دراصل، تاج محل کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش، ہندوستانی تاریخ کو دوبارہ لکھنے کے ہندتووادی منصوبہ کا حصہ ہے۔
ہندوستان، قدرتی خوبصورتی سے بھرپور تو ہے ہی، یہاں انسانی ہاتھوں کے معجزوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے۔ یہ نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا سے سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے رہے ہیں۔ حیرت زدہ کر دینے والی ایسی ہی عمارتوں میں شامل ہے تاج محل، جس کی تعمیر مغل بادشاہ شاہ جہاں نے اپنی پیاری بیوی ممتاز محل کی یاد میں کروایا تھا۔ تاج کو دنیا کے سات عجوبے میں گنا جاتا ہے اور اس کو یونیسکو کے ذریعے عالمی ورثہ کا درجہ دیا گیا ہے۔
مہاکوی رابندرناتھ ٹیگور نے تاج محل کو A tear drop on the cheek of time بتایا تھا۔ تاج محل دیکھنے دنیا بھر سے سیاح آتے رہے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ ہندوستان کا سب سے بڑا دلکش نمونہ ہے۔ لیکن اترپردیش کی یوگی حکومت کو اس سب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ کچھ ہفتے پہلے، اقتدار میں اپنے چھ مہینہ پورے ہونے کے موقع پر یوگی حکومت نے ریاست میں سیاحت سے متعلق ایک کتابچہ شائع کیا۔ اس میں جن سیاحتی مقامات کا تذکرہ کیا گیا تھا، ان میں گورکھ ناتھ پیٹھ، جس کے مُکھیا آدتیہ ناتھ ہیں، سمیت کئی مقام شامل تھے۔ اس کتاب کا فوکس مذہبی سیاحت پر تھا۔
وزیراعلیٰ بننے کے بعد یوگی نے کہا تھا کہ تاج محل، ہندوستانی تہذیب کا حصہ نہیں ہے اور غیر ملکی مہمان کو تاج محل کا نقلی تحفہ نذر کرنے کی روایت ختم ہونی چاہیے۔ اس کی جگہ معزز غیر ملکی مہمانوں کو گیتا یا رامائن کی کاپیاں نذر کی جانی چاہئیں۔ یوگی کے مطابق یہ دونوں کتابیں ہندوستانی تہذیب کی علامت ہیں۔ تاج محل پر اس تنازعے نے یوگی حکومت کے فرقہ وارانہ چہرے کا پردہ فاش کر دیا۔ جب اس معاملے پر حکومت کو میڈیا میں تنقید کا مقابلہ کرنا پڑا تب ایک وزیر نے کہا کہ تاج محل ہندوستانی وراثت کا حصہ ہے لیکن کتابچہ میں اس کا ذکر اس لئے نہیں کیا گیا ہےکہ اس میں صرف ایسے سیاحتی مقام شامل کئے گئے ہیں، جن کی تشہیرو توسیع کئے جانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تاج محل کے لئے حکومت نے الگ سے رقم مختص کی ہے اور آگرہ میں بین الاقوامی ہوائی اڈا بنائے جانے کی تجویز ہے۔
اس معاملے میں بی جے پی حلقے سے کئی الگ الگ طرح کی باتیں کہی جا رہی ہیں۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ تاج ایک ہندو مندر ہے۔ کچھ دیگر کا کہنا ہے کہ وہ کوئی بہت اہم یادگار نہیں ہے ، تو کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ ہندوستان کی غلامی کی علامت ہے۔ بی جے پی رہنما سنگیت سوم نے اس پر جو کہا وہ مسلم بادشاہوں کے ذریعے بنائی گئی عمارتوں کے تعلق میں بی جے پی کے نقطہ نظر کی ترجمانی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا، ” کئی لوگوں نے اس بات پر دکھ کا اظہار کیا کہ ریاستی حکومت کی سیاحت سے متعلق کتابچہ میں سے تاج محل کا نام ہٹا دیا گیا۔ ہم کس تاریخ کی بات کر رہے ہیں؟ کیا اس تاریخ کی، جس میں تاج محل کے تعمیرساز نے اپنے والد کو جیل میں ڈال دیا تھا؟ کیا ہم اس تاریخ کی بات کر رہے ہیں جس میں اس یادگار کے تعمیرساز نے اترپردیش اور ہندوستان سے ہندوؤں کا صفایا کر دیا تھا۔ یہ مایوس کن اور بدقسمتی ہے کہ اس طرح کے مطلق العنان یا جابر حکمراں اب بھی ہماری تاریخ کا حصہ ہیں۔ ” یہاں یہ اہم ہے کہ تاج محل دیکھنے آنے والے سیاحوں کی تعداد میں پچھلے کچھ سالوں سے کمی آ رہی ہے اور تاج محل کو ایک سیاحتی مقام کی شکل میں بڑھاوا دئے جانے کی ضرورت ہے۔
ویڈیو : تاج محل پر سیاست کے متعلق ونود دوا کا تبصرہ
سوال یہ ہے کہ تاج محل کا نام سرکاری کتابچہ سے کیوں ہٹایا گیا۔ یوگی، تاج محل کے بارے میں جو کچھ کہتے آئے ہیں اس سے ایسا لگتا ہے کہ وہ تاج محل کو ناپسند کرتے ہیں۔ تاج محل کی تعمیر ایک ایسے شخص نے کروائی تھی جس کو ہندو مذہب کا نظریہ حملہ آور مانتی ہے۔ ہندوستانی تہذیب کی، گاندھی جیسے وطن پرستوں کے ذریعے پیش کردہ تعریف و توضیح، یوگی اور ہندتوا کے نظریے کے بالکل برعکس ہے۔ بی جے پی اور ہندتووادیوں کے لئے ہندو تہذیب ہی ہندوستانی تہذیب ہے۔
اس سے بھی آگے بڑھکر، کچھ سنگھی اور ہندتووادی کہہ رہے ہیں کہ تاج محل ایک ہندو مندر ہے اور اس کا نام تیجو مہالیہ تھا! یہ دعویٰ تاریخ اور حقائق کی کسوٹی پر کھرا نہیں اترتا۔ شاہ جہاں کے ‘بادشاہنامہ’ سے یہ صاف ہے کہ تاج محل کی تعمیر شاہجہاں نے ہی کروائی تھی۔ ان دنوں ہندوستان آئے ایک یوروپی مہاجر پیٹر منڈی نے لکھا کہ بادشاہ شاہجہاں اپنی پیاری بیوی کی موت سے دکھکے سمندر میں ڈوبے ہوئے ہیں اور ان کی یاد میں ایک شاندار مقبرہ بنوا رہے ہیں۔ فرانسیسی جوہری ٹیورنیر، جو اس وقت ہندوستان میں تھے، نے بھی یہی بات کہی۔ شاہ جہاں کے حساب کتاب کی بہی کھاتوں میں تاج محل کی تعمیر میں ہونے والے خرچ کا ذکر ہے، جس میں سنگ مرمر خریدنے اور مزدوری وغیرہ پر خرچ شامل ہے۔ تاج کو شیومندر بتائے جانے کے دعوےکی واحد بنیاد یہ ہے کہ تاج جس زمین پر بنا ہے اس کو شاہ جہاں نے راجا جےسنگھ سے خریدا تھا۔ یہاں یہ اہم ہے کہ جےسنگھ ویشنوتھے اور کسی ویشنوراجا سے یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ شیو کا مندر بنائےگا۔
دراصل، تاج محل کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش، ہندوستانی تاریخ کو دوبارہ لکھنے کے ہندتووادی منصوبہ کا حصہ ہے۔ اس منصوبہ کے تحت تاریخ کی فرقہ وارانہ وضاحت کی جا رہی ہے اور حقیقتوں کو توڑامروڑا جا رہا ہے۔ دعویٰ تو یہاں تک کیا جا رہا ہے کہ رانا پرتاپ اور اکبر کے درمیان ہوئے ہلدی گھاٹی کی جنگ میں رانا پرتاپ کی جیت ہوئی تھی۔ ہلدی گھاٹی کی جنگ، اقتدار کے لئے لڑی گئی تھی، مذہب کی خاطر نہیں۔ ہم سب کو پتا ہے کہ اکبر اور رانا پرتاپ کے معاونین میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل تھے۔ نہ تو اکبر اسلام کے محافظ تھے اور نہ ہی رانا پرتاپ ہندو مذہب کا پرچم اٹھائے ہوئے تھے۔ وہ دونوں اپنی اپنی سلطنتوں کی توسیع کرنا چاہتے تھے۔
ایسا لگتا ہے کہ تاج محل اور مسلم راجاؤں کے ذریعے بنائی گئیں دیگر عمارتیں، فرقہ وارانہ طاقتوں کی آنکھوں میں کھٹک رہی ہیں۔ اب تک تاج کو ہندو مندر بتائے جانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ اب، جبکہ اس نظریہ میں رچے بسے لوگ اقتدار میں ہیں، تاج محل کو ہندوستانی تاریخ سے مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ہندوستان کی تہذیب میں اس کو کوئی مقام نہ دیا جائے، ایسی کوشش ہو رہی ہے۔ جس طرح ہندتووادیوں نے تاج محل کو اترپردیش سیاحت کے کتابچہ سے غائب کر دیا اسی طرح وہ شاید مسلمانوں کو بھی سماج کے حاشیے پر دھکیل دینا چاہتے ہیں۔ کیا ان لوگوں کا اگلا نشانہ لال قلعہ ہوگا جہاں سے ہندوستان کے وزیر اعظم یومِ آزادی پر تقریر کرتے آئے ہیں؟
تاج محل اور اس طرح کی دوسری تاریخی عمارتیں اور ڈھانچے، ہندوستانی تہذیب کا حصہ ہیں۔ ان کا تحفظ اور فروغ ضروری ہے تاکہ ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کو بڑھاوا دیا جا سکے۔
(مضمون نگار مشہور سماجی کارکن اور مصنف ہیں – )