کیا مودی سپر مین ہیں ،جن سے سوال نہیں کیا جاسکتا؟
جمہوریت کے چوتھے ستون کے ممبروں سے اقتدار میں بیٹھے لوگوں کے ساتھ یاری گانٹھنے کی امید نہیں کی جاتی۔ ان سے یہ امید بھی نہیں کی جاتی کہ وہ وزیر اعظم کو دلاسا دیتے رہیں کہ ‘ آل از ویل ‘ یعنی سب کچھ اچھا ہے۔ لیکن، پھر بھی کئی صحافیوں کے اس راستے پر چلنے کا امکان ہمیشہ بنا رہتا ہے۔مودی سے دوستانہ تعلق رکھنے والے کچھ صحافیوں نے پچھلے کچھ وقت سے یہ دلیل دینی شروع کی ہے کہ ‘اعتدال پسند ‘ صحافت وزیر اعظم کو شخصی طور پر نشانہ بناتا ہے۔ایک ایسی حکومت جووزیر اعظم کے اردگرد سمٹی ہوایسا ہونا لازمی ہے۔ اس میں کچھ بھی غیرمعمولی نہیں ہے۔
صحافت کا وجود ہی سوال پوچھنے اور اقتدار میں بیٹھے لوگوں کی جوابدہی طے کرنے کے لئے ہے۔ صحافت میں اس کے علاوہ سب کچھ صرف عوامی رابطہ کی قواعد ہے۔ حکومت اپنی کامیابیوں کا ڈھنڈورا پیٹنے کے لئے پورے صفحے کا اشتہار دینے کے لئے تو آزاد ہے ہی۔لیکن، ایسا لگتا ہے کہ اب ہم ایک نئے ہندوستان میں رہ رہے ہیں، جہاں محض ساڑھے تین سالوں میں پریس اور حکومت کی ذمہ داری میں اتنی حیرت انگیز رفتار سے تبدیلی آئی ہے کہ جمہوریت میں چوتھے ستون کی ضرورت پر خود میڈیا کے ذریعے ہی سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ذرا درج ذیل حقائق پر غور کیجئے؛مودی کی پہچان’بات چیت میں ماہر ‘رہنما کی ہے، لیکن 26 مئی، 2014 کو کرسی پر بیٹھنے کے بعد سے اب تک انہوں نے ایک بھی پریس کانفرنس نہیں کیا ہے۔ کسی جمہوریت کے وزیر اعظم کے ذریعے پریس کانفرنس کرنا آزاد صحافت پر (جس کو موجودہ حکومت سیکولرس اور پریسٹیٹیوٹس کہہکر پکارتی ہے) کیا جانے والا احسان نہیں ہے، بلکہ حکومت کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔
اقتدار سے سوال پوچھنا آزاد پریس کا حق ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے مودی کا م معزز بزرگوں کی طرح یک طرفہ بات چیت اور ریڈیو پر نشر ہونے والا ان کاپروگرام، اصل میں جمہوریت اور آزاد پریس کے کردار کے تئیں کمتر اور بےعزتی کے تاثر کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کو حد سے حد سوالوں سے بچنے کا اصول کہا جا سکتا ہے۔یہاں تک کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بھی، مین اسٹریم میڈیا کے تئیں جن کی نفرت کے بارے میں سب کو پتا ہے، وائٹ ہاؤس (امریکی صدر رہائش گاہ) میں باقاعدہ پریس کانفرنس کی روایت کو ختم نہیں کیا ہے۔
جمہوری دنیا میں مودی اکیلے ایسے رہنما ہیں، جنہوں نے سوال پوچھے جانے کی روایت کو انگوٹھا دکھا دیا ہے۔ انہوں نے وزیر اعظم دفتر میں پریس صلاح کار تک کی تقرری نہیں کی ہے، جبکہ اس کی روایت رہی ہے۔ان سے پہلے بی جے پی کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے بھی اس پر عمل کیا تھا۔مودی نے غیرملکی دوروں کے وقت وزیر اعظم کے ہوائی جہاز میں صحافیوں کو ساتھ لے جانے کی روایت کو بھی ختم کر دیا۔ قدامت پسند بھکتوں نے اس فیصلے کا دل کھولکر استقبال کیا اور اس کو صحافیوں کو ملنے والی ‘ خیرات ‘ کو بند کرنے والا قدم قرار دیا۔ لیکن، ان کو صحیح جانکاری نہیں تھی، کیونکہ مختلف میڈیا گھرانوں کی نمائندگی کرنے والے صحافی دوسرے ملکوں میں اپنے ٹھہرنے کا خرچ خود اٹھاتے تھے۔
وہ صرف وزیر اعظم کے جنبو ایئرکرافٹ پر ان کے ساتھ مفت میں سفر کیا کرتے تھے، جس میں ضرورت سے زیادہ خالی جگہ ہوتی ہے اور وزیر اعظم بھی ٹیکس دہندہ کے پیسے سے ہی اس میں سفر کرتے ہیں۔ وزیر اعظم کے ہم سفر ہونے سے صحافیوں اور مدیر کو وزیر اعظم سے سوال پوچھنے کا موقع ملتا تھا۔یہاں تک کہ مودی سے قبل منموہن سنگھ بھی، مودی جن کا مذاق ‘ مون موہن سنگھ ‘ کہہکر اڑایا کرتے تھے، سفر سے لوٹتے ہوئے ہوائی جہاز میں صحافیوں کے ساتھ پریس کانفرنس کیا کرتے تھے۔ اس میں وہ صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیا کرتے تھے۔ یہ سوال پہلے سے طے یا چنے ہوئے نہیں ہوتے تھے۔
منموہن سنگھ نے اپنی حکومت مین کم سے کم تین بڑا پریس کانفرنس کیا، جس میں کوئی بھی شرکت کر سکتا تھا۔ یہ لوٹیئن کے علاقے میں صحافیوں کے خصوصی اختیارات والا داخلہ نہیں تھا، جس کے بارے میں بھکت لوگ بات کرتے نہیں تھکتے ہیں۔ اس کی جگہ یہ صحافیوں کے لئے وہ تھا جس میں وہ قومی مفاد کے مسائل پر وزیر اعظم سے براہ راست اہم سوال پوچھ سکتے تھے۔
امریکی صدر بھی غیرملکی دوروں کے دوران اپنے ساتھ میڈیا کو لےکر جاتے ہیں اور ضروری سوال پوچھنے کے اس مواقع کو صحافیوں کے لحاظ سے کافی معمولی سی چیز مانا جاتا ہے۔یہ بات کسی سے چھپی نہیں ہے کہ مودی کو آزاد پریس بالکل برداشت نہیں ہے۔ اور ان کی یہ عادت آج کی نہیں ہے۔ اس کی تاریخ 2002 کے گجرات فسادات سے ہی شروع ہوتی ہے۔اپنی بات کہنے کے لئے سوشل میڈیا کا استعمال کرکے انہوں نے بات چیت کے روایتی ذرائع کو درگزر کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن، جو بات گجرات کے وزیراعلیٰ کے طور پر چل گئی ہو، ضروری نہیں ہے کہ وہی ہندوستان کے وزیر اعظم کے لئے بھی لاگو ہو۔
ایکٹیوسٹوں کی طرف سے لگاتار یہ شکایت آ رہی ہے کہ آر ٹی آئی ایکٹ کو غیرموثر بنا دیا گیا ہے اور اس کے تحت جمع کی جانے والی درخواست پتھر کی دیوار سے ٹکراکر لوٹ رہی ہیں۔میڈیا کو دور رکھنے کی مودی کی عادت ان کے کیبنیٹ تک بھی رسکر پہنچ گئی ہے۔ ان کے کیبنیٹ والے بھی یا تو اپنی باری آئے بغیر نہیں بولتے یا بالکل ہی بولنے سے ڈرتے ہیں۔گزشتہ سال نومبر میں دائر کی گئی ایک آر ٹی آئی عرضی سے یہ بات سامنے آئی کہ مرکزی حکومت نے مودی کی تصویر والے اشتہارات پر1100کروڑ روپے خرچ کئے ہیں۔ یہ معلومات وزارت اطلاعات و نشریات کی طرف سے مہیّا کرائی گئی تھیں اور اس میں ہورڈنگس، پوسٹروں، کتابچوں اور پرنٹ اشتہارات کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔
اب جبکہ ان کے دور اقتدار میں محض 18 مہینے بچے ہوئے ہیں اور آنے والے مہینوں میں کئی اسمبلی انتخابات بھی ہیں، ہم ‘ برانڈ مودی ‘پر سرکاری خرچکےکم سے کم تین گنا ہونے کی امید کر سکتے ہیں۔بھلے میڈیا کو اپنا مخالف مانکر دور دھکیل دیا گیا ہے، لیکن چیئرلیڈرس پر خوب نظر عنایت کی گئی ہے۔ مودی نے گزشتہ سال ریلائنس انڈسٹریز کی ملکیت والے سی این این-18 کو ایک انٹرویو دیا تھا، جہاں ان سے دوستانہ سوال پوچھے گئے۔انہوں نے خوب تفصیل سے ان کا جواب دیا، جو کافی بیزارکن تھا۔ اینکر اپنے سامنے بیٹھے آدمی کے عظیم ہونے کے احساس سے اتنا متاثر تھا کہ مودی نے اس کی مدد کرتے ہوئے خود سوال بھی پوچھنا شروع کر دیا۔
دلچسپ یہ ہے کہ اسی دن ریلائنس جیو کو لانچ کیا گیا تھا اور اخباروں کے پہلے صفحے پر مودی ریلائنس گروپ کے برانڈ ایمبیسڈر بنکر، وہ بھی برانڈ کے رنگ کا ہی جیکیٹ پہنکر، نمودار ہوئے تھے۔ (حالانکہ، بعد میں حکومت نے یہ دعویٰ کیا کہ کمپنی نے وزیر اعظم کے فوٹوگراف کا استعمال کرنے کی اجازت نہیں لی تھی)۔ “اسی شام یہ انٹرویو بھی نشر کیا گیا، جس میں مودی ٹھیک وہی جیکیٹ پہنے ہوئے دکھائی دیے، جو ایک طرح سے برانڈ کے اشتہار کا احساس دے رہا تھا۔اب جبکہ امریکی میڈیا نے ایک ساتھ مل کر ٹرمپ کی جوابدہی طے کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ہندوستانی میڈیا کا ایک حصہ، جس کو خوب بخششیں اور معاوضوں سے لاد دیا گیا ہے، مودی کا بھونپو بنکر ابھرا ہے۔اس لئے دی وائر نے وزارت خزانہ میں شاید غیرملکی پوسٹنگ کی دلالی کرنے کے معاملے میں، جن مدیر وں کے ناموں کو اجاگر کیا تھا، وہ آج بھی اپنے عہدوں پر شان سے بنے ہوئے ہیں۔ کسی بھی دوسرے وقت میں یہ برخاست کئے جانے لائق جرم مانا جاتا اور مدیر کا کیریئر ختم ہو گیا ہوتا۔ دوسرے چینل بھی سرکاری ڈھولک بجانے میں لگے ہوئے ہیں۔
حال ہی میں حالات اتنے بگڑ گئے کہ انڈیا ٹی وی کے ہیمنت شرما کو، جس کے بیٹے کی شادی میں نریندر مودی اور امت شاہ دونوں شامل ہوئے تھے، چینل کے ذریعے راستہ ناپ لینے کے لئے کہنا پڑا۔ایسا سی بی آئی کی طرف سے یہ اشارہ ملنے کے بعد کیا گیا کہ وہ میڈیکل سیٹ گھوٹالے میں ان سے پوچھ تاچھ کر سکتی ہے۔ بی جے پی کے قریبی مانے جانے والے رجت شرما، جو اس چینل کے مالک اور مدیر ہیں، نے کہا کہ ‘وہ اور ان کا چینل بد عنوانی کو لےکر زیرو ٹالرینس کی پالیسی رکھتے ہیں۔ ‘حکومت کی خراب کارکردگی اور یہاں تک کہ امت شاہ کی جائیداد کے بارے میں خبروں کو بڑے میڈیا گھرانوں کے ذریعے چپ چاپ گرا دیا جاتا ہے اور اس کی وجہ تک نہیں بتائی جاتی۔ حال ہی میں ایسا تب دیکھنے میں آیا جب شاہ نے گجرات سے راجیہ سبھا کا پرچہ بھرا تھا۔ (اور ان کے حلف نامہ سے ان کی جائیداد میں بھاری اضافہ کی بات اجاگر ہوئی تھی)
حکومت کے وزیر بامستقل پروپگینڈا ویب سائٹ پر آنے والی فرضی خبروں کو ٹوئیٹ اور ری ٹوئیٹ کر رہے ہیں۔ یہ ویب سائٹ مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد ککرمتّے کی طرح اگ آئے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ان سائٹوں کی فنڈنگ حکومت کے کارپوریٹ مددگاروں کی طرف سے ہو رہی ہے اور اس میں شفافیت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ان کے ہینڈلوں کو اکثر خود وزیر اعظم اور مرکزی وزیر فالو کر رہے ہیں۔ایک سینئر وزیر کا کہنا ہے، ‘یہ ہماری آئی ٹی سیل سے منسلک پرانے ٹرالوں کے لئے ایک اچھی صنعت بنکر ابھری ہے۔ ہم نے ان کو مرکزی وزیر کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کو دیکھنےکی نوکری دی ہے یا پروپگینڈا ویب سائٹوں میں ان کو روزگار دیا ہے۔ ان کی خبریں براہ راست ہمارے وہاٹس ایپ گروپس کو بھیجی جاتی ہیں۔ ہمارے پیغام کو آگے بڑھانے میں یہ حیرت انگیز کردار نبھا رہے ہیں۔ ‘
مودی کی حمایت میں کھڑے صحافیوں کو کئی کئی کالم، راجیہ سبھا سیٹیں اور اچھی کمپنیوں کے بورڈکی رکنیت دی گئی ہے۔ مثال کے لئے، صدر رام ناتھ کووند کے موجودہ پریس صلاح کار کو اس سے پہلے وزارت خزانہ کے ذریعے انڈیا ٹوبیکو کمپنی کے بورڈ میں آزاد ڈائرکٹر کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔یا پھر سوپن داس گپتا کی مثال دیکھیے، جن کو بطور مصنف راجیہ سبھا میں نامزد کیا گیا ہے۔ راجیہ سبھا میں جانے سے پہلے داس گپتا کو وزارت خزانہ نے لارسن اینڈ ٹوبرو کے بورڈ میں نامزد کیا تھا۔ایسے میں جبکہ صحافی اپنے آقاؤں کی طرف سے بولنے کے لئے کسی بھی سطح تک جانے کے لئے تیار ہیں، میں اوپن میگزین میں دی ہندو کے سابق اوپینین ایڈیٹر کے ایک مضمون کو دیکھکر حیرت میں پڑ گئی تھی، جنہوں نے ‘مودی سے نفرت کرنے والے صحافیوں(مودی ہیٹرس ان میڈیا) ‘ کے تئیں اپنے غصے کا اظہار کیا تھا۔ کیا واقعی؟ کیا مودی سے سوال پوچھنا گناہ ہے، جیسا کہ وہ تحریر تاثر دیتی دکھائی دے رہی ہے؟
میڈیا میں ہمارے جیسے سبھی لوگ اپنے فرائض کو نبھانے میں ناکام رہیںگے اگر ہم یہ فیصلہ کر لیں کہ مودی سوالوں سے پرے ایک کوئی سپرمین ہیں۔اور اصل میں خود کو اس بینڈ باجا والے میں نہیں بدل دینا چاہیے، جو یہ مکّار دلیل دیتے ہیں کہ مودی کو ‘ نشانہ ‘ نہیں بنانا چاہیے۔ایک ایسی حکومت کے لئے جو زیادہ تر وقت ون مین شو نظر آتی ہے، میڈیا کو کسی اور سے نہیں، صرف مودی کو سوالوں کے کٹگہرے میں کھڑا کرنا چاہئیے۔
(سواتی چترویدی آزاد صحافی ہیں ۔’ آئی ایم اے ٹرول : انسائڈ دی سیکریٹ ڈیجیٹل آرمی آف دی بی جے پی ‘ ان کی کتاب ہے)
Categories: فکر و نظر