ایماندرای کی بات یہ ہے کہ مجھے خودنہیں معلوم کہ میرا یوم پیدائش کیوں منایاجاتا ہے۔ میرا خیال ہے، سیاستدانوں کو شاید اس کی ضرورت ہے،تاکہ سال میں کم از کم ایک بار وہ اس بات کا ڈھونگ رچ سکیں کہ وہ میرے اور میرے نظریات کے پیروکار ہیں۔
ان دنوں فیک نیوز کا بازار گرم ہے۔تاریخ کو نئے سرے سے رقم کرنے کی مہم زوروں پر ہے۔ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے بارے میں طرح طرح کی جھوٹی باتیں منظم طریقے سے پھیلائی جا رہی ہیں۔ ان کوششوں کے پیچھے کا مقصد صاف ہے۔ در اصل یہ ایک آئیڈیالوجی کا دوسری آئیڈیالوجی پر سبقت حاصل کرنے کی جنگ ہے۔اس مہم میں آج کے ٹی وی اینکرس نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ہریش کھرے نے اسی سیاق میں ایک خیالی انٹرویوتحریر کیا ہے، جس میں مہاتما گاندھی خودموجود ہیں اورآج کے ’ خاص ‘ٹی وی اینکرکے سوالوں کابے باکی سے جواب دے رہے ہیں۔ گاندھی جی کے جواب بیحددلچسپ ہیں۔یہ خیالی انٹرویو ’دی ٹریبیون‘ میں گزشتہ 1اکتوبر کو شائع ہوا تھا۔(مترجم ،سید کاشف)
چرب زبان ٹی وی اینکراور اسٹوڈیو کی آنکھوں کو چندھیا دینے والی روشنی فادر آف نیشن کو چت کرنے کی کوشش میں اوندھے منہ گر گئے ۔ اس گاندھی جینتی پر،خود مہاتماگاندھی کو ایک خصوصی انٹرویو کے لئے ٹی وی اسٹو ڈیو میں آنے کے لیےرا ضی کیا گیا۔ ان سے کی گئی اس خاص بات چیت کے چند اقتباسات ملاحظہ کریں:
اینکر:گاندھی جی بے حدشکریہ،آپ نے ہم سے بات چیت کے لئے وقت نکالا۔ہمارے پاس صرف دس منٹ ہے۔لہذاہم بلا تاخیر انٹرویو شروع کرتے ہیں۔ کیا میں آپ کو ’باپو‘کہہ کر مخاطب کروں؟ آپ برا تو نہیں مانیں گے؟ویسے فلم ’گاندھی‘ میں آپ کو ’باپو ‘ہی تو کہا گیا ہے،حالانکہ آپ کی شکل Ben Kingsley سے بالکل بھی نہیں ملتی۔
گاندھی: شکریہ۔آپ باپو کہیں، مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
اینکر:اگر آپ کو برا نہ لگے تو یہ بتائیں کہ ہم ہر سال آپ کی یوم پیدائش کیوں منائیں؟سال درسال؟
گاندھی:ایماندرای کی بات یہ ہے کہ مجھے خودنہیں معلوم کہ میرا یوم پیدائش کیوں منایا جاتاہے۔ میرا خیال ہے، سیاستدانوں کو شاید اس کی ضرورت ہے،تاکہ سال میں کم از کم ایک بار وہ اس بات کا ڈھونگ رچ سکیں کہ وہ میرے اور میرے نظریات کے پیروکار ہیں۔ راج گھاٹ پرنیتاؤں کی رسمی حاضری در اصل ان کی ضرورت بن گئی ہے،تاکہ وہ اپنے سیاسی گناہوں کو دھل سکیں۔ اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو یہ سراسر منافقت ہے۔
اینکر: بہت اچھا باپو، بہت اچھا۔۔۔۔ کیا میں اصل مدعے کی طرف آﺅں اور آپ سے پوچھوں کہ آپ نے سردار پٹیل کے ساتھ دھوکا کیوں کیا؟آپ نے انہیں آزاد بھارت کا پہلا وزیر اعظم کیوں نہیں بنا یا؟ اگر ایسا ہوا ہوتاتو آج ہندوستا ن کی شکل بہت مختلف ہوتی۔
گاندھی:آہ ۔۔میں سمجھ سکتا ہوں۔۔۔میرے عزیز ! یہ ایک جھوٹ ہے۔ یہ فرضی تاریخ ہے۔ جہاں تک مجھےیادپڑتاہے،جب تک جواہرزندہ تھےیہ الزام کبھی کسی نے نہیں لگائے۔ اس مفروضےکی ایجادبہت بعد میں چند لوگوں نے کی ۔۔۔۔
اینکر: (دخل اندازی کرتے ہوے)۔۔۔۔لیکن کئی دستاویز موجود ہیں۔
گاندھی:کوئی دستاویز نہیں ہے۔ کوئی ایسا دستاویز ہو بھی نہیں سکتا، کیوں کہ اس بات کا حقیقت سے کوئی لینادینا ہے ہی نہیں۔ آپ کے پاس جو بھی کچھ ہے، وہ فرضی تاریخ ہے۔ کانگریس کے ہر فرد کی طرح سرداربھی یہ بات بہت اچھی طرح جانتے تھے کہ اس وقت جواہر کے علاوہ کوئی دوسرا لیڈرعوام میں مقبول نہیں تھا ۔ عوام میں جواہر کے علاوہ کسی اور لیڈر کی رسائی نہیں تھی۔سردار اور نہرو کے بیچ کے اس گہری رقابت کا انوکھا خیال کسی اور نے نہیں ہمارے extreme rightist دوستوں نے ایجادکیا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے برلا ہاؤس میں مجھے مروانے کے لئے سازشیں رچی تھیں۔
اینکر: باپو،دیکھیں آپ ذرا احتیاط برتیں۔ آپ دیش کے عظیم محب وطن اور قوم پرستوں کو ایسی بات کے لئے مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں، جس کا کوئی ثبوت نہیں۔آپ کی ہمت کیسے ہوی ایسا کہنے کی۔۔۔۔!
گاندھی:برائے مہربانی اس ضعیف العمر پر مت برسو۔ مجھے اس بات کا اندہ نہیں آپ کا مطالعہ کتنا ہے،یا کچھ ہے بھی کہ نہیں۔ معاف کریں کیا میں آپ کو ایک چھوٹی سی کتاب پڑھنے کا مشورہ دے سکتا ہوں۔۔۔ کتاب کا نام ہے:Gandhi is Gone: Who will Guide Us Now
اس کتاب میں ایک میٹنگ کی ٹرانسکرپٹ موجود ہے۔ اس میٹنگ میں قومی لیڈران ؛ نہرو، پرساد، آزاد، ونوبا، کرپلانی، جے پرکاش، کالیلکر وغیرہ وغیرہ موجود تھے۔ یہ میٹنگ میرے قتل کے بعد سیوا گرام میں منعقد کی گئی تھی۔ سردار اس میٹنگ میں شامل نہیں ہو سکے تھے۔ وہ بہت علیل تھے۔یہ واقعہ March 1948 کا ہے۔ یہ تمام لیڈران اس بات پر صلاح و مشورہ کرر ہے تھے کہ اب آگے کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔
اگر آپ مجھے اجازت دیں تو ونوبا نے اس میٹنگ میں جو باتیں کہی تھیں، وہ آپ کو پڑھ کر سناﺅں :
” میں کچھ باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ میرا تعلق اس ریاست سے ہے جہاں آر ایس ایس کا قیام عمل میں آیا۔گرچہ میں ذات پات سے اوپر اٹھ چکا ہوں،لیکن میں ابھی تک اس بات کو اپنے ذہن سے نہیں جھٹک پا رہا ہوں کہ میرا تعلق بھی اسی ذات سے ہے جس ذات کے آدمی نے اس گناہ کا ارتکاب کیا ہے(گاندھی کا قتل)۔ میں پونر میں بہت سالوں سے رہ رہا ہوں۔ وہاں بھی چار پانچ لوگوں کوشک کی بنیاد پر حراست میں لیا گیا ہے ، شک ہے کہ وہ لوگ بھی کسی طور باپو کے قتل میں ملوث ہیں ۔ واردھا اور ناگپور میں بھی کچھ لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ دوسرے شہروں میں بھی مزید گرفتاریاں عمل میں لائی جا رہی ہیں۔ اس تنظیم کا دائرہ عمل بہت وسیع ہے۔ اس کی جڑیں بہت گہری ہو چکی ہیں۔ یہ تنظیم فاشزم میں یقین رکھتی ہے۔گاندھی جی کا اصول” سچائی“پر مبنی تھا۔مجھے ایسا لگتا ہے ان لوگوں کا اصول مبنی بر”جھوٹ“ہے۔ یہی” جھوٹ“ ان کی تکنیک اور فلسفہ کا بنیادی اور لازمی حصہ ہے۔
”آر ایس ایس کا طریقہ کار ہمیشہ سے ہمارے اصولوں سے بالکل مختلف رہا ہے۔ جب ہم جیل جا رہے تھے، تب ان کی پالیسی آرمی اور پولیس جوائن کرنا ہوا کرتی تھی۔ جب کبھی یا جہاں کہیں ہندو مسلم فسادات ہونے کا خدشہ آن پڑتا تھا، یہ لوگ ضرور آ دھمکتے تھے۔حکومت وقت ہمیشہ اس بات کا فائدہ اٹھاتی تھی، اور اسی لئے ہمیشہ انہیں شہ ملتا رہا۔اور اب ہمیں اس کے نتائج کا سامنا ہے۔ “
اینکر:یہ محض کسی ایک فرد کی رائے ہے۔ آر ایس ایس کے خلاف کبھی کچھ ثابت نہیں ہو پا یا ہے۔۔۔۔اور بوس کے بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے؟ نہرو،بوس سے اتنی نفرت کیوں کرتے تھے ؟
گاندھی: میرے عزیز! اجازت دیں تو میں آپ کو ایک راز کی بات بتاﺅں؟ آپ یہ جان لیں کہ جواہر اور بوس کے درمیان بہت معمولی اختلاف تھے۔ زیادہ اختلاف میرے اور سبھاش کے درمیان تھے؛نظریاتی بھی اور تکنیکی بھی۔ آپ Nirad C. Chaudhari کی کتاب ‘Thy Hand Great Anarch ضرور پڑھیں۔ نیراد بابو کی کتاب میں ہمارے قصیدے نہیں لکھے ہیں۔ لیکن انہوں نے یہ واضح کیا ہے کہ نہرو کا بوس سے کوئی جھگڑا نہیں تھا۔
بلکہ ایک دفعہ سبھاش تب سخت ناراض ہو گئے جب جواہر (اور سردار بھی)نے کانگریس کے تریپوری سیشن (1939)میں میری حمایت کی۔
کیا میں اپنی بات جاری رکھوں؟ ہر کوئی بوس کے 28مارچ 1939 کے اس خط کا حوالہ دیتا پھرتا ہے جس میں انہوں نے نہرو پر یہ الزام لگا یا ہے کہ وہ مجھ سے”بے پناہ نفرت “کرتے ہیں۔ نیراد بابو کی کتاب میں پورا سیاق موجود ہے،آپ اسے پڑھئے،شاید آپ کو اس رشتہ کی نزاکت کا اندازہ لگ پائے۔جواہر ایک پر وقار شخصیت کے مالک تھے۔ معمولی اختلافات کو عظیم رقابت میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
اینکر: آپ نہرو کا اتنا بچاؤکیوں کر رہے ہیں؟
گاندھی:یا تو آپ بہرے ہیں یا پھر احمق۔ موجودہ ہندوستان میں جو ہورہا ہے وہ سامراجیت کی پرانی حکمت عملی یعنیdivide and ruleکی ہی نقل ہے۔ ہم لوگ برطانوی جال سے آزاد اس لئے ہو سکے کیونکہ ہمارے سینئر رہنماﺅں کے درمیان کو ئی لڑائی نہیں تھی۔اختلافات بلا شبہ تھے۔ ممکن ہے رقابت بھی رہی ہو۔ مگر دشمنی ہر گز نہیں تھی۔بالکل بھی نہیں۔مجھے پورا اندازہ ہے ملک میں کیا ہو رہا ہے ۔ تاریخ کیوں دوبارہ لکھی یا مسخ کی جار ہی ہے۔
جواہراورسردار، جواہر اور سبھاش ، جواہر اور بھیم راؤکے بیچ دشمنی کا مفروضہ تیار کر نے کا اصل مقصد جواہر کی شخصیت اور معتبریت کو مسمار کرنا ہے۔صرف دس سال قبل یہی لوگ بھیم راؤ کو کیا کیا برا بھلا نہیں کہا کرتے تھے ۔آج وہی لوگ خود کو انکے پرستار میں شمار کرنے کا ڈھونگ کر رہے ہیں۔
میری (چتر بنیا کی )ایک بات نوٹ کر لیجئے۔ جب جواہر سے انکا من بھر جائے گا، پھریہ لوگ مجھے اپنا شکار بنائیں گے۔
(ہریش کھرے دی ٹریبیون کے ایڈیٹر ان چیف ہیں- سید کاشف پنجاب اینڈ ہریانہ ہائی کورٹ میں مترجم ہیں۔)
Categories: ادبستان