‘دی گاڈفادر ‘کے لئے بہترین اداکار کا خطاب جیتنے والے مارلون برانڈو نے یہ کہتے ہوئے آسکر ٹھکرا دیا تھا کہ امریکہ میں آدیواسیوں کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے، وہ غیر انسانی ہے۔
سدا سچ بولو۔ بچپن میں یہ جملہ ہمیں تھمایا گیاتھا۔ لیکن یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ سچ بولنے کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ سچ بولنے کے عوض سقراط کو زہر کا پیالہ پینا پڑا تھا۔ گیلیلیو(Galileo) نے عین وقت پر یہ جھوٹ نہیں بولا ہوتا کہ زمین ساکن ہے، تو ان کو پھانسی دے دی گئی ہوتی۔ ہمارے وقت میں سچ لکھنےبولنے کے لئے کلبرگی، پنسارے اور گوری لنکیش کو گولی مار دی جاتی ہے۔اس کے باوجود سچ بولنے والے ڈرتے نہیں۔ اور تنکر کھڑے ہو جاتے ہیں،جیسے جنوبی ہندکی فلموں کے سپر اسٹاراور بالی ووڈ میں اپنی دھاردا موجودگی درج کرانے والے ایکٹر پرکاش راج کھڑے ہیں۔ انہوں نے گوری لنکیش کے قتل پر وزیر اعظم نریندر مودی کی خاموشی پر سوال کیا۔ سوال اس لئے بھی کیا کہ جس آدمی نے گوری لنکیش کے قتل کو جائز ٹھہراتے ہوئے قابل اعتراض تبصرہ کیا، پرکاش راج نے دیکھا کہ وزیر اعظم اس کو ٹوئٹر پر فالو کر رہے ہیں۔ اس سوال کی وجہ سے اب پرکاش راج ٹرولرز کے نشانے پر ہیں ۔سوشل میڈیا پر ان کو بھدی بھدی گالیاں دی جا رہی ہیں۔
اس حملے سے کوئی بھی ایکٹر گھبرا جائےگا، لیکن پرکاش راج مضبوطی سے کھڑے ہیں۔
میں نے جو کہا ہے میں اس کی ذمہ داری لیتا ہوں۔ یہی پرکاش راج کی پہچان ہے۔ جو لوگ مجھے ٹرول کر رہے ہیں، وہ اتنے مضبوط نہیں ہیں کہ میرا سامنا کر سکیں۔ چاہے جو بھی ہو، جب اور جہاں ضرورت ہوگی، میں سچ بولوںگا۔ میں نے جو کہا، اب بھی اس پر قائم ہوں۔ اس سے پیچھے ہٹنے کا کوئی سوال ہی نہیں کھڑا ہوتا۔(روزنامہ دی ہندو میں شائع پرکاش راج کے انٹرویو کا ایک حصہ )
عام طور پر اتنا صاف سیاسی اسٹینڈ لینے کی روایت بالی ووڈ میں نہیں ہے۔ جب میں صحافی تھا اور فلمی شخصیتوں سے ایک صحافی کے ناطے ملتاجلتا تھا، تو ذاتی بات چیت میں سیاسی بحث(ڈسکورس) بھی شامل ہوتی تھی۔ کئی بار مجھے لگتا تھا کہ یہ ایک اہم بیان ہے اور اسے لوگوں تک پہنچنا چاہیے۔ لیکن مجھے منع کر دیا جاتا تھا۔دلیل یہ ہوتی تھی کہ ہر سیاسی پارٹی میں ان کے چاہنے والے ہیں۔
جراٴت مندانہ سیاسی بیانات کے سبب ان کی فین فالوئنگ متاثر ہوگی۔ یہ ڈر میں نے تقریباً تمام سیلیبرٹیز میں دیکھی ہے۔اپنی خاموشی کےعوض ملنے والے منافع سے مستفید ہوتے ہوئے بھی ان کو دیکھا ہے۔
یہی وقت ہے، جب کئی سارے فلمکار اور اداکار موجودہ حکومت کے تقریباً ترجمان بنکر سامنے آ گئے ہیں۔ ان میں انوپم کھیر، اشوک پنڈت اور مدھر بھنڈارکر جیسے لوگ ہیں۔اشوک پنڈت تو ٹوئٹر پر مودی مخالفین کو ایک غنڈے کی طرح ٹرول کرتے ہیں۔ لیکن بالی ووڈ کے سماج میں سب ایک ساتھ ہنستے بولتے سفر کرتے ہیں۔کوئی کسی کی سیاسی جانبداری کے سبب اس کو خارج نہیں کرتا۔اس کے باوجود کچھ لوگوں کا خوف ان کےامیج مینجمنٹ کا حصہ ہے۔ اس ڈر کی بنیاد بڑی صاف نظر آتی ہے۔ شاہ رخ خان نے جب ملک میں بڑھتی عدم رواداری پر بیان دیا، تو مودی کے بھکتوں نے ان کے خلاف ملک گیر مظاہرہ کیا۔ عامر خان نے جب کہا کہ اس ملک میں ان کو ڈر لگنے لگا ہے، تو ان کو بھی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ دونوں کو اپنے بیانات کی وضاحت کرنی پڑی اور کہنا پڑا کہ ان کی باتوں کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں : مودی مجھ سے بھی بڑےایکٹر،میں اپنے نیشنل ایوارڈ ان کو دینا چاہتا ہوں: پرکاش راج
ایسے میں پرکاش راج جیسے لوگوں کا سچ بولنا اور اپنے بولے ہوئے کو لےکر کھڑے رہنا ایک نظیر ہے۔ ایسی ہی نظیر کمل ہاسن نے بھی وقتاً فوقتاً پیش کی ہے۔ سماج میں اثرو رسوخ رکھنے والے لوگوں کو سچ بولنا چاہیے۔جس طرح ان کے فیشن کا اثر سماج پر ہوتا ہے، ان کی راست بیانی بھی اتنا ہی اثر رکھتی ہے۔دنکر کے لفظوں میں؛سمر شیش ہے نہیں پاپ کا بھاگی کیول ویاگھر ؛ جو تٹھستھ ہیں سمئے لکھےگا ان کے بھی اپرادھ!
غیرجانب داری کی چالاکی برتنے والے وقت کے ساتھ گمنام ہو جائیںگے،لیکن سماج کی خامیوں کو نشان زدکرنے والےتاریخ کے ہیرو کہلائیں گے۔ ‘دی گاڈفادر ‘(1972)کے لئے بہترین اداکار کا خطاب جیتنے والے مارلون برانڈو نے یہ کہتے ہوئے آسکر ٹھکرا دیا تھا کہ امریکہ میں آدیواسیوں کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے، وہ غیر انسانی ہے۔ یہ ایک تاریخی احتجاج تھا ، وقت وقت پر ہالی ووڈ کے سیلیبرٹیز نے اس طرح کے احتجاج درج کرائے ہیں ،لیکن ہندوستان میں اتنی جرٲت دکھانے والے اداکار اورفلم کار کم ہیں۔
پرکاش راج ایسے اندھیرے وقت میں امید کی ایک جگمگاتی لو ہیں۔
(مضمون نگارمشہور فلم ‘انارکلی آف آرا’کے ڈائرکٹر ہیں۔)