امیت شاہ کے بیٹے کی کمپنی ٹیمپل انٹرپرائز کے ریونیو میں یہ حیران کن اضافہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب کمپنی کو راجیہ سبھا ممبر اور ریلائنس انڈسٹریز کے اعلیٰ ایگزیکٹیو پریمل ناتھوانی کے سمدھی راجیش کھنڈیل وال کی ملکیت والی ایک مالیاتی خدمات کمپنی (فائنانشیل سروسیز کمپنی) سے 15.78 کروڑ روپے کاUnsecured Loan ملا تھا۔
نئی دہلی : بی جے پی صدر امت شاہ کے بیٹے جئے امت بھائی شاہ کی ملکیت والی کمپنی کا سالانہ ٹرن اُوور نریندر مودی کے وزیر اعظم اور والد امت شاہ کے پارٹی صدر بننے کے بعد16000 گنا بڑھ گیا۔ یہ بات رجسٹرار آف کمپنیز (آر او سی) میں داخل کیے گئے دستاویزوں سے سامنے آئی ہے۔
کمپنی کے بیلینس شیٹوں اور آر او سی سے حاصل کی گئی سالانہ رپورٹوں سے یہ بات اجاگر ہوتی ہے کہ 2013 اور 2014 کے مارچ میں ختم ہونے والے مالی سالوں میں شاہ کی ٹیمپل انٹرپرائز پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کوئی خاص قابل ذکر کاروبار نہیں کر رہی تھی اور ان سالوں میں کمپنی کو حسب ترتیب 6230اور1724روپے کا نقصان ہوا۔15-2014میں کمپنی نے محض 50000کے ریونیو پر 18728روپے کا منافع دکھایا۔ 16-2015میں کمپنی کا ٹرن اُوور آسمان میں چھلانگ لگاتے ہوئے بڑھکر 80.5 کروڑ روپے کو چھو گیا۔
ٹیمپل انٹرپرائز کے ریونیو میں یہ حیران کن اضافہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب کمپنی کو راجیہ سبھا ممبر اور ریلائنس انڈسٹریز کے اعلیٰ ایگزیکٹیو پریمل ناتھوانی کے سمدھی راجیش کھنڈیل وال کی ملکیت والی ایک مالیاتی خدمات کمپنی (فائنانشیل سروسیز کمپنی) سے 15.78 کروڑ روپے کاUnsecured Loan ملا تھا۔
حالانکہ، ایک سال بعد اکتوبر،2016 میں جئے شاہ کی کمپنی نے اپنی تجارتی سرگرمیوں کو اچانک پوری طرح سے بند کر دیا۔ ڈائرکٹر وں کی رپورٹ میں یہ کہا گیا کہ پچھلے سال ہوئے 1.4 کروڑ روپے کے نقصانات اور اس سے پہلے کے سالوں میں ہونے والے نقصانات کی وجہ سے کمپنی کا نیٹ ورتھ پوری طرح سے ختم ہو گیا ہے۔
‘ دی وائر ‘نے جمعرات کو جئے شاہ کو ایک سوال نامہ بھیجا، جس میں ان سے ٹیمپل انٹرپرائز کی جائیداد میں آئے اس اتارچڑھاؤ اور آر او سی کے دستاویزوں کے مطابق ان کے دوسرے کاروباروں کی تفصیل دینے کی گزارش کی گئی۔ اس پر انہوں نے یہ جواب دیا کہ وہ سفر کر رہے ہیں، اس لئے فوراً اس بارے میں کوئی جواب نہیں دے سکتے ہیں۔
جمعہ کو ان کے وکیل مانک ڈوگرا نے اس انتباہ کے ساتھ جواب بھیجا کہ اگر ان کے کلائنٹ جئے امیت بھائی شاہ پر ایسا کوئی الزام لگایا جاتا ہے، جو ان پر کسی طرح کی گڑبڑی کرنے کا ہلکا سا بھی اشارہ کرتا ہو، تو اس کا جواب مجرمانہ اور سول ہتک عزت کے مقدمہ سے دیا جائےگا۔
جیسا کہ ظاہر ہے،آر او سی دستاویزوں کی کہانی مختلف قرضوں اور ریونیو سے زیادہ کچھ بھی نہیں بتاتی، جس سے شاہ کے وکیل نے بھی انکار نہیں کیا ہے۔ دنیابھر کی جمہوریت میں لیڈروں کے رشتہ داروں کے کاروباروں کی جانچ پڑتال کرنا، خاص کر سیاسی گراف کے اوپر چڑھنے کے ساتھ جائیداد میں اچانک تبدیلی نظر آئے، بےحد معمولی بات ہے۔
مثال کے طور پر یو پی اے-2 کے دوران کانگریس پارٹی نے تین سالوں کا ایک بڑا حصہ ان سوالوں کا مقابلہ کرتے ہوئے گزار دیا کہ آخر کیسے سونیا گاندھی کے داماد رابرٹ واڈرا نے قرضوں کے سہارے، جن میں ریئل اسٹیٹ کی بڑی کمپنی ڈی ایل ایف کی طرف سے ملی Unsecured Loanکی پیشگی رقم بھی شامل ہے، اپنے ریئل اسٹیٹ کاروبار کو بڑھا لیا تھا۔
حالانکہ، شاہ کے وکیل نے شاہ کے ذریعے دی گئی معلومات، وہ فائلنگس جن کو کمپنیوں کو لازمی طور پر آر او سی میں جمع کرنا ہوتا ہے تاکہ ان کو سب عوامی طور پر دیکھ سکیں اور ان کی جانچ کی جا سکے، کو خارج نہیں کیا ہے۔ اگر شاہ کی طرف سے کوئی جواب آتا ہے، تو ‘دی وائر ‘ کواس کو شائع کرنے میں خوشی ہوگی۔
ٹیمپل انٹرپرائز کی جائیداد میں اتارچڑھاؤ
ٹیمپل انٹرپرائز، 2004 میں تشکیل پائی اور جئے شاہ اور جتیندر شاہ کا نام ا س کے ڈائریکٹر کے طور پر درج کیا گیا۔ بی جے پی صدر امت شاہ کی بیوی سونل شاہ کی بھی اس کمپنی میں حصےداری تھی۔
2014-15 میں ٹیمپل انٹرپرائز کے پاس کوئی غیر منقولہ جائیداد نہیں تھی۔ نہ ہی اس کے پاس کوئی انوینٹری یا اسٹاک تھا۔ اس کو5796روپے کی انکم ٹیکس ریفنڈ بھی ملا۔15-2014میں اس نے 50000روپے کے ریونیو کی کمائی کی۔ لیکن 16-2015میں کمپنی کا ریونیو حیرت انگیز طریقےسے بڑھکر 80.5 کروڑ روپے ہو گیا۔ یہ 16 لاکھ فیصد کا اضافہ تھا۔
ریزرو اور سرپلس گزشتہ سال کے 19 لاکھ سے گھٹکر80.2-لاکھ ہو گیا۔ گزشتہ سال جہاں اس کا کاروبار دین داریاں 5618روپے کی تھی، وہ اس سال 2.65 کروڑ روپے ہو گئی۔ جبکہ کمپنی کا اثاثہ (اسیٹ) صرف 2 لاکھ تھا۔ اس سے ایک سال پہلے اس فرم کا کوئی غیر منقولہ اثاثہ نہیں تھا۔
ایک سال پہلے جہاں کم میعاد کے قرض اور پیشگی کے طور پر لی گئی کل رقم10000 روپے کی تھی، وہیں یہ بڑھکر اس سال 4.14کروڑ روپے ہو گئی۔ گزشتہ سال جہاں گوداموں میں کچھ نہیں تھا، وہیں اس سال یہ بڑھکر 9 کروڑ کے برابر کا ہو گیا۔ ریونیو میں ہونے والے اس بھاری اضافے کو فائلنگ میں ‘ مصنوعات کی فروخت ‘ سے ہوئی حصولیابی کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ اس میں 51 کروڑ روپے کی غیر ملکی آمدنی بھی شامل ہے۔ ایک سال پہلے غیر ملکی آمدنی بھی صفر تھی۔
اس فائلنگ سے کے آئی ایف ایس نامی لسٹیڈ کمپنی سے 15.78 کروڑ کے unsecured loanکا بھی پتا چلتا ہے۔ اسی مالی سال کے لئے، یعنی جس سال قرض دیا گیا،کے آئی ایف ایس کا ریونیو7 کروڑ روپے تھا۔ کے آئی ایف ایس فائی نینشیل سروسز کے سالانہ رپورٹ میں بھی ٹیمپل انٹرپرائز کو دیے گئے 15.78 کروڑ کے unsecured loan کا کوئی ذکر نہیں ملتا ہے۔
کے آئی ایف ایس فائی نینشیل
کے آئی ایف ایس فائی نینشیل سروسز کے پرموٹر راجیش کھنڈوالا پہلے جمعرات کو ‘ دی وائر ‘کے ذریعے بھیجے گئے سوال نامے کا جواب دینے کے لئے تیار ہو گئے، جس میں شاہ کی کمپنی کے ساتھ ان کی کمپنی کے لین دین کے بارے میں وضاحت مانگی گئی تھی۔ لیکن بعد میں انہوں نے فون کالس اور پیغامات کا جواب دینا بند کر دیا۔ کے آئی ایف ایس، ایک غیر بینکنگ مالی کمپنی ہے جس کے کام پر کچھ سال پہلے سیبی(سیکورٹیز اینڈ ایکس چنج بورڈ آف انڈیا) نے سوال اٹھائے تھے۔
کھنڈوالا کی بیٹی،پریمل ناتھوانی کے بیٹے کے ساتھ بیاہی گئی ہے۔احمد آباد کے ناتھوانی ریلائنس انڈسٹریز کے گجرات آپریشنس کے مکھیا ہیں۔ وہ اپنا ایک پیر سیاست میں تو دوسرا پیر کاروبار میں رکھکر کام کرتے رہے ہیں۔ وہ راجیہ سبھاکے ایک آزاد رکن پارلیامنٹ ہیں۔ 2014 میں بی جے پی کے جھارکھنڈ کےایم ایل اے ممبروں کی حمایت سے وہ راجیہ سبھا میں پھر سے چن کر پہنچے تھے۔
امت شاہ کے ایک قریبی ذرائع نے اس رپورٹر کو بتایا کہ کھنڈوالا کے فرم کے ذریعے ٹیمپل انٹرپرائز کو Unsecured Loanدینے میں نہ تو ناتھوانی اور نہ ہی ریلائنس کا کوئی کردار تھا۔ دوسری طرف جئے شاہ کے وکیل نے اپنے تحریری جواب میں کہا ہے کہ کھنڈوالا پرانے فیملی دوست ہیں۔
شاہ کے وکیل کے مطابق :
‘ کے آئی ایف ایس کے پرموٹر راجیش کھنڈوالا، پچھلے کئی سالوں سے جئےشاہ کے پریوار کے لئے شیئر بروکر کا کام کر رہے ہیں۔ اس غیر بینکنگ مالی کمپنی نے جئے شاہ اور جتیندر شاہ کے دوسرے کاروبار کو پچھلے کئی سالوں سے باقاعدہ طور پر قرض مہیّاکرایا ہے۔ جئے شاہ کا راجیش کھنڈوالا کے ساتھ فیملی رشتہ، چار سال پہلے ناتھوانی کے بیٹے کے کھنڈوالا کی بیٹی سے شادی سے بھی پہلے کا ہے۔ ‘
قرض کے بارے میں پوچھے گئے سوالوں کو لےکر جئے شاہ کے وکیل نے لکھا ہے :
‘ جئے شاہ، جتیندر شاہ اور ان کے معاون نے اس کمپنی (ٹیمپل انٹر پرائز) میں شیئر سرمایہ اور Unsecured Loan کی سرمایہ کاری کی ہے۔ چونکہ نئے کاروبار / کمپنی کو کارگر سرمایہ مہیّا نہیں تھا، اس لئے کاروبار کو چلانے کے لئے وقت وقت پر کے آئی ایف ایس فائی نینشیل سروسز لمیٹڈ سے سود والے انٹر کارپوریٹ ڈپازٹس (آئی سی ڈی) لئے گئے تھے، جو کہ ایک رجسٹرڈ غیر بینکنگ فائی نینشیل کمپنی ہے۔ چکائے گئے سود پر ٹیکس (ٹی ڈی ایس) بھی باقاعدہ طور پر چکایا گیا ہے اور سود کی پوری رقم کی پوری ادائیگی کر دی گئی ہے۔ ‘
2015 میں، یعنی کہ اسی سال جس سال کے آئی ایف ایس نے شاہ کے فرم کو Unsecured Loanمہیّا کرایا، کھنڈوالا اور شاہ نے ایک لمیٹڈ لائبلٹی پارٹنرشپ (ایل ایل پی)-ستوٹریڈلنک قائم کیا گیا۔ حالانکہ، اس کو بعد میں ختم کر دیا گیا۔ ‘ دی وائر ‘نے جئے شاہ سے ستو ٹریڈ لنکس کے علاوہ کھنڈوالا کے ساتھ ان کے دیگر لین دین کو واضح کرنے کے لئے کہا تھا۔ شاہ کی طرف سے جواب دیتے ہوئے وکیل نے کہا :حالانکہ یہ ایل ایل پی جئے شاہ اور کھنڈوالا کے ذریعے تشکیل کی گئی تھی، لیکن بازار کے ناموافق حالات کو دیکھتے ہوئے اس کے تحت کوئی کاروبار نہیں کیا گیا اور اس ایل ایل پی کو ختم کر دیا گیا اور اس کو بہت پہلے ہی رجسٹرڈ رکارڈ سے ہٹا دیا گیا ہے۔ ‘
یہ واضح نہیں ہے کہ ‘ناموافق بازار حالات ‘سے شاہ کے وکیل کا مطلب کیا ہے؟ کیونکہ جس سال ایل ایل پی تشکیل دی گئی، اسی سال کھنڈوالا کے فرم نے 15.78 کروڑ روپے شاہ کی کمپنی کو قرض کے طور پر دیے اور کمپنی نے 80.5 کروڑ روپے کا ریونیو دکھایا۔
کھنڈوالا سے خاص طور پر پوچھے گئے سوال کہ آخر کیوں کے آئی ایف ایس فائی نینشیل سروسز کی سالانہ رپورٹ میں جئے شاہ کی کمپنی کو دیے گئے قرض کے بارے میں کوئی ذکر نہیں کیا گیا، کا کوئی جواب نہیں ملا۔
تیزی کے بعد آئی گراوٹ
شاہ کی آر او سی فائلنگ کے مطابق ٹیمپل انٹرپرائز کو تھوک کاروبار میں لگی کمپنی بتایا گیا ہے جس کے کل کاروبار میں 95 فیصدی حصہ زراعتی مصنوعات کی فروخت سے آتا ہے۔ شاہ کے وکیل کے بیان میں کہا گیا ہے، ‘ٹیمپل انٹرپرائز ریپ سیڈ، ڈی او سی، کیسٹر ڈی او سی میل، دیسی چنا، سویابین، دھنیا کے بیج، گیہوں، چاول، مکئی وغیرہ زراعتی مصنوعات کے در آمدات اور برآمدات کا کاروبار کرتا ہے۔ ‘
اس بیان میں شاہ کے بزنس پارٹنر جتیندر جینتی لال شاہ کے کاروباری دماغ اور امت شاہ کے بیٹے کو ملی تعلیم کو کمپنی کی کارکردگی کا کریڈٹ دیا گیا ہے :
‘ اس کاروبار کا مالکانا حق اور اس کا انتظام وانصرام خاص طور پر جئے شاہ اور جتیندر شاہ (ایک پرانے فیملی دوست) اور ان کے معاونین کے پاس تھا۔جئے شاہ ایک کوالیفائڈ انجینئر ہیں،جنہوں نے نرما یونیورسٹی سی اپنی بی ٹیک کی پڑھائی کی ہے اور جتیندر شاہ پہلے ہی کئی سالوں سے کموڈٹیز کے بزنس میں لگے ہوئے ہیں اور ان کی کمپنیاں 100کروڑ سے زیادہ کا سالانہ کاروبار کر رہی تھیں۔ ‘
شاہ کے وکیل نے یہ بھی کہا کہ کموڈٹی کاروبار میں 80 کروڑ کا ٹرن اوور ‘ غیرمعمولی ڈھنگ سے زیادہ ‘ نہیں کہا جا سکتا۔
جو بات تھوڑی غیرمعمولی لگتی ہے، وہ یہ ہے کہ ایک فرم جس کی حصولیابیاں ایک سال میں ہی-مالی سال (16-2015) میں محض50000روپے سے بڑھکر 80 کروڑ روپے تک پہنچ گیا ہو، اس نے گزشتہ سال اپنا کاروبار بند کر دیا۔
بیان میں کہا گیا ہے، ‘بدقسمتی سے ٹیمپل انٹرپرائز پرائیویٹ لمیٹڈ کی تجارتی سرگرمیوں سے نقصان ہوا، جس کی وجہ سے 2016 کے اکتوبر میں کبھی اس کاروبار کو بند کر دیا گیا۔ ‘
اسٹاک ٹریڈنگ سے بجلی پیداوار جینریشن تک
کسم فِنسروو جولائی 2015 میں شروع کی گئی ایک لمیٹڈ لائبلٹی پارٹنرشپ ہے، جس میں جئے شاہ کی 60 فیصدی حصےداری ہے۔ ایل ایل پی میں بدلے جانے سے پہلے یہ ایک پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی ہوا کرتی تھی۔ اس پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کو بھی مالی سال 15-2014میں کے آئی ایف ایس فائی نینشیل سے 2.6کروڑ کے برابر کا انٹر کارپوریٹ ڈپازٹس ملا۔ آخری فائلنگ کے مطابق اس پارٹنرشپ نے 24کروڑ کی کمائی کی۔
اس فائلنگ سے 4.9 کروڑ روپے کے Unsecured Loan کی بات بھی سامنے نکلکر آتی ہے، لیکن اس میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ آخر اس قرض کے ذرائع کیا ہیں؟ شاہ کے وکیل کا کہنا ہے کہ کسم فِنسروکا اہم کاروبار اسٹاک اور شیئر وں کی ٹریڈنگ، ایکسپورٹ امپورٹ کی سرگرمیاں اور ڈسٹریبیوشن اینڈ مارکیٹنگ کنسلٹینسی خدمات کا ہے۔ ‘
وہ یہ بھی جوڑتے ہیں کہ کے آئی ایف ایس فائی نینشیل سروسز اس کو باقاعدہ طور پر قرض دیتا رہا ہے۔ بیان کے مطابق، ‘یہ کمپنی پچھلے کئی سالوں سے کے آئی ایف ایس سے باقاعدہ طور پر آئی سی ڈی / قرض لیتی رہی ہے اور 4.9 کروڑ کی رقم بقایا کلوزنگ بیلینس تھی۔ ان رقموں کا استعمال ریگولرکام کاجی سرمایہ کے طور پر کیا گیا۔ چکائے گئے سود پر ٹیکس(ٹی ڈی ایس) چکایا گیا ہے اور اصل پونجی اور سود کی رقم کو پوری طرح سے چکا دیاگیا ہے۔
حالانکہ، اس فرم کا اہم کاروبار اسٹاکوں کی ٹریڈنگ ہے، لیکن اس کی آر او سی فائلنگ سے پتا چلتا ہے کہ یہ کئی الگ الگ کاروبار میں شامل ہے، جن کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ مدھیہ پردیش کے رتلام میں 15کروڑ روپے کی لاگت والی 2.1 میگاواٹ کی ونڈمل (پون چکّی) بھی لگا رہی ہے۔
کارپوریٹ بینکوں اور عوامی شعبوں کی کمپنیوں سے ملے قرض
آر او سی میں شاہ کی فائلنگ سے کالوپور کامرشیل کوآپریٹیو بینک سے 25 کروڑ کے برابر کی مالی امداد کا پتا چلتا ہے۔ اس بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرس میں نرما گروپ اور نرما یونیورسٹی کے لوگ شامل ہیں۔اس بینک کے چیئرمین ایمرٹس نرما کے امبوبھائی مگن بھائی پٹیل ہیں۔
گروی رکھی گئی جائیدادوں میں ایک امت شاہ کی ملکیت والی ہے، جس کی قیمت 5 کروڑ بتائی گئی ہے۔ دوسری جائیداد امت شاہ کے ایک معاون یشپال چوڈاسما کے ذریعے 2014 میں کسم فِنسرو کو منتقل کی گئی ہے۔ شاہ نے اس 2002مربع فٹ کی اس جائیداد کی قیمت نہیں بتائی ہے، لیکن بازار کے اندازوں کے مطابق اس کی قیمت 1.2کروڑ کے آس پاس ہے۔
احمد آباد ضلع کوآپریٹیو بینک کے سابق ڈائرکٹر، چوڈاسما پر 2010 میں سی بی آئی نے امت شاہ کی طرف سے گواہوں کو، سہراب الدین اور ان کی بیوی کوثر بی کے فرضی انکاؤنٹر مقدمہ میں سی بی آئی کے سامنے سچ نہ بتانے کے لئے منانے، ڈرانے اور دھمکانے کی کوشش کرنے کے لئے چارج شیٹ داخل کی تھی۔ 2015 میں سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے اس معاملے سے چوڈاسما کو بری کر دیا، ویسے ہی جیسے دسمبر، 2014 میں امت شاہ کو بھی بری کر دیا گیا تھا۔
یہ پوچھے جانے پر کہ آخر کس طرح کسم فِنسروایک کوآپریٹیوبینک سے 7 کروڑ کی ضمانتی جائیداد پر 25 کروڑ روپے کا قرض لینے میں کامیاب رہی اور کیا دوسری جائیدادوں کو بھی گروی رکھیا گیا تھا، جئے شاہ کے وکیل کا جواب تھا : بینک نے فرم کو ‘ قرض ‘نہیں دیا تھا، بلکہ اس کی جگہ ‘ 25 کروڑ روپے تک کا لیٹر آف کریڈٹ (ایل سی)، ‘نان فنڈ بیسڈ ورکنگ کیپٹل فیسلٹی ‘کے طور پر مہیّاکرایا تھا۔
وکیل کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اس سہولت کا استعمال وقت وقت پر کیا جاتا ہے۔ اس بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ‘ یہ سہولت عام بینکنگ شرطوں پر حاصل کی گئی ہے، جس کے تحت ایل سی کے تحت سامان کی خریداری کا تخمینہ، 10 فیصدی کی نقد بچت اور جئے شاہ کے والد کی ملکیت والی جائیداد اور کسم فنسرو (جس کو 5 اپریل، 2014 کو خریدا گیا) کی ایک دوسری جائیداد کی ضمانت شامل ہے۔ یہ بات اپریل 2014 سے مارچ، 2015 کے فائی نینشیل اسٹیٹمنٹ میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ ‘
شاہ کے وکیل نے بتایا کہ بینک کو اس ایل سی کے ختم ہونے سے پہلے اپنی متعینہ تاریخ کو ہی ادائیگی موصول ہوتی ہے، جس سے یہ بینکوں کے لئے نان فنڈیڈ، بغیر جوکھم والی سہولت بن جاتی ہے۔
کوآپریٹو بینک کے علاوہ، جئے شاہ کی پارٹنرشپ نے مارچ، 2016 میں ایک عوامی شعبے کے فرم،انڈین رنیوئیبل انرجی ڈیولپمنٹ ایجنسی (آئی آر ای ڈی اے) سے بھی 10.35 کروڑ کا قرض لیا ہے۔ اس کی ویب سائٹ کے مطابق یہ ایک مِنی رتن کمپنی ہے۔ یہ کمپنی نئی اوررینویل انرجی منسٹری کے تحت کام کرتی ہے۔ جس وقت یہ قرض منظور کیا گیا، اس وقت پییوش گوئل اس کے وزیر تھے۔
شاہ کے وکیل کا کہنا ہے کہ ‘2.1 میگاواٹ کی ونڈ انرجی والے کارخانے کوقائم کرنے کے لیےآئی آرای ڈی اے سے لیا گیا قرض اس وقت انڈسٹری معیارات کے حساب سے آلات کی قیمت (قریب 14.3 کروڑ) پر مبنی ہے۔ اس کا باقاعدہ جائزہ لیا گیا تھا اور عام کاروبار کے تحت اس کو دستیاب کرایا گیا تھا۔30جون 2017کو کل بقایا قرض 8.52 کروڑ ہےاور سود اور قرض کی دوبارہ ادائیگی باقاعدہ طور پر کی جا رہی ہے۔ ‘
جو بات واضح نہیں ہوتی وہ ہے، وہ معیار جس کی بنیاد پر ایک پارٹنرشپ، جس کا اہم کاروبار، شاہ کے وکیل کے مطابق، ‘اسٹاکوں اور شیئروں کی ٹریڈنگ،ایکسپورٹ امپورٹ سے متعلق سرگرمیاں اور ڈسٹریبیوشن اور مارکیٹنگ کنسلٹینسی سروسیز ہے، 2.1میگاواٹ کا ونڈ انرجی منصوبہ کے لئے درخواست دینے کا فیصلہ کیا اور اس کو اس کے لئے قرض بھی مل گیا، جبکہ اس کے پاس بنیادی ڈھانچہ یا بجلی شعبہ کا کوئی سابق تجربہ نہیں تھا۔ قرض دینے کی پالیسی کے بارے میں معلومات لینے کے لئے ‘ دی وائر ‘نے آئی آر ای ڈی اے سے بھی رابطہ کیا ہے اور اس کا جواب آنے پر اس کو رپورٹ میں شامل کیا جائےگا۔
شاہ کے وکیل سے ملی دھمکی
اپنے کلائنٹ جئے شاہ کی طرف سے ‘دی وائر ‘ کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے جئے شاہ کے وکیل نے یہ دھمکی دی ہے کہ جئے شاہ کے کاروباری لین دین کو لےکر اگر کوئی خبر کی گئی، تو اس کا منفی قانونی نتیجہ نکلےگا۔
‘ اوپر دئے گئے جواب اور وضاحت کی روشنی میں سارے حقائق پوری طرح سے صاف ہیں اور آپ سے یہ التجا ہے کہ آپ اس بارے میں کوئی خبر شائع نہ کریں، جو نہ صرف میرے کلائنٹ کی رازداری پر حملہ ہوگا، بلکہ جو بدنام کرنے والا یا ہتک عزت کرنے والا بھی ہوگا۔ ‘
‘ جئےشاہ ایک پرائیویٹ سٹیزن ہیں، جو قانون کے تحت اپنا کاروبار کر رہے ہیں۔ ان کے کاروباری لین-دین ایماندار، قانونی اور تصدیق شدہ ہیں۔ آپ کے سوال نامہ سے ایسا لگتا ہے کہ آپ کا ارادہ ان کو ایک جھوٹے اور من گھڑت تنازعے میں گھسیٹنا ہے کوئی ایسا الزام جس سے ان کی طرف سے کوئی غلط کام کرنے کا ہلکا سا بھی احساس جائےگا، وہ نہ صرف جھوٹا بلکہ بدنیتی سے متاثراور بدنام کرنے والا بھی ہوگا۔ یہ رازداری کے بنیادی حق کی خلاف ورزی بھی ہوگی۔ ایسی حالت میں ان کے پاس آپ کے خلاف ہتک عزت اور غلط سلوک کرنے کا مقدمہ دائر کرنے کا حق ہوگا۔
ان سب باتوں کے علاوہ، اگر آپ یا پرنٹ، الیکٹرانک یا ڈیجیٹل میڈیا میں کوئی بھی، میرے کلائنٹ کے خلاف کوئی بدنامی کرنے والا اور / یا جھوٹا الزام لگاتا ہے، یا کوئی ایسا الزام لگاتا ہے جو رازداری کے ان کے بنیادی حق پر ضرب لگاتا ہے / یا ان کو بدنام کرتا ہے، تو شاہ کے پاس اس شخص / اکائی، جو ایسے بدنامی / ہتک عزت کرنے والے الزامات کی نشر یا تشہیر کرتا ہے یا دہراتا ہے ‘ کے خلاف مقدمہ کرنے کا حق ہوگا۔
(روہنی سنگھ، انویسٹیگیٹیو رپورٹر ہیں، جو کچھ وقت پہلے تک اکانومک ٹائمس سے منسلک تھیں۔ 2011 میں انھوں نے رابرٹ واڈرا کی ڈی ایل ایف کے ساتھ ہوئی ڈیل کا خلاصہ کیا تھا۔)
Categories: خبریں