہ،ظالم اور ‘غدار’انتہا پسندوں کے بے قصور اور لاچار شکار کے طور پر دکھانے کی کوشش کی ہے۔ ان تبصروں میں اس بات کا ذکر کہیں نہیں ہے کہ دراصل، ماکپا اور بی جے پی آر ایس ایس کے درمیان لمبے عرصے سے چل رہے جدو جہد میں دونوں طرف کے نوجوان ایک دوسرے کے خلاف کئے گئے اور سہے گئے تشدد کا شکار ہوئے ہیں۔ جانیں دونوں طرف سے گئی ہیں۔ کوئی بھی پارٹی الزام سے آزاد نہیں ہے۔
یہ ٹکراؤ ہماری توجہ چاہتا ہے، صرف اس لئے نہیں کہ یہ کافی عرصے سے چلا آ رہا ہے۔ نہ ہی صرف اس لئے کہ اس میں دونوں طرف کے لوگ شامل ہیں۔ ہمیں اس جانب خاص طور پر اس لئے توجہ دینا چاہئے کیونکہ یہ ہماری سیاست کے بےحد سیاہ چہرے کو سامنے لاتا ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ حریفانہ جمہوری سیاست کس طرح سے تکثیریت کی طرف مڑ سکتی ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ اس طرح کی تشدد آمیز دشمنی کس طرح سے حاشیے سے آنے والے نوجوانوں کی زندگی کو اپنی گرفت میں لے سکتی ہے۔
کنّور میں گئی جانوں کی تعداد کو لےکر میڈیا میں الگ الگ تخمینہ ہے۔ پولیس رکارڈ کے مطابق 1983 سے لےکر ستمبر 2009 کے درمیان 91 ہلاکتیں سیاسی معاملات سے جڑی ہوئی تھیں۔ ان میں 31 معاملے آر ایس ایس ،بی جے پی ممبروں کے قتل کے تھے، جن میں ماکپا کے ممبروں کو ملزم بنایا گیا تھا۔ 33 معاملے ماکپا ممبروں کے قتل کے تھے،ان میں آر ایس ایس ،بی جے پی کارکنوں کو ملزم بنایا گیا تھا۔ 14 دیگر معاملے کانگریس آئی کے ممبروں کے قتل کئے تھے، جن میں ملزم کے طور پر ماکپا کارکنوں کے نام درج تھے۔ آپسی قتل کے ایسے معاملے بی جے پی اور کانگریس آئی کارکنوں کے درمیان بھی درج تھے۔اس طرح کے آپسی قتل کے معاملے انڈین یونین مسلم لیگ اور ماکپا کارکن اور ماکپا اور نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ کے کارکنوں کے درمیان بھی تھے۔
یہ واردات ایک خاص پیٹرن کا اعادہ ہیں، جو خاص طور پر 81-1978کے درمیان نمایاں طور پر دیکھے گئے تھے۔ عدالتی رکارڈوں اور میڈیا رپورٹوں کے مطابق اس دور میں ماکپا اور آر ایس ایس کے 30 سے 40 کارکن خونی جدو جہد میں مارے گئے۔ ان نمبرات سے مختلف پارٹیوں میں ہوئے قتل کی بےرحمی کا پتہ نہیں چلتا۔ اس علاقے میں کئے گئے میرے فیلڈ ورق اور دوسرے اسکالرز کے ذریعے اکٹّھا کئے گئے اعداد و شمار سے درج ذیل باتیں سامنے آتی ہیں :
شمالی کیرل میں زیادہ تر سیاسی جماعتوں کے ممبر ایک دوسرے کے خلاف کئے گئے تشدد کے شکار بھی تھے اور تشدد کرنے والے بھی۔ اس سیاسی تشدد کے شکار ہونے والے اور تشدد کرنے والوں میں 80 فیصدی لوگ ہندو تھے۔
ان میں سے تقریباً 70 فیصدی بےروزگار یا انڈر امپلائیڈ ،تھیّا برادری کے نوجوان تھے، جن کی خاندان کے پاس زمین برائے نام تھی۔ (موجودہ وقت میں کیرل میں تھیّاؤں کو اوبی سی کے اندر رکھا گیا ہے۔ کوزی کوڈ میں کام کرنے والے پولیٹکل سائنٹسٹ ٹی ششی دھرن کی حال میں آئی کتاب ‘دی لیفٹ اینڈ پالٹکس آف کنّور’ان لوگوں کے لئے کام کی ہے، جن کی دلچسپی ان سماجی اعدادو شمار میں ہے۔
کنّور سے اٹھنے والا سوال یہ نہیں ہے کہ کون سی پارٹی متاثر اور کون حملہ آور۔ دراصل یہ ہمیں ایک دوسرا سوال پوچھنے کے لئے مجبور کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر یہ کیوں کر ہوا گزشتہ 30 سالوں سے زیادہ وقت سے اس تشدد کے شکار اور اس کےاوزار کے طور پر سامنے آنے والے ‘نچلی’ ذات اور کم آمدنی والے طبقے کے نوجوان ہیں؟ منظوری، برابری اور دنیا میں اپنے لئے جگہ بنانے کی ان کی خواہش آخر کیسے اس علاقے میں تسلط قائم کرنے کی مختلف سیاسی جماعتوں کی مہم سے جڑ گئی؟
آر ایس ایس اورجن سنگھ نے اس علاقے میں اپنا قدم جمانے کی سنگین کوشش 1977 کے بعد کی۔ یہ وقت ایمرجنسی کے ٹھیک بعد کا ہے۔ فی الحال ہم سب کی نگاہیں اتّر پردیش، پنجاب، گووا اور منی پور کے انتخابی پلڑے پر ٹکی ہے۔ لیکن، مقامی سیاست صرف نمبرات کا کھیل نہیں ہے۔ نہ ہی یہ صرف اس سوال تک محدود ہے کہ کس کو سب سے زیادہ ووٹ ملتے ہیں۔اس کا واسطہ نظریات سے بھی ہوتا ہے۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ متعلق علاقہ میں کون زیادہ طاقت ور سمجھا جاتا ہے؟ کون زیادہ نظر آتا ہے؟ لوگوں کی زندگی میں کس کا زیادہ دخل ہے؟ پڑوس کے جشن اورتہواروں میں کس کے نام کی زیادہ نمائش ہوتی ہے؟ ضرورت کے وقت میں لوگ کس کی طرف دیکھنےپر مجبور ہوتے ہیں؟ اور یہ کہ اقتدار کے الگ الگ پایئدانوں سے رابطہ کرنے کے لئے لوگ کس کی مدد لیتے ہیں؟ مقامیت کی اس ریاست میں معاہدہ بنائے جاتے ہیں، دوستیاں کی جاتی ہیں، وفاداری قائم کی جاتی ہے، مسابقت گڑھی جاتی ہے اور مختلف سیاسی جماعتوں کے نوجوان کارکن عوام کو اپنی طرف موڑنے کا کام انجام دیتے ہیں۔
محروم طبقات سے آنے والے کئی نوجوانوں کے لئے پارٹی یا سنگھ کی حمایت میں اس طرح کی صف بندی خود ان کی پہچان کو قائم کرنے اور ترقی کا ذریعہ بن گئی ہے۔ وہاں ان کے پاس کمیونٹی ہے، ساتھ ہی باقی کی دنیا کو سمجھنے اور اس سے خود کو جوڑنے کا طریقہ بھی ان کو مل گیا ہے۔ بدلے میں یہ جوان اپنے اپنی جماعتوں کا تسلط قائم کرنے اور حریف پارٹی پر حملہ کرنے، اس کے اثر کو روکنے کے لئے اپنی مردانہ طاقت کو تعینات کرتے ہیں۔ طاقت کا یہ استعمال داداگیری کرنا، دھمکانا اور کچھ معاملات میں مخالف جماعتوں کے ممبروں کا ظالمانہ قتل کرنے میں ہوتا ہے۔ عام بات چیت میں ہم ایسے لوگوں کو کسی پارٹی کا ‘پیدل سینک ‘، ٹھگ یا چھٹ بھئّے کہہکر پکارتے ہیں، جو ان کے ‘ناپاک کاموں ‘ کو انجام دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے تشدد نے کنّور میں ایک غیر معمولی شکل اختیار کر لی ہے، لیکن ملک میں یہ اکیلا معاملہ نہیں ہے اور صرف شمالی کیرل کی ہی خاصیت نہیں ہے۔ اس نسل کے سیاسی پیادے ملک کی مختلف ریاستوں میں مضبوطی سے ابھرے، شیو سینا سے لےکر ترنمول کانگریس، سماجوادی پارٹی، بی جے پی، ماکپا، کانگریس اور پرجا سوشلسٹ پارٹی جیسے ماضی کی سیاسی جماعتوں میں بھی دکھائی دیتے ہیں۔ اور وقت کے کسی نہ کسی حصہ میں تمام پارٹیوں نے انتخابی اقتدار، حاضری اور الگ الگ علاقوں، شہروں اور گاؤں میں غلبہ حاصل کرنے کے لئے ایسے نوجوان کارکنوں اور ان کی مردانہ طاقت کو متحد کیا ہے۔
جب ہم خود سے یہ سوال پوچھتے ہیں کہ آخرکار کیسے ہمارے سیاسی نظام نے اس تشدد کو فروغ اور پناہ دی ہے، تب سیاست کی کچھ بنیادی خصوصیات پر بات کرنا مناسب جان پڑتا ہے۔ ہمارے سیاسی نظام کی ترقی کچھ اس طرح سے ہوئی ہے کہ اس میں ایسے گروہ کا غلبہ ہے، جو انتخابی رائےعامہ جٹا سکتا ہے۔ جدید جمہوریت نے اپنی ترقی ایسی حکومت کے طور پر کی ہے، جو فاتحین اور شکست خوردہ کی تعمیر کرتا ہے۔ جیتنے کی تمنا اور ہرانے کی بےقراری ملک کے مختلف حصوں میں زمینی سیاست میں لگی سیاسی جماعتوں، ان کے رہنماؤں اور کارکنوں کے ڈی این اے میں شامل ہو گئی ہے۔ اس نے جوڑ توڑ، مشین کاری اور یہاں تک کہ باقاعدہ لڑائیوں، مارپیٹ اور جدو جہد کو فروغ دیا ہے۔ دلچسپ یہ ہے کہ اس کو سیاست کا فطری حصہ مان لیا گیا ہے۔ اگر ہم مہاتما گاندھی کے سیاسی خیالات پر مؤرخ اجئے سکاریا کے ذریعے کئے گئے کاموں کے حوالے سے بات کریں، تو ہم اپنی سیاسی زندگی کی اس پیمائش کا بیان ‘اکثریت بننے اور اقلیتی بنانے ‘(یا کہیں، بڑا بننے، چھوٹا بنانے) کی بےقراری کہہ سکتے ہیں۔ جمہوری سیاست میں فاتحین اور شکست خوردہ کا فیصلہ انتخابوں کے ذریعے کرنے کا انتظام کیا گیا ہے۔ لیکن جب آگے نکلنے کی ہوڑ تیز ہو جاتی ہے، تب کچھ گروہ ہر ممکن علاقے میں اپنا غلبہ قائم کرنے کے لئے اتاولے ہو جاتے ہیں۔ وہ لوگوں کے جسم، دماغ اور خیالات پر بھی حکومت کرنے کی حسرت پال لیتے ہیں۔ اس پوائنٹ پر آکر، جیسا کہ گاندھی نے کہا تھا، ‘ جسمانی طاقت ‘ کا استعمال ہر جگہ موجود ہو جاتا ہے۔
بڑا بننے اور چھوٹا بنانے کی اس بے صبری نے بہتوں کو سفاک بنادیا ہے۔ کنّور میں یہ ایک مسلسل لڑائی بن گئی ہے۔ اس نے متاثرین اور حملہ آوروں کی بڑی تعداد تیار کی ہے۔ جو متاثر ہے، وہ بھی حملہ آور ہے۔ جو حملہ آور ہے، وہ بھی متاثر ہے۔ اس کے ساتھ ہی، حقیقت یہ بھی ہے کہ جن لوگوں نے اس کا خمیازہ اٹھایا ہے، وہ خاص طور پر حاشیے کے لوگ ہیں۔
دہلی یونیورسٹی میں اور ملک کے دوسرے کئی حصوں میں اے بی وی پی جیسے گروپوں کے ممبر اس مدعے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سلجھا لینا چاہتے ہیں کہ غلبہ کس کا ہے، کس کے پاس زیادہ تعداد ہے، کس کے پاس تہذیبی اور نظریاتی رائےعامہ ہے۔ آر ایس ایس کے ممبر بھی کیرل میں اس سوال کا آخری جواب چاہتے ہیں۔ اجّین کے آر ایس ایس کے ممبر کے الفاظ کافی کچھ کہتے ہیں۔ انہوں نے صرف کیرل کے وزیراعلی کا سر لانے والے کو انعام دینے کی بات نہیں کی، بلکہ انہوں نے وعدہ کیا کہ کیرل میں بھی اسی طرح کی متشدد کاروائی کی جائےگی، جیسا تشدد 2002 میں مسلم اقلیتی آبادی کے خلاف کیا گیا تھا۔
اقلیتوں کو حاشیے پر دھکیلنے والی سیاست کے خلاف اس لڑائی کاراستہ لمبا ہے ۔اس کے لیے سب سے پہلے کنور اور دوسری جگہوں پر تشددسے بچنا ہوگا۔ ساتھ ہی ہمیں لڑکے اور لڑکیوں کو دنیا کو سمجھنے اور اس میں شامل ہونے کے لئے کئی راستے اور طریقے بھی فراہم کرنے ہوںگے۔ یہ راستے ایسے ہوںگے، جو قبول کرنے اور برابری کی ان کی کھوج کو غلبہ کی لڑائی میں نہ تبدیل کرتے ہوں۔ یہ راستے ایسے ہوںگے، جو اپوزیشن کو دشمن قرار نہیں دیتے ہوںگے۔ نہ ہی یہ ایسے راستے میں بدلتے ہوں، جن میں شماریاتی طور پر بڑے ہونے کی خواہش اس طرح سے مضبوط ہو کہ یہ ہرجگہ، ہر چیز اور ہر کسی کو منضبط کرنے کی خواہش میں بدل جائے۔
(روچی چترویدی کیپ ٹاؤن یونیورسٹی میں لیکچرار ہیں۔انکا یہ مضمون اس سال مارچ میں دی وائر انگریزی پر شائع ہوا تھا – )
Categories: فکر و نظر