میرا تجربہ ہے کہ ہندوستانی پولیس سے بڑھ کر کوئی ڈاکو اور جرائم پیشہ نہیں ہوسکتا۔
اردو کے ممتاز شاعر اور ملک کے مایہ ناز قانون داں آنند نرائن ملا آج ہی کے د ن 1901میں رانی کٹرہ ،لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔انہوں نےکانگریس کے امیدوار کے طور پر لوک سبھا کا الیکشن لڑا اور کامیاب بھی ہوئے۔راجیہ سبھا ممبر بھی رہے ۔
بقول آل احمد سرور ؛
تہذیب شائستگی ،انسانیت ،شرافت ،خلوص مروت ،مشرقیت کے ساتھ ایک آفاقیت اگر یکجا دیکھنا ہوتو آنند نرائن ملا کو دیکھ لیجیے۔”
ان کے والد جگت نرائن ملا بھی اپنے زمانے کے مشہور ایڈوکیٹ تھےاور لکھنؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے۔ان کے بھائی کی کتاب جو مسلم لا پر ہے اس کو آج بھی مستند کتاب کا درجہ حاصل ہے۔
ملانے پہلے پہل انگریزی میں شاعری کی ۔1925میں اردو میں پہلی نظم کہی، اس نظم کو اس قدر پذیرائی ملی کہ وہ اردو میں باقاعدہ شاعری کرنے لگے۔یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ اردو انگریزی کے معروف ادیب اور ماہر تعلیم پنڈت منوہر لال زتشی کے مشورے پر انہوں نے اردو میں شعر کہنا شروع کیا۔
ان کی شعر گوئی سے متاثر ہوکر جگر مرادآبادی نے ان کے والد سے ایک بار کہا تھا ؛ آپ اس نوجوان کو عدالت میں نہ لے جائیں ،اردو ادب کا یہ بیش قیمت سرمایہ ہے ،عدالت میں ضائع ہوجائے گا۔”یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے جگر صاحب کی بات نہیں مانی ۔لیکن آنند تو آنند تھے انہوں نے وکالت بھی کی اور شاعری بھی ۔وکالت ایسی کہ 1954میں الہ آباد ہائی کورٹ کے جج ہوگئے ۔دلی میں بھی سپریم کورٹ میں وکالت کی ۔
ملازمت سے سبکدوشی کے وقت انہوں نے کہا تھا؛
جج کی حیثیت سے ملازمت کے دوران میں نے بہت سے ڈاکو اور جرائم پیشہ افراد کو دیکھا ہے لیکن میرا تجربہ ہے کہ ہندوستانی پولیس سے بڑھ کر کوئی ڈاکو اور جرائم پیشہ نہیں ہوسکتا۔”
ان کا یہ جملہ آج بھی لوگوں کی زبان پر ہے کہ ؛ اردو میری مادری زبان ہے ۔میں مذہب چھوڑ سکتا ہو ں اپنی مادری زبا ن نہیں “۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ بات آزادی کے فوراً بعد جے پور کی اردو کانفرنس میں کہی تھی۔
بائرن، کیٹس اور شیلی ان کے پسندیدہ شاعر تھے۔ اقبالؔ ، انیسؔ اور غالبؔ کوانگریزی میں نظم کیا،ان کے ترجمے بہت پسند کئے گئے۔جوئے شیر ، کچھ ذرے کچھ تارے ، میری حدیث عمر گریزاں ، کرب آگہی ، جادۂ ملا ، ان کی معروف کتابیں ہیں ۔جواہر لال نہرو کے مضامین کا ترجمہ بھی کیا ۔ان کے کچھ اشعار ملاحظہ کریں ؛
میں فقط انسان ہوں ہندو مسلماں کچھ نہیں
میرے دل کے درد میں تفریق ایماں کچھ نہیں
ملاؔ بنا دیا ہے اسے بھی محاذ جنگ
اک صلح کا پیام تھی اردو زباں کبھی
عشق میں وہ بھی ایک وقت ہے جب
بے گناہی گناہ ہے پیارے
وہ کون ہیں جنہیں توبہ کی مل گئی فرصت
ہمیں گناہ بھی کرنے کو زندگی کم ہے
آل احمد سرور نے لکھا ہے کہ ؛
’’ غزل کو بہت سے عاشق ملے مگر ملّا انسانیت کے عاشق ہیں۔ انھیں بشر اپنی ساری پستیوں اور عظمتوں کے ساتھ عزیز ہے۔ ملّا کا کمال یہ ہے کہ وہ خوابوں سے عشق کے باوجود حقائق کا احساس رکھتے ہیں اور اپنے گرد و پیش کی فضا کو نظر انداز نہیں کرتے۔”
ملا ممتاز شاعر تو تھے ہی اس کے علاوہ وہ ایک اچھے نثار بھی تھے ،مضامین، ریڈیائی تقاریر، فیچر اور خطبات اس کی مثالیں ہیں ،حالاں کہ انہو ں نے نثر کی طرف توجہ نہیں کی ،لکھتے ہیں ؛
میں نے اپنی نثر نگاری کی طرف کبھی کوئی توجہ نہیں کی۔ شاید غیر شعوری طور پر میں نے ہمیشہ یہ محسوس کیا جیسے یہ صلاحیت مجھ میں نہیں۔ شاعری میں روایات کی بیساکھی مل جاتی ہے آہنگ کے سہارے کام آتے ہیں لیکن نثر لکھنے والے کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونا پڑتا ہے اور ساری مسافت اپنے ہی بل بوتے پر طے کرنا پڑتی ہے۔ نثر نگاری سطحی افسانہ نویسی اور انشائے لطیف کی اور بات ہے اچھی خاصی علمی واقفیت چاہتی ہے ۔‘‘
ان سب کے باوجود ان کی نثر کا اپنا ایک انداز ہے ،جس کو خاص طور سے سردار جعفری کے شعری مجموعہ ”پیراہنِ شر ر” کے مقدمہ کے طور پر ملاحظہ کیا جاسکتا۔
Categories: ادبستان