سرسید احمد خان کے دو سو سالہ جشن ولادت کی مناسبت سے بھی کچھ کتابیں اور رسالے حالیہ دنوں میں شائع ہوئے ہیں جن میں سہ ماہی ’فکر و نظر‘ علی گڑھ کا سرسید نمبر اور راحت ابرار کی کتاب ’سرسید احمد خاں اور ان کے معاصرین‘ قابل ذکر ہیں۔
سرسید احمد خاں(پ: 17اکتوبر 1817 و: 28مارچ 1898)کے تعلیمی، مذہبی، سیاسی اور سماجی افکار اور علمی امتیازات سے دنیا کا ایک بڑا حصہ واقف ہے۔ انگریزی، فرانسیسی، عربی اور فارسی جیسی بڑی زبانوں میں بھی ان کے تعلق سے تھوڑا بہت مواد موجود ہے۔ ان کا شمار انیسویں صدی کی اہم شخصیتوں میں ہوتا ہے جنھوں نے جدید ہندوستان کی تعمیر و تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ سرسید کے تعلق سے اردو میں بہت سی کتابیں، مقالے اور رسالوں کے خصوصی شمارے شائع ہوچکے ہیں اور آج بھی تفہیم سرسید کا سلسلہ جاری ہے۔ مگر یہ پتہ نہیں کہ ہندوستان کی علاقائی زبانوں ملیالم، تمل، تیلگو، مراٹھی، بنگلہ، کنڑ ،اُڑیہ،گجراتی اور ڈوگری وغیرہ وغیرہ میں سرسید پر کتنا مواد ہے۔ اگر نہیں ہے تواس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
سرسید احمد خان کے دو سو سالہ جشن ولادت کی مناسبت سے بھی کچھ کتابیں اور رسالے حالیہ دنوں میں شائع ہوئے ہیں جن میں سہ ماہی ’فکر و نظر‘ علی گڑھ کا سرسید نمبر اور راحت ابرار کی کتاب ’سرسید احمد خاں اور ان کے معاصرین‘ قابل ذکر ہیں۔
راحت ابرار کو افکار سرسید سے خصوصی شغف ہے اور اس تعلق سے ان کے مضامین ہند و پاک کے رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ انھوں نے اپنی تازہ ترین کتاب میں سرسید کے اہم معاصرین کو اپنا محور و مرکز بنایا ہے۔ انھوں نے اپنی اس کتاب میں کچھ غیرمسلم معاصرین کو بھی شامل کیا ہے۔ ان میں بعض ایسے بھی ہیں جن سے سرسید کے شدید نظریاتی اختلافات بھی رہے ہیں مگر سرسید کے شخصی تعلقات پر ان کا اثر نہیں پڑا۔ یہ سرسید احمد خان کی کشادہ نظری اور وسعتِ ظرفی تھی کہ انھوں نے ان اختلافات کو زیادہ اہمیت نہیں دی اور اپنے ہم عصر دانشوروں کے بارے میں کلماتِ خیر ہی کہتے رہے۔
اس کتاب میں تقریباً 16 معاصرین کا ذکر ہے جن میں گارساں دتاسی، راجہ رام موہن رائے، دادا بھائی نوروجی، سرسریندرناتھ بنرجی، کیشب چندرسین، سوامی دیانند سرسوتی، لالہ لاجپت رائے، راجہ شیوپرساد، بھارتیندوہریش چندر، راجہ شمبھو نرائن، راجہ جے کشن داس، مرزا اسداللہ خاں غالب، اکبر حسین اکبر الہ آبادی، مولانا محمد قاسم نانوتوی، مولانا عبدالحی فرنگی محلی، مرزا غلام احمد قادیانی جیسی اہم شخصیتیں شامل ہیں۔
راحت ابرار نے ان تمام معاصرین کے حوالے سے تفصیلات درج کی ہیں اور ان کے امتیازات سے بھی روشناس کرانے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے انیسویں صدی کے ممتاز فرانسیسی مستشرق گارساں دتاسی کے حوالے سے لکھا ہے کہ انھوں نے ہی سب سے پہلے سرسید کی اہم تصنیف ’آثارالصنادید‘ کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ کیا۔ پیرس یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے منسلک گارساں دتاسی کا علی گڑھ سے گہرا رشتہ تھا۔ انھوں نے سرسید کی سائنٹیفک سوسائٹی کے بارے میں بھی بہت مثبت رائے دی ہے۔
سرسید کے ایک اہم معاصر راجہ رام موہن رائے بھی تھے جنھوں نے سب سے پہلے ستی کی رسم کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ راجہ رام موہن رائے مغلیہ دربار سے وابستہ تھے اور آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کے سفیر بن کر انگلینڈ بھی گئے تھے۔ عربی، فارسی، اردو، انگریزی اور سنسکرت پر اچھی نظر رکھنے والے راجہ رام موہن رائے نے مدرسے میں تعلیم حاصل کی تھی۔ سرسید سے ان کے بڑے گہرے مراسم تھے۔ دونوں میں قدرِ مشترک بات تھی کہ اصلاحی تحریک کے لیے جہاں سرسید نے تہذیب الاخلاق کا سہارا لیا وہیں راجہ رام موہن نے بھی صحافت کو اپنا ذریعہ بنایا۔
دادابھائی نوروجی بہت معروف سیاست داں تھے۔ انگلینڈ کی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہونے والے یہ پہلے ہندوستانی تھے۔ ان کا بھی سرسید سے بہت گہرا رشتہ تھا۔سرسید نے ان کا علی گڑھ ریلوے اسٹیشن پر استقبال کیا تھا۔ باوجودیکہ دادا بھائی نوروجی کانگریس کے صدر تھے اور سرسید کانگریس کے شدید مخالف تھے مگر دادابھائی نوروجی سرسید کو مکمل طور پر محب وطن اور راشٹروادی سمجھتے تھے۔
سرسریندرناتھ بنرجی کلکتہ میں انگریزی ادب کے پروفیسر تھے۔ راشٹرگرو کے نام سے مشہور ہوئے۔ ان کے اور سرسید احمد خان کے درمیان بڑے اچھے روابط تھے۔ سرسید نے انھیں علی گڑھ کے مدرسة العلوم میں مدعو بھی کیا اور بنرجی بھی سرسید کی علمی خدمات کے معترف تھے۔
سرسید کے ایک معاصر کیشب چندرسین بھی تھے جو برہمو سماج کے بانیوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ برٹش حکومت کے وفادار اور برٹش سرکار کو قدرت کا نایاب تحفہ سمجھتے تھے۔ سرسید نے بابو کشیب چندر کی بھی بہت تعریف کی ہے کہ انھوں نے فرسودہ رسوم کی پابندی کو توڑا اور اپنی قوم کی مخالفت سے خو ف زدہ نہیں ہوئے۔ ان کے انتقال پر بھی سرسید نے تعزیتی شذرہ لکھا جس میں ان کی قابل قدر خدمات کو سراہا۔کیشب چندر سین بھی سرسید کو ہندوستان کا جانثار تسلیم کرتے تھے۔
سوامی دیانند سرسوتی سے بھی سرسید کے بڑے گہرے مراسم رہے ہیں جبکہ آریہ سماج کے بانی سوامی دیانند سرسوتی ہی وہ شخصیت تھی جس نے ستیارتھ پرکاش جیسی کتاب تحریر کی جس سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی لیکن سرسید نے ان کی موت پر بھی بہت اچھے کلمات کہے اور انھیں نیک اور درویش صفت آدمی قرار دیا۔
لالہ لاجپت رائے جو پنجاب کیسری کے نام سے معروف تھے۔ ان کے والد عربی فارسی کے معلم تھے اور رسالہ ’تہذیب الاخلاق‘ اور ’علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ‘ کی تحریروں کے شیدائی تھے۔ لالہ لاجپت رائے کے والد منشی رادھا کرشن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنے ایک مولوی استاد کے بلند کردار کو دیکھتے ہوئے اسلام قبول کرلیا تھا۔ وہ باقاعدہ نماز پڑھتے تھے اور روزہ بھی رکھتے تھے۔ لالہ لاجپت رائے کانگریس کی تحریک سے وابستہ تھے لیکن سرسید کے تئیں اچھے خیالات رکھتے تھے۔
راجہ شیوپرساد اردو ، ہندی، سنسکرت اور فارسی کے ممتاز عالم اور دانشور ہی نہیں بلکہ اردو کے ایک اہم شاعر تھے۔ ان کا تخلص وہبی تھا اور ان کا مجموعہ ’کلیاتِ وہبی‘ کے نام سے شائع بھی ہوا ہے۔ سرسید سے ان کے بہت ہی اچھے مراسم تھے۔ یہ اور بات کہ اردو ہندی تنازعے کی وجہ سے دونوں کے درمیان اختلافات بھی تھے۔ سرسید احمد خان نے ورناکولر یونیورسٹی کی جب بات کی تھی تو راجہ شیوپرساد نے ہی اس کی مخالفت کی تھی اور انھوں نے ہی اتہاس تمرناشک جیسی کتاب بھی تحریر کی تھی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسی سے فرقہ پرستی کی بنیاد پڑی اور علاحدگی پسندی کے رجحان کو فروغ ملا۔ شیوپرساد نے آئینہ تاریخ نما کے عنوان سے اس کا اردو ایڈیشن بھی شائع کیا۔ یہ سرسید احمد خان کے بڑے مخالف تھے۔ ہر موقعے پر انھوں نے سرسید کی مخالفت کی مگر جب راجہ شیوپرساد کا انتقال ہوا تو سرسید نے انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں انھیں خراجِ عقیدت پیش کیا اور یہ لکھا کہ ایسے مشہور اور نامی لوگوں کا دنیا سے اٹھ جانا بلاشبہ افسوس و رنج کا مقام ہے۔
بھارتیندوہریش چندر بھی ایک مشہور شخصیت ہیں جنھیں جدید ہندی نثر کا معمار کہا جاتا ہے۔ اردو میں ان کا تخلص ’رسا‘ تھا۔ یہ ہندی ادب کی نہ صرف اہم شخصیت ہیں بلکہ یہ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے قلم کارو ںمیں بھی شامل تھے۔ ان کا ایک مضمون ’ہندوو ¿ں کی قانونی وراثت‘ کے عنوان سے انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں بھی شائع ہوا۔ یہ بھی اردو ہندی تنازعے میں سرسید کے مخالف ہوگئے جبکہ سرسید چاہتے تھے کہ علی گڑھ کالج میں سنسکرت اور ہندی کی تدریس کی خدمات بھارتیندوہریش چندرہی انجام دیں لیکن انھوں نے اس پیشکش کو قبول نہیں کیا۔ راحت ابرار نے ان کے تعلق سے ایک بہت اہم نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جدید ہندی نثر میں سادہ زبان لکھنے کا جو اسلوب اختیار کیا وہ سرسید کی اردو نثر سے تاثر کا نتیجہ تھا۔
راجہ شمبھو نرائن سنگھ سے سرسید کے بہت اچھے مراسم رہے ہیں۔ جب سرسید بنارس میں تھے تو ان سے مراسم اور گہرے ہوگئے۔ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کے سنگ بنیاد کی تقریب میں راجہ شمبھو نرائن بھی موجود تھے اور اس میں انھوں نے مدد بھی کی تھی۔ انھوں نے اپنے والد دیونرائن سنگھ کی یاد میں پندرہ سو روپے کا عطیہ دے کر ایک بورڈنگ ہاؤس بھی بنوایا۔ ایم او کالج کی چہار دیواری پر ان کا نام کندہ ہے۔غازی پور کے اسکول کا سنگ بنیاد بھی راجہ دیونرائن سنگھ نے ہی رکھا تھا۔ سرسید سے ان کا رشتہ آخری وقت تک قائم رہا۔
راجہ جے کشن داس بھی انہی شخصیتوں میں ہیں جو سرسید سے نہ صرف قربت رکھتے تھے بلکہ سرسید کی سائنٹی فک سوسائٹی سے بھی وابستہ رہے۔ انھوں نے بھی سائنٹی فک سوسائٹی کی عمار ت کے لیے عطیہ دیا۔ ان کا نام بھی کتبے میں درج ہے۔ سرسید کو ان سے بڑی محبت تھی۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنے پوتے راس مسعود کی بسم اللہ کی رسم راجہ جے کشن داس کی گود میں بٹھا کر ہی ادا کی۔ اتنی قربت کے باوجود اردو ہندی لسانی تنازعے کو لے کر دونوں میں اختلافات بڑھ گئے تھے۔ خاص طور پر ہنٹر کمیشن میں انھوں نے بھی ہندی والوں کا ہی ساتھ دیا۔ لیکن ان تمام اختلافات کے باوجود راجہ جے کشن داس کے انتقال پر نہ صرف مدرسة العلوم میں ایک دن کا سوگ منایا گیا بلکہ ایم او کالج میں چھٹی کا اعلان بھی کیا گیا۔ انہی کی یاد میں ایک ہاسٹل سلیمان ہال میں تعمیر کیا گیا۔
ان غیرمسلم معاصرین کے علاوہ راحت ابرار نے غالب، اکبر الہ آبادی، مولانا قاسم نانوتوی، مولانا عبدالحی فرنگی محلی، مرزا غلام احمد قادیانی کے تعلق سے بھی کچھ تفصیلات درج کی ہیں۔مرزا اسداللہ خاں غالب سے سرسید کے مراسم بہت اچھے تھے۔ سرسید احمدخان نے جب ’آئین اکبری ‘ ترتیب دی تو غالب سے بھی انھوں نے تقریظ لکھوائی مگر سرسید نے اس تقریظ کو اپنی کتاب میں شامل نہیں کیا۔
اکبر الہ آبادی کا شمار سرسید احمد خان کے مخالفو ںمیں ہوتا ہے۔ انھوں نے مدرسة العلوم کو اپنی تنقید کا نشانہ بھی بنایا مگر علی گڑھ میں اپنے قیام کے دوران اکبر بھی سرسید کے مشن سے متاثر ہوئے اور انھوں نے سرسید کی کوششوں کو سراہا مگر ان کے مغرب زدہ خیالات کو کبھی قبول نہیں کیا۔
مولانا قاسم نانوتوی اور سرسید دونوں ایک ہی استاد مولانا مملوک علی نانوتوی کے شاگرد تھے۔ اس لحاظ سے دونوں میں بڑی قربت تھی مگر سرسید اور مولانا قاسم نانوتوی میں نظریاتی اختلافات تھے۔ اس کے باوجود سرسید مولانا قاسم نانوتوی کی علمی عظمتو ںکے معترف تھے۔ انھوں نے اپنے تعزیتی نوٹ میں لکھا تھا کہ مولوی محمد قاسم اس دنیا میں بے مثل شخص تھے۔
مولانا عبدالحی فرنگی محلی سے بھی سرسید کے اچھے مراسم تھے جبکہ وہ بھی علی گڑھ مدرسے کی مالی معاونت پر سخت تنقید کرتے تھے اور سرسید کے نظریات سے انھیں اختلاف بھی تھا۔ مگر مولانا کے انتقال پر انھو ںنے بہترین خراجِ عقیدت پیش کیا۔
مرزا غلام احمد قادیانی بھی سرسید احمد خان کے ہمعصر تھے لیکن ان کے مذہبی افکار و نظریات سے کبھی متفق نہیں ہوئے۔ ایم او کالج کے لیے انھوں نے بلا اختلافِ مذہب و مسلک چندے کی درخواست کی تھی اور مرزا غلام احمد قادیانی کو بھی اس میں شامل کیا تھا۔ سرسید احمد خان نے ان کے بارے میں لکھا تھا کہ ”ان کے بارے میں زیادہ کد و کاوش فضول ہے“۔ سرسید نے ہمیشہ علم کی قدر کی اس لیے تمام تر نظریاتی اختلافات کے باوجود وہ اہل علم و دانش کی قدر کرتے رہے۔
اس کتاب کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سرسید احمد خان ایک وسیع النظر شخص تھے۔ انھوں نے اپنے مخالفین کی خدمات کے اعتراف میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا جبکہ آج ذرا سے اختلاف کی بنیاد پر لوگ اپنے معاصرین کا ذکر خیر تو کیا ان کے نام و نشان کو بھی مٹانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔
سرسید کے دو سو سالہ جشن ولادت کے موقعے پر راحت ابرار کی یہ کتاب ایک بہترین خراجِ عقیدت ہے۔ شافع قدوائی کے اس خیال سے مکمل اتفاق کیا جاسکتا ہے کہ ”یہ کتاب سرسید شناسی کا ایک نیا باب وا کرتی ہے۔“
(حقانی القاسمی معروف صحافی، ممتاز ادیب اور تنقید نگار ہیں،یک موضوعی کتابی سلسلسہ ‘انداز بیا ں ‘ان کی ادارت میں شائع ہوتا ہے۔بہ شکریہ ماہنامہ اردو دنیا،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ،نئی دہلی)
Categories: ادبستان