ان کو ‘وہ جو شاعری کا سبب ہوا’کے لیے پدم شری کے اعزاز سے نوازا گیا ۔یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے اس اعزاز کو اپنے زخم کے کریدے جانے سے تعبیر کیا اور راشٹر پتی بھون سے بلاوے کے بعد بھی وہ یہ اعزاز لینے نہیں گئے۔
کلیم عاجزآج ہی کے دن پیدا ہوئے۔95سال کی عمر پائی۔باکما ل شاعراورصاحب اسلوب نثر نگارتھے ۔ ان کی شاعری کے بارے میں فراق گورکھپوری نے کہا تھا ؛
”میں اپنی زندگی کی اہم خوش قسمتی سمجھتا ہوں کہ مجھے جناب کلیم عاجز صاحب کا کلام خود ان کے منھ سے سننے کے موقعے ملے۔ اب تک لوگوں کی شاعری پڑھ کر یا سن کر پسندیدگی اور کبھی کبھی قدر شناسی کے جذبات میرے اندر پیدا ہوتے رہے۔ لیکن جب میں نے کلیم عاجز صاحب کا کلام سنا تو شاعر اور اس کے کلام پر مجھے ٹوٹ کر پیار آیا۔ ہم آہنگی، محبت اور نا قابل برداشت خوشی کے جذبات میرے اندر پیدا ہو گئے۔ ان کا کلام مجھے اتنا پسند آیا کہ مجھے تکلیف سی ہونے لگی اور کلیم عاجز صاحب پر غصہ آنے لگا کہ یہ کیوں اتنا اچھا کہتے ہیں۔ ان کے اس جرم اور قصور کے لئے میں انہیں کبھی معاف نہیں کر سکتا۔ اتنی دھلی زبان، یہ گھلاوٹ، لب و لہجہ کا یہ جادو جو صرف انتہائی خلوص سے پیدا ہو سکتا ہے اس سے پہلے مجھے کبھی اس موجودہ صدی میں دیکھنے یا سننے کو نہیں ملا تھا۔ میں ان کا کلام سن کر خود اپنا کلام بھول گیا“۔
کلیم عاجز نے ایک درجن سے زائد کتابیں تحریر کیں۔ان کو ‘وہ جو شاعری کا سبب ہوا’کے لیے پدم شری کے اعزاز سے نوازا گیا ۔یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے اس اعزاز کو اپنے زخم کے کریدے جانے سے تعبیر کیا اور راشٹر پتی بھون سے بلاوے کے بعد بھی وہ یہ اعزاز لینے نہیں گئے۔
ان کی زندگی میں بہت گہرے دکھ شامل تھے ۔پہلےوالد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا،پھربھائی دار فانی سے کوچ کر گئے،اور سب سے المناک واقعہ 1946کا فرقہ وارانہ فساد ہے جس میں ان کا خاندان ہلاک ہوگیا۔اس المناک حادثے کی کہانی ’’وہ جو شاعری کا سبب ہوا‘‘میں انہوں نے بیان کی ہے۔
کلیم عاجز نے اپنی شاعری کے بارے میں لکھا ہے ؛
”میری شاعری کی غمگینی، الم آفرینی، اس میں لہجہ کا جو دھیما پن ہے، اس میں جو نازک نازک سے آبگینے کے پگھلنے کی کیفیت ہے اس میں جو نرم نرم پھپھولوں کے پھوٹنے کا آہنگ ہے، اس میں جو زخموں کے رسنے کی سرسراہٹ ہے، یہ مریضانہ پن نہیں ہے۔ ان میں صحت مندی ہے۔ ان میں جینے اور جلانے کا وہ حوصلہ ہے جو بڑی بڑی للکار والی شاعری میں بھی نظر نہیں آتی۔“(وہ جو شاعری کا سبب ہوا)
کلیم عاجز نےاپنی غزلوں میں سیاسی حالات پر بھی تبصرہ کیا ہے ،حالاں کہ وہ کسی بھی سیاسی عقیدے میں یقین نہیں رکھتے تھے۔1972میں بنگلہ دیش کے قیام کے وقت ان کا یہ شعر بہت مشہور ہواتھا؛
اب انسانوں کی بستی کا یہ عالم ہے کہ مت پوچھو
لگے ہے آگ اک گھر میں تو ہمسایہ ہوا دے ہے
اسی طرح جب ملک میں ایمر جنسی نافذ کی گئی تھی۔بولنے کی آزادی نہیں تھی ۔پریس پر پابندیاں عائد تھیں ،اس وقت سابق ویزر اعظم آنجہانی اندرا گاندھی کومخاظب کر کے کلیم عاجز نے لال قلعہ کی فصیل سے یہ اشعارپڑھے تھے؛
میرے ہی لہو پر گزر اوقات کرو ہو
مجھ سے ہی امیروں کی طرح بات کرو ہو
دن ایک ستم ایک ستم رات کرو ہو
وہ دوست ہو دشمن کو بھی تم مات کرو ہو
ہم خاک نشیں تم سخن آرائے سر بام
پاس آ کے ملو دور سے کیا بات کرو ہو
ہم کو جو ملا ہے وہ تمہیں سے تو ملا ہے
ہم اور بھلا دیں تمہیں کیا بات کرو ہو
یوں تو کبھی منہ پھیر کے دیکھو بھی نہیں ہو
جب وقت پڑے ہے تو مدارات کرو ہو
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
بکنے بھی دو عاجزؔ کو جو بولے ہے بکے ہے
دیوانہ ہے دیوانے سے کیا بات کرو ہو
کہیں کہیں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ انہوں نے اس وقت آنجہانی اندراگاندھی کے سامنے یہ شعر بھی پڑھا تھا؛یہ شہسوار وقت ہیں اتنا نشے میں چور/ گر جائیں گے اگر یہ اتارے نہ جائیں گے
عام طور سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ وہ میر ؔکے جانشیں ہیں ،اس بارے میں ان کا کہنا ہے ؛ میرؔ سے کسی قدر جو مشابہت ہے ،یہ مشابہت فن سے نہیں،زندگی سے آئی ہے ۔’یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان کے پسندیدہ شاعرغالبؔ تھے۔ان کے غزلیہ لہجہ کی خاص پہچان میں جن لفظیات کا ذکر کیا جاتا ہے ،وہ بہارکی زبان مگہی کا اثر ہے۔آﺅ ہو، جاﺅ ہو، کہو ہو، کرو ہو، سنو ہووغیرہ اسی مقامیت کی دین ہے ،جن کو انہوں نے اپنی غزل میں آرٹ بنادیا۔
Categories: ادبستان