ساحر بڑا شاعر ہے اس لیے بھی کہ ان کی شاعری میں اقتدار، آئین،سماج اور سیاست سے سوال ہے۔
ساحر کو کسی سند کی ضرورت نہیں کہ ان کے کلام میں ماورائے زماں زندہ رہنے کی بھرپور قوت موجود ہے۔ وجودیاتی یا علمیاتی بیان کی حاجت بھی نہیں کہ ساحر کی شاعری اتنی شفاف، واضح، غیر مبہم ہے کہ براہ راست قاری کے ذہن، ذوق اور ضمیر سے مکالمہ کرتی ہے۔
’تشریحی تنقید‘ کی مہملیت، شاعری کو موت تو دے سکتی ہے ، زندگی نہیں۔ اچھا ہوا کہ ناقدوں نے ساحر پہ کم لکھا اور ساحر کی شاعری تنقید کا بار احسان اٹھانے سے بچ گئی۔ ورنہ یہ شاعری بھی تنقید کی تاریکوں میں بھٹکتی ہوئی دم توڑ دےتی کہ جس تنقید میں ہر ’شب‘ کو ’شب قدر‘ اور ’ہر سنگ‘ کو’ لعل بدخشاں‘ کی حیثیت حاصل ہو، ایسی تنقید کی ہیئت ِممقوت سے ہی تخلیق کو وحشت ہونے لگتی ہے کہ یہ توتخفیف قدر کا باعث ہے۔ہمارے عہد کا عمومی مشاہدہ بھی یہ ہے کہ جن تخلیق کاروں کو نقاد ان فن Establish کرتے ہیں، انہیں منہدم ہونے میں زیادہ مدت نہیں لگتی کہ نقاد کلیہ تو مرتب کرلیتاہے مگر اطلاقات کی صورتیں، معیارات تلاش کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ اس لیےتنقیدی کلیے کی بلند بالا عمارت بہت جلد مسمار ہوجاتی ہے کہ سارے معیار فرضی اور تصوراتی ہوتے ہیں۔
ساحر کو نقاد کی ضرورت ہو بھی تو کیوں؟نقاد عوام کے ذہن سے تخلیق کار یا تخلیق کا رشتہ ہی تو جوڑتا ہے او ریہ کام تو خود ساحر کی شاعری نے کر دکھایا کہ ساحر کی تخلیق کا عوام سے براہ راست ترسیلی رشتہ ہے۔ دونوں کے مابین کوئی دیوار بھی حائل نہیں ۔ ’شعر فہمی، تو خیر ساحر کے قاری کا مسئلہ رہا ہی نہیں اور نہ ہی کسی لفظ یا محاورے کی وجہ سے ان کے ساتھ مہملیت کا معاملہ سامنے آیا ہے کہ ان کے الفاظ اور محاورے گنجلک، پیچیدہ نہیں ہوتے جس کی وجہ سے قاری ان کی شاعری کو ناآشنائی کی وجہ سے اس طرح مہمل قرار دے جیسے ایک مقتدر نقاد نے، ”افسانہ زلف یار سرکر“ کو اس لیے مہمل قرار دیا تھا کہ وہ سرکردن کے محاورے سے ہی ناواقف تھے۔
ساحر کی شاعری کے ساتھ ترسیل کی ناکامی کا المیہ جڑا ہوا نہیں ہے۔ اس کے ثبوت کے لیے ان کے کلیات کا ایک بڑا حصہ پیش کیا جاسکتا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ ساحر نے تلخا بہ تنہائی، دست فرط یاس، پس پردہ تشہیر وفا، رسم القطاع، عہد الفت جیسی تراکیب کا استعمال کیا ہے، ان سے عام قاری کا ذہن ناآشنا ہوتے ہوئے بھی سیاق و سباق کے ذریعہ آہنگ میں اس کے مفہوم کو تلاش کرہی لیتا ہے جیسے امیر خسرو کی زحال مسکیں پہ عام آدمی بھی سردھننے لگتا ہے۔ مگر یہاں ایک سوال ہے کہ کیا ترسیل کی تاثیر یا توانائی ہی شعری عظمت کا معیار ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر سادہ اور سلیس شعر کہنے والا ہر فرد عظیم قرار پائے گا۔
لیکن شاید ایسا نہیں ہے!
شاعرانہ عظمت کی بھی اپنی منطق اور منطقے ہیں گو کہ تنقید اس منطق اور منطقے کو بھی حسب منشا تبدیل کرتی رہتی ہے۔ پھر بھی شاعرانہ عظمت کے معیار کا تعین کیے بغیر بات آگے نہیں بڑھائی جاسکتی، کوئی نہ کوئی معیار تو وضع کرنا ہی ہوگا، چاہے وہ سب کے لیے قابل قبول نہ ہو۔
’عظمت شعر‘ کا ایک معیار تو وہ ہے جو لیوس نے وضع کیا ہے:
”اچھا شاعر وہ ہے جو دوسروں سے زیادہ حیات آشنا اور اپنے زمانہ کا بہتر شعور رکھتا ہو“۔
اور دوسرا ورڈ زورتھ کا ہے جس نے کہا:
”بڑا تخلیق کار وہ ہے جو انسانی احساس کا دائرہ اس طرح وسیع کرکے دکھائے جو پہلے کبھی نہ ہوا ہو“۔
جب کہ محمد حسن عسکری جیسے بیدار ، باخبر فرانسی ادبیات سے آگاہ ناقد نے عظمت شعر کو عرفان حقیقت سے مربوط کرتے ہوئے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ:
”اگر کوئی شعر ادبی معیاروں پر پورا اترتا ہے تو وہ شاعری کے دائرے میں داخل ہے۔ اگر اس کے ساتھ ساتھ یہ شعر عرفان حقیقت میں بھی معاون ہوتا ہے تو عظیم شعر ہے“۔
چوتھی بات شاہ وہاج الدین کی ہے جو زیادہ قرین قیاس لگتی ہے کہ :
”بڑا وہی ہے جس کی تخلیق میں انفس کا عنصر غالب ہو“۔
ان کے خیال میں ”انسان کے پیش نظر معرفت کے لیے صرف دو ہی تعینات ہیں۔ انفس اور آفاق تکمیل اس میں ہے کہ دونوں کی شناخت ایک ساتھ ہو اور انفس کی شناخت کو آفاق کی شناخت پر غلبہ ہو کیوں کہ آفاق جسم ہے اور انفس اس کی روح ہے۔“
ان چاروں اقوال کی روشنی میں ساحر کی شاعری میں عظمتوں کی جستجو کی جائے تو ساحر تخلیق کی راہ میں ایک نشان منزل، کی حیثیت سے سامنے آئیں گے۔
~
پہلا قول ساحر کی عظمت پہ مہر تصدےق ثبت کرتا ہے کہ ساحر حیات آشنا بھی ہیں اور روح عصر سے آگاہ بھی۔ حیات کی کیفیات اور عصر کی تغیرات، تحولات اور ترجیحات سے مکمل آشنائی کے اشارے ان کے اشعار میں ملتے ہیں۔ ان کے یہاں حیات ایک تسلسل میں ہے اور یہ تسلسل ہی حقیقت ہے۔
ہر قدم مرحلہ دار و صلیب آج بھی ہے
جو کبھی تھا وہی انسان کا نصیب آج بھی ہے
نسل در نسل انتظار رہا
قصر ٹوٹے نہ بے نوائی گئی
زندگی کا نصیب کیا کہئے
ایک سیتاتھی جو ستائی گئی
دوسرے فن کاروں کے مقابلے میں ساحر کو زندگی کی حقیقتوں کا ادراک زیادہ ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ساحر نے زندگی کی تفہیم اور اس کے رموز و اسرار کی تعبیر کے باب میں صرف اور صرف اپنی آنکھوں پہ اعتبار کیا ۔ ان کی اپنی نظر نے ہی حیات کے بہت سے راز منکشف کردیے، جو سربستہ تھے۔ زندگی کے مدو جزر، نشیب و فراز کو سمجھنے کے لیے ان کا اپنا الگ زاویہ تھا اور اس انفرادی زاویہ نظر نے انہیں زندگی کے ٹھوس حقائق سے آشنا کیا۔
لے دے کے اپنے پاس فقط ایک نظر تو ہے
کیوں دیکھیں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم
آنکھوں سے بڑی کوئی ترازو نہیں ہوتی
تلتا ہے بشر جس میں وہ میزان ہیں آنکھیں
ساحر کا تصور حیات وسیع ہے مگر کیا محض تصور حیات ہی شعری عظمت کے لیے کافی ہے۔ ممتاز پاکستانی ناقد سلیم احمد کا خیال ہے کہ:
”شاعری کی حقیقی قدر و قیمت کا تعین صرف اس امر سے نہیں ہوتا کہ ہم نے زندگی یا انسان کا کون سا تصور اپنے ذہن میں قائم کیا ہے۔ یہ بات بھی دیکھنے کی ہوتی ہے کہ ہم نے اس تصور کو زندگی کے ٹھوس تجربات سے ٹکرا کر دیکھا ہے یا نہیں“۔
ساحر کا تصور حیات یا رویائے زیست ٹھوس تجربات پر ہی محیط ہے:
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔ ساحر کے تمام تر تصورات، تجربات پر ہی مبنی ہیں اور یہ تجربات ایک حساس فنکار کے ساتھ ساتھ اس انسانی وجود کے ہیں جو صدیوں سے صلیب پہ لٹکا ہوا ہے اور اذیت جس کی تقدیر ہے، تلخیاں جس کے شب و روز کا منظر نامہ ہے۔
ساحر کے تصور اور تجربے میں گہری مماثلت ہے۔ ان کا تصور بھی عظیم ہے اور تجربہ بھی وسیع۔
”شاعر کا تجربہ جتنا گہرا اور ہمہ گیر ہوگا، اتنا ہی زیادہ اس میں متاثر کرنے کی صلاحیت ہوگی“ فیض احمد فیض
مگر پھر ایک سوال ہے کہ کیا تجربے کی گہرائی اور ہمہ گیری، کسی شاعر کو عظیم بناسکتی ہے ۔ وارث علوی کا خیال ہے کہ:
”وہ فن کار جس کے تجربات کا دائرہ وسیع ہو، لازمی طور پر بڑا فن کار نہیں بنتا۔ تجربات کی کثرت اور رنگارنگی کسی فنکار کے فن کی صفت ہوسکتی ہے، قدر نہیں۔ ذاتی تجربات کا دائرہ محدود ہونے کے باوجود فن کار بڑا فن تخلیق کرسکتا ہے“۔
~
قول ثانی بھی ساحر کی تخلیقی عظمت کے حق میں ہے کہ ساحر نے انسانی احساس کے دائرے کو وسیع کیا ہے۔ ساحر کے احساس کا رشتہ مختلف زمانوں اور عوالم سے ہے۔ ماضی، حال اور مستقبل تینوں زمانے ان کے احساس سے مربوط ہیں اور وہ چاروں عوالم جو حقیقت کی منزلیں ہیں، ناسوت ،ملکوت، جبروت اور لاہوت، وہ شعوری یا لاشعوری طور پر ان کے احساس کا حصہ ہیں۔ متحرک اور مضطرب احسا س کی پوری کائنات ان کی تخلیق میں سانس لیتی نظر آتی ہے۔ ان کے معمورہ احساس میں ایک حشر سا برپا ہے۔ ان کی سائکی اور شعور میں تموج و تلاطم ہے۔ اسی لیے وہ آشفتہ شاعر کبھی صبح کے دامن میں عکس شام کی جستجو کرتا ہے، کبھی پردہ شب کو چاک کرنے کی بات کرتا ہے اور کبھی یہ سوچتا ہے کہ :
میری راتو ں کے مقدر میں سحر ہے کہ نہیں
ذہن ہمہ وقت تصادم، کشاکش اور تناﺅ سے گزرتا ہے۔ کہیں خوف اور خواب کا تصادم ہے، کہیں جنگ اور امن، کہیں طبقاتی نظام— کہیں صارفیت، کہیں زرعی اور صنعتی تمدن کی کشمکش۔ ساحرنے متضاد اور متعارض احساسات کو اپنی شاعری میں ڈھالا اور احساس کی غیر مرئی اور غیر متشکل صورتوں سے بھی عوام کو روشناس کرایا۔ وہ احساس جو ذہن کے کسی خلیے میں گردش کرتے رہتے ہیں، مگر انہیں اظہار کی راہ نہیں ملتی۔ ساحر نے اس داخلی احساس کی تمام تر صورتوں کو شاعری کی شکل عطا کی اور یہی شاعر کا منصب ہے۔
”بظاہر شاعر انہیں کچھ نہیں دیتا لیکن بباطن یعنی شعر کے پردے میں ان کی داخلی زندگی کے تمام زخموں کو مندمل کردیتا ہے۔ شاعرانہیں زندگی کا نسخہ دیتا ہے ان کے انتشار کو ہم آہنگی میں بدل دیتا ہے۔ ان کے کرخت تجربوں کو مترنم بنادیتا ہے۔ ان کے ذہن کی دھندلی تصویروں کو واضح کردیتا ہے۔ شاعری میں ہماری زندگی کے گرد آلود تجربے اپنے حقیقی خط و خال سے روشناس ہوتے ہیں۔“ فراق گورکھپوری
ساحر نے بھی دنیا کو بہت کچھ دیا اور اگر کچھ نہ بھی دیا ہو تو خواب ضرور دیے ہیں۔ وہ خواب جو تعمیر کائنات کے لیے ضروری ہیں اور علوے انسانیت کے لیے لازمی۔ ’خواب‘ ساحر کی شاعری کا ’اسم اعظم‘ ہے۔ خواب میں تبدیلی کائنات کی بڑی قوت پنہاں ہوتی ہے۔ خوابو ں کی روشنی سے ہی دنیا کے اندھیرے ختم ہوں گے۔ اگر یہ خواب بھی مرگئے تو کائنات ایک بے کیف، بنجر ویرانے میں تبدیل ہوجائے گی۔
ساحر کو خواب میں پنہاں اور تغیر تبدیلی کی قوت کا بھرپور احساس تھا، اسی لیے خواب کی عظمت و معنویت کو اس طرح روشن کیا:
یہ خواب ہی تو اپنی جوانی کے پاس تھے
یہ خواب ہی تو اپنے عمل کی اساس تھے
یہ خواب مرگئے ہیں تو بے رنگ ہے حیات
یوں ہے کہ جیسے دست تہ سنگ ہے حیات
ساحر کے خواب بھی آفاقی ہیں۔ اقتصادی آزادی، امن انصاف اور مساوات کے خواب— نسل انسانی کی بقا کے خواب اور شاید اسی خواب میں ان کے خیال کی عظمت کا راز بھی پنہاں ہے۔ بقول محمد حسن عسکری:
”خیالات و احساسات کی افادیت جانچنے کے لیے کوئی مجرد اور مطلق معیار کام نہیں دے گا بلکہ ان کا صرف ایک پیمانہ ہے کہ یہ خیالات نسل انسانی کی بقا میں کس حد تک معاون ہوسکتے ہیں؟“
ساحر کی طویل نظم ’پرچھائیاں‘ پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ساحر کے خیالات نسل انسانی کی بقا کے لیے نہایت مفید اور معاون ہیں۔ خود ساحر نے لکھا ہے کہ:
”ہر نوجوان نسل کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ا سے جو دنیا اپنے بزرگوں سے ورثے میں ملی ہے، وہ آئندہ نسلوں کو اس سے بہتراور خوب صورت دنیا دے کر جائے۔ میری یہ نظم اس کوشش کا ادبی روپ ہے۔“
نسل انسانی کی بقاکا شدید احساس نہ ہوتا تو ساحر یوں نہ کہتے:
ہمارا خون امانت ہے نسل نو کے لیے
ہمارے خون پہ لشکر نہ پل سکیں گے کبھی
کہو کہ آج بھی ہم سب اگر خموش رہے
تو اس دمکتے ہوئے خاکداں کی خیر نہیں
جنوں کی ڈھال ہوئی ایٹمی بلاﺅں سے
زمیں کی خیر نہیں، آسماں کی خیر نہیں
گزشتہ جنگ میں گھر ہی جلے مگر اس بار
عجب نہیں کہ یہ تنہائیاں بھی جل جائیں
گزشتہ جنگ میں پیکر جلے مگر اس بار
عجب نہیں کہ یہ پرچھائیاں بھی جل جائیں
اسی خوف نے ساحر کو خواب بننے کے لیے مہمیز کیا:
آﺅ کہ کوئی خواب بنیں، کل کے واسطے
ورنہ یہ رات، آج کے سنگین دور کی
ڈس لے گی جان و دل کو کچھ ایسے کہ جان و دل
تاعمر پھر نہ کوئی حسیں خواب بن سکیں
خوف اور خواب کی کشمکش نے ساحر کی شاعری کو ایک نیا زاویہ عطا کیا ہے او ر یہ بھی ساحر کا ’نشان انفراد‘ ہے۔
~
قول ثالث بھی ساحر کی عظمت کے گراف کو بلند کرتا ہے کیوں کہ ساحر کی شاعری ’ عرفانِ حقیقت‘میں بھی معاون ہے۔ ساحر نے جس طرح حقیقتوں کا عرفان حاصل کیا ہے، ویسا بہت کم شاعروں کو نصیب ہوا ہے۔ ساحر نے حقائق کو متقارب اور متعارض دونوں صورتو ںمیں محسوس کیا ہے کہ یہ کائنات بنیادی طور پر متضادات، متعادیات اور متبائنات کا مجموعہ ہے۔ حقیقتیں بھی متضاد شکلوں میں منکشف ہوتی ہیں۔ ساحر نے حیات و کائنات کی حقیقتوں کی جستجو کی ہے اور پھر متضاد حقیقتوں کے امتزاج سے ایک تصور کو تشکیل کیا ہے۔ ظلمت میں نور، سادگی میں عیاری ، جنگ میں امن، محبت میں نفرت، اور اس طرح کے تنوع و تضاد سے شعری تعبیرات تلاش کی ہیں۔
عرفان حقیقت کا عکس ساحر کی بہت سی نظموں میں ہے اور یہ سچ ہے کہ ساحر کی نگاہ میں حقیقت زیادہ واضح انداز میں روشن ہوئی ہے۔بغیر کسی ابہام و اسہال کے:
علم سولی پہ چڑھاتب کہیں تخمینہ بنا
زہر صدیوں نے پیا تب کہیں نوشینہ بنا
سینکڑوں پاﺅں کٹے تب کہیں اک زینہ بنا
۰۰۰
مرے جہاں میں سمن زار ڈھونڈنے والے
یہاں بہار نہیں آتشیں بگولے میں
دھنک کے رنگ نہیں سرمئی فضاﺅں میں
افق سے تا بہ افق پھانسیوں کے جھولے ہیں
۰۰۰
بنام امن ہیں جنگ و جدل کے منصوبے
بہ شور عدل، تفاوت کے کارخانے ہیں
ساحر نے فلسفہ کی پرپیچ راہوں میں الجھے بغیر حقیقت کا عرفان حاصل کیا اور اسے اپنے شعری احساس و آہنگ میں شامل کرکے ان انسانوں کو حیات و کائنات کے اسرار سے آشنا کیا جن کے لیے ’عرفان حقیقت‘ کی منزل شاید ہی کبھی روشن ہوپاتی۔ ساحر نے حیات و کائنات کی کلیت میں حقیقت کو تلاش کرلیا اور حقیقت بس اتنی سی ہے کہ :
راستہ منزل ہستی کا مہیب آج بھی ہے
ساحر نے نہ صرف منزل ہستی کا راستہ دریافت کیا بلکہ انسانوں کے داخلی مسائل کا حل بھی ڈ ھونڈ نکالا کہ:
”زندگی کے خارجی مسائل کا حل شاعری نہیں لیکن وہ داخلی مسائل کا حل ضرور ہے“— فراق گورکھپوری
ساحر لدھیانوی کی شاعری میں انسانی وجود کو داخلی بحران کی تمام تر شکلوں سے آگاہ کرنے او ران سے نجات دلانے کی کوشش کار فرما ہے۔ اے شریف انسانو! ،خون پھر خون ہے، مگر ظلم کے خلاف، ایسی ہی نظمیں ہیں جن میں ساحر نے انسانیت سے ہم آہنگ ادب کی تشکیل کی ہے اور انفرادیت پر اجتماعیت کو ترجیح دی ہے اور یہی ’اجتماعیت‘ کا انفرادی تصور ان کی تخلیقی عظمت کا ایک اور روشن حوالہ بن جاتا ہے۔
~
چوتھا قول بھی ساحر کو تخلیقی انبوہ میں ایک نوع کا امتیاز عطا کرتا ہے کہ ساحر کی شاعری میں بھی آفاق سے زیادہ انفس کا عنصر غالب ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں اس انسانی روح کی شناخت کی ہے جو حد درجہ مضطرب اور ملہتب ہے۔ انسانی روح کی دریافت کا عمل بہت مشکل ہوتا ہے مگر ساحر نے اس روح تک رسائی حاصل کی اور اس کے اضطرابات اور ہیجانات سے انسان کو روشناس کرایا۔ ’چکلے‘ ایسی ہی ایک نظم ہے جس میں انسانی روح کی کراہ صاف سنائی دیتی ہے۔ ساحر نے ایک ’مجرد جسم‘ کو روح کی آنکھ سے دیکھا ہے اور اپنے روحانی کرب کا اظہار استفہامیہ انداز میں کر کے انسانی ذہن، ضمیر کو بھی جھنجھوڑا ہے۔
یہ پرپیچ گلیاں یہ بے خواب بازار
یہ گمنام راہی یہ سکوں کی جھنکار
یہ عصمت کے سودے یہ سودوں پہ تکرار
ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں؟
تعفن سے پر نیم روشن یہ گلیاں
یہ مسلی ہوئی ادھ کھلی زرد کلیاں
یہ بکتی ہوئی کھوکلی رنگ رلیاں
ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں؟
وہ اجلے دریچوں میں پائل کی چھن چھن
تنفس کی الجھن پہ طبلے کی دھن دھن
یہ بے روح کمروں میں کھانسی کی ٹھَن ٹھَن
ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں؟
”کھانسی کی ٹھَن ٹھَن “بےمار انسانی روح کی علامت ہے۔ اخلاقی روحانی قدروں کا زوال ہوتا ہے تو صرف اور صرف انسانی وجود میں کھانسی کی ٹھَن ٹھَن رہ جاتی ہے اور ساحر کو پورے انسانی معاشرے میں ٹھَن ٹھَن پہ ٹھَن ٹھَن کی آواز سے وحشت ہونے لگتی ہے۔ ساحر نے اس نظم میں اس روح کی تشخیص کی ہے جسے بازار نے جسم محض میں تبدیل کردیا ہے۔
نظم کے ایک ایک بند میں روح کے کرب کی لہر نمایاں ہے۔ جب کہ ایسا بھی نہیں ہے کہ ’چکلے‘ جیسے موضوع پر ساحر کی یہ کوئی بالکل نئی نظم ہو۔ یہ موضوع ادب کے لیے ماءمستعمل ہے مگر ساحر نے اس ’مستعمل‘ میں بھی احساس و اظہار کے امتزاج سے ایک نئی معنویت پیدا کردی ہے۔ کیفی اعظمی کا یہ خیال بھی اس نظم کی انفرادیت کا اعتراف ہی ہے۔
”ساحر نے ثنا خوان تقدیس مشرق کو جس شدت سے ، جس نفرت اور خلوص سے جھنجھوڑا ہے اس کی مثال مجھے دوسرے فن پاروں میں نہیں ملتی۔ چکلے میں ساحر کی غیریت، اس کی روح، اس کے احساس کی تلملاہٹ، بلندی کے انتہائی نقطے پر نظر آتی ہے۔ اس کے لہجے کی مخصوص افسردگی یہاں ایک بے پناہ بہاﺅ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔“
اس موضوع نے اگر ساحر کی روح کو مرتعش نہیں کیا ہوتا تو شاید یہ نظم وجود ہی میں نہ آتی۔ اگر آ بھی جاتی تو اتنی شدت اور تاثیر کے ساتھ نہ آتی۔ ساحر نے ہمیشہ وہی کچھ لکھا ہے جس نے ان کے ذہن، جذبہ کو ہی نہیں بلکہ پورے وجود میں تحریک پیدا کی۔ ساحر کی بےشترنظموں میں ان کی روح کا ارتعاش نظر آتا ہے اور یہ ارتعاش، ان کا نقطہ امتیاز ہے:
لوگ عورت کو فقط جسم سمجھ لیتے ہیں
روح بھی ہوتی ہے اس میں یہ کہاں سوچتے ہیں
روح کیا ہوتی ہے اس سے انہیں مطلب ہی نہیں
وہ تو بس تن کے تقاضوں کا کہا مانتے ہیں
ساحر، انسانی روح کے رمز و ایماسے آگاہ تھے۔ اسی لیے تخلیق کی اصل روح کی عظمت کو منہدم ہوتے ہوئے دیکھنا انہیں گوارہ نہ تھا۔ ’روح‘ کو بازار میں بدلتے دیکھ کر ان کی برگشتگی بڑھ جاتی تھی۔ مرد معاشرے نے جب روح کے حقیقی جوہر کو مسلنے کی مسلسل کوششیں کیں تو ساحر کا غصہ آتش فشاں کی طرح پھوٹ پڑا۔ اس غصہ میں ’روح‘ کی بازدید کا نیک عمل پوشیدہ ہے:
مردوں نے بنائیں جو رسمیں ان کو حق کا فرمان کہا
عورت کے زندہ جلنے کو قربانی اور بلیدان کہا
عصمت کے بدلے روٹی دی اور اس کو بھی احسان کہا
عورت نے جنم دیا مردوں کو، مردوں نے اسے بازار دیا
عورت انسانی روح کی اساس ہے ، اس سے انحراف انسانی کائنا ت کو شدید اخلاقی بحران اور انتشار میں مبتلا کرسکتا ہے۔
ساحر نے اپنی فکر میں انفس، کو اولیت دی ہے اسی لیے ان کے شعروں میں جسم سے زیادہ روح کی بازگشت سنائی دےتی ہے۔
انسانی روح کے زخموں کے احساس نے ساحر کو سراپا التہاب بنادیا تھا، ان کے پورے ذہنی وجود کو ’انگارے‘ میں تبدیل کردیا تھا، اسی لیے انہوں نے انسانی روح کی سا لمیت اور بقا کے لیے آتشیں نظمیں لکھیں، انقلابی شعر کہے اور ہر اس احساس پر کاری ضرب لگائی جس سے انسانوں کی زبونی اور زوال میں اضافہ ہو۔فرقہ وارانہ فسادات اور جنگ میں سب سے زیادہ زخم انسانی روح جھیلتی ہے۔ ساحر نے روح کی گہرائی میں اترکر ہی ایسے شعر کہے ہیں:
طرب زاروں پر کیا بیتی صنم خانوں پہ کیا گزری
دل زندہ ترے مرحوم ارمانوں پہ کیا گزری
زمیں نے خون اگلا آسماں نے آگ برسائی
جب انسانوں کے دل بدلے تو انسانوں پہ کیا گزری
یہ منظر کون سا منظر ہے، پہچانا نہیں جاتا
سیہ خانوں سے کچھ پوچھو شبستانوں پہ کیا گزری
چلو وہ کفر کے گھر سے سلامت آگئے لیکن
خدا کی مملکت میں سوختہ جانوں پہ کیا گزری
ساحر کا ایک ایک شعر دل میں نشتر بن کر چبھتاہے۔ شاعری میں کرب کی وہی ساری کیفیت اتر آئی ہے جس سے فسادات میں لوگ گزرتے رہتے ہیں، اس کیفیت کا انعکاس اس سے بہتر طور پر شاید ممکن نہ ہو۔ پروفیسرنظیر صدیقی کا بھی یہی خیال ہے:
”فسادات پر نظم و نثر دونوں میں بہت کچھ لکھا گیا لیکن ان میں سے بہت کم چیزیں زندہ رہ سکیں یا رہیں گی۔ خود ساحر نے فسادات پر نظمیں اور غزلیں لکھی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ فسادات پر لکھی جانے والی شاعری میں ساحر کی یہ غزل :
طرب زاروں پہ کیا بیتی صنم خانوں پہ کیا گزری
دل زندہ ترے مرحوم ارمانوں پہ کیا گزری
کامیاب ترین غزلوں میں سے ہے اور اس کے چھ شعروں میں ہر شعر جو زبان زد خاص وعام ہے ، بہت ممکن ہے کل بھی زندہ رہے“
ایک اور نظم ہے جس میں انسانی روح کی آواز ہے، لَے ہے، فریاد ہے۔ یہ ایک ایسا تخیل ہے کہ تیرہ و تاریک ذہن میں یہ جنم ہی نہیں لے سکتا، انسانیت سے عاری ذہنوں میں ایسے احساس و آہنگ کے لیے کوئی جگہ ہی نہیں ہوتی۔ نظم کا عنوان ہے ’اے شریف انسانو!‘ اور اس کاآغاز یوں ہوتا ہے:
خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسل آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں
امن عالم کا خون ہے آخر
بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر
روح تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
ٹینگ آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
فتح کاجشن ہو کہ ہار کاسوگ
زندگی میتوں پہ روتی ہے
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
آگ اور خون آج بخشے گی
بھوک اور احتیاج کل دے گی
اس لیے اے شریف انسانو!
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے
آﺅ اس تیرہ بخت دنیا میں
فکر کی روشنی کو عام کریں
امن کو جن سے تقویت پہنچے
ایسی جنگوں کا اہتمام کریں
جنگ وحشت سے بربریت سے
امن، تہذیب و ارتقاءکے لیے
جنگ مرگ آفریں سیاست سے
امن، انسان کی بقاءکے لیے
جنگ، افلاس اور غلامی سے
امن، بہتر نظام کی خاطر
جنگ بھٹکی ہوئی قیادت سے
امن، بے بس عوام کی خاطر
جنگ، سرمائے کے تسلط سے
امن، جمہور کی خوشی کے لیے
جنگ، جنگوں کے فلسفے کے خلاف
امن، پرامن زندگی کے لیے
ساحر کو انسانی روح کا حقیقی عرفان ہے اسی لیے ان کی شاعری روح کی آزادی کا نغمہ ہے۔ وہ ہر اس زنجیر کو توڑ دینا چاہتے تھے جس سے انسانی ذہن، ضمیر اور روح غلام بن جائے۔ان کے اشعار میں اقتصادی، سیاسی، سماجی آزادی اور مساوات کے جذبے ملتے ہیں او ریہ ان کے مخصوص شعری موضوعات ہیں۔ یہ موضوعات بھی ان کی فن کارانہ عظمت کی علامتیں ہیں، مگریہاں پھر ایک سوال ہے کہ کیا صرف ان موضوعات کی وجہ سے کوئی فنکار عظیم بن سکتا ہے۔ پروفیسر وارث علوی کا خیال ہے کہ:
”فنکار اس وجہ سے بڑا فنکار نہیں ہوتا کہ اس نے جنگ، امن، قومی آزادی اور انقلاب جیسے اہم اور شاندار موضوعات پر قلم اٹھایا۔ یہ موضوعات اس کی بڑائی کا تعین نہیں کرتے، فن کار کی بڑائی کا تعین اس کا فن ہی کرسکتا ہے۔“
وارث علوی کے خیال سے اختلاف کریں یا اتفاق مگریہ حقیقت ہے کہ محض موضوع عظمت کا معیار نہیں ہے۔
”موضوع نظم کی قدر و قیمت کا تعین نہیں کرتا بلکہ مواد اور فارم گویا پوری نظم سے نظم کی قدر کا تعین ہوتا ہے۔“ وارث علوی۔
اور یوں بھی موضوعات تو مشترک ہوتے ہیں۔ محض موضوعی اساس پر امتیاز یا انفراد کا تعین آسان عمل نہیں ہے۔ بقول سلیم احمد:
”موضوعات ذرا مجرد سی چیز ہیں اور کئی شاعروں میں مشترک بھی ہوسکتے ہیں۔ موضوعات میں جان تو ان تشبیہوں ، استعاروں اور علامتوں سے آتی ہے، جو موضوع کے ارد گرد صرف ہالہ ہی نہیں بناتے، اسے روشنی بھی دیتے ہیں۔“
سلیم احمد کے اس خیال سے ساحر کی فنکارانہ عظمت کی ایک اور راہ نکلتی ہے۔ اب ساحر کے یہاں استعارات ، علامات اور تشبیہات میں تفرد کی تلاش لازمی ہے کہ اسی سے ساحر کی تخلیقی امتیازات کی سطحیں روشن ہوں گی۔
اس محاذ پر بھی ساحر سرخرو نکلے کہ ان کے یہاں استعارے، علامت اور تشبیہ کی ایک متنوع اور مختلف کائنات روشن ہے۔
عکس مے ہو کہ جلوہ گل ہو
رنگِ رخسار تک نہیں پہنچا
تیرے لہو کی آنچ سے گرمی ہے جسم کی
مے کے ہزار وصف سہی مے میں کچھ نہیں
یہ تری یاد ہے یا میری اذیت کو شی
ایک نشتر سا رگ جاں کے قریب آج بھی ہے
گیسووں کی چھاﺅں میں دل نواز چہرے ہیں
یا حسیں دھندلکوں میں پھول ہیں چناروں کے
عرصہ ہستی میں اب تیشہ زنوں کا دور ہے
رسم چنگیزی اٹھی، توقیر دارائی گئی
موت پائی صلیب پر ہم نے
عمر بن باس میں بتائی گئی
کھلتا ہے ہر ایک غنچہ نو جوش نمو سے
یہ سچ ہے مگر لمس ہوا بھی ہے کوئی چیز
’تشبیہات‘ علامات و استعارات میں جدت و ندرت نے بھی ساحر کی تخلیقی عظمت کو ایک اور نشان عطا کردیا ہے۔ اس لیے یہ بات بلالیت و لعل کہی جاسکتی ہے کہ ساحر ایک عظیم شاعر ہے جس نے فن کے جملہ مطالبات کو پورا کیا اور وہ سارے عناصر کی شاعری میں موجود ہیں، جو کسی فن کار کو عظیم قرار دینے کے لیے ناگزیر ہیں اور وہ سطحیں بھی جو سلیم احمد نے اچھے شعر کے لیے ضروری قرار دی ہیں:
”شاعری میں اچھے شعر کے لیے بیک وقت تین سطحیں ضروری ہیں۔ ایک سطح پر وہ خدا سے انسان کے تعلق کو ظاہر کرتا ہے، دوسری سطح پر کائنات سے انسان کے تعلق کو اور تیسری سطح انسان اور انسان کے تعلق کی ہے۔ اشعار کی بلندی اور پستی کا تعین اس امر سے ہوتا ہے کہ وہ ان تینوں سطحوں میں کس کس تک پہنچتا ہے۔“
ساحر کے یہاں ان تینوں سطحوں میں بلندی کے سارے آثار نظر آتے ہیں۔ ساحر نے خدا، انسان اور کائنات اور انسانوں کے انسان کے تعلق کے اظہار میں تخیل کی نئی بلندیاں طے کی ہیں۔
زمیں بھی تیری ہے، ہم بھی ترے یہ ملکیت کاسوال ہے
یہ قتل و خون کا رواج کیوں ہے یہ رسم جنگ و جدال کیا ہے
قدرت نے تو بخشی تھی ہمیں ایک ہی دھرتی
ہم نے کہیں بھارت کہیں ایران بنایا
۰۰۰
انصاف کا ترازو جو ہاتھ میں اٹھائے
جرموں کو ٹھیک تولے
ایسا نہ ہو کل کا اتہاس کار بولے
مجرم سے بھی زیادہ
منصف نے ظلم ڈھایا
انصاف کا ترازو جو ہاتھ میں اٹھائے
یہ بات یاد رکھے
سب منصفوں کے اوپر
اک او ربھی ہے منصف
۰۰۰
مانا کہ اس زمیں کو نہ گلزار کرسکے
کچھ خار کم تو کرگئے گزرے جدھر سے ہم
آﺅ اس تیرہ بخت دنیا میں
فکر کی روشنی کو عام کریں
امن سے جن کو تقویت پہنچے
ایسی جنگوں کا اہتمام کریں
زمیں نے خون اگلا آسماں نے آگ برسائی
جب انسانوں کے دل بدلے تو انسانوں پہ کیا گزری
ً~
ساحر، اردو شاعری کا پورا آدمی ہے کہ کائنات کے پہلے شاعر آدم و حوا کی طرح اس نے بھی ’باغ بہشت‘ سے نکل کر اذیتوں میں اپنی پناہ تلاش کی تھی اور عوامی بھیڑ میں اپنے کھوئے ہوئے جذبہ و احساس کو دریافت کیا تھا، وہ احساس جو ایک درد مند اور حساس دل میں ہوتا ہے۔ ساحر لوڈھوال کے جاگےردار چودھری فضل محمد ذیل دار (سرمایہ دار والد) کے سایہ عاطفت میں رہتے تو شاید زندگی کے بہت سارے تجربات و حوادث سے محروم رہ جاتے۔ ذہن میں نہ تلخیاں آتیں اور نہ تخلیقی احساس کو اظہار کی راہ ملتی۔ ساحر عیش و عشرت میں ہوتے تو پھر نہ وہ حرف احتجاج بلند کرپاتے او رنہ ہی انسانی دکھ درد کا احساس ہوتا۔ نہ استحصالی معاشرہ کے خلاف بغاوت کرتے۔ ساحر کو تجربوں کی جو بے پناہ دولت ملی، وہ اذیت اور دربدری کا ثمرہ تھی۔ ان کی تخلیق کے حسن میں ’دکھ‘ کی خوبصورتی یا المیہ کی جمالیات بھی شامل ہے۔ دکھ ہی نے ان کا رشتہ عام لوگوں سے جوڑا، مزدوروں، محنت کشوں، طوائفوں کا دکھ بھی اپنے ذاتی دکھ اور مشاہدہ کی ہی توسیع تھی۔ اپنی ذات میں جب پوری کائنات شامل ہوجاتی ہے تو احساس کا دائرہ خود بخود پھیلنے لگتا ہے اور پھر سارے جہاں کا درد، اپنا درد محسوس ہونے لگتا ہے:
مجھے انسانیت کا دردبھی بخشا ہے قدرت نے
مرا مقصد فقط شعلہ نوائی ہو نہیں سکتا
مرے سرکش ترانوں کی حقیقت ہے تو اتنی ہے
کہ جب میں دیکھتا ہوں بھوک کے مارے کسانوں کو
غریبوں مفلسوں کوبے کسوں کو بے سہاروں کو
حکومت کے تشدد کو امارت کے تکبر کو
تو دل تاب نشاط بزم عشرت لا نہیں سکتا
میں چاہوں بھی تو خواب آور ترانے گا نہیں سکتا
یہ سرکشی، تلخی، برگشتگی، دراصل ایک نفسیاتی رد عمل ہے اس سماج کے خلاف جہاں ایک باپ جبر و اقتدار اور ارتکاز قوت کی ایک علامت بن کر ابھرتا ہے اور جو اپنی گیارہویں بیوی، سرداربیگم کوایک پسماندہ طبقہ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے زوجیت کے حقوق سے محروم رکھتا ہے۔ اور اسی لیے ’باپ‘ جس طبقہ اور سماج کا نمائندہ ہے، اس طبقہ سے ساحر کی نفرت بڑھنے لگتی ہے اور اس طبقہ سے محبت ہوجاتی ہے جو ’باپ‘ کے ظلم کا شکار ہوا ہے۔ احمد راہی نے صحیح لکھا ہے کہ:
”ساحر کی زندگی میں ایک محبت ہے ، ایک نفرت
محبت اس نے صرف اپنی ماں سے کی ہے اور نفرت صرف اپنے باپ سے“
محبت اور نفرت کی یہ دونوں علامتیں ساحر کی شاعری میں مختلف شکلوں میں رونما ہوئی ہیں۔ ساحر کی تخلیقی سائکی اور ان کے پورے تخلیقی اور فکری نظام کو صرف ان دونوں علامتوں کے لوازمات اور متعلقات کے آئینے میں ہی سمجھا جاسکتا ہے۔
ساحر کی شاعری ان ہی دونوں علامتوں کی توسیع و تمدید اور تشرےح و تعبیر ہے۔ یہی دونوں علامتیں ساحر کی ذات سے نکل کر کائناتی حقیقت میں تبدیل ہوجاتی ہیں اور ذات و کائنات کی یہی وحدت ساحر کی تخلیقی عظمت کا نقطہ امتیاز بن جاتی ہے اور پورے آدمی کی شاعری کا نشان اختصاص بقول سلیم احمد یہ ہے کہ :
جس کا احساس، جذبہ اور عقل ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے بلکہ ایک وحدت بناتے ہیں اور یہ وحدت اپنے اندر بھی ہم آہنگ ہوتی ہے اور خارجی حقیقت سے بھی ہم آہنگی رکھتی ہے جو خود ایک ہم آہنگ وحدت ہے“۔
احساس، جذبہ اور عقل کی وحدت ساحر کی کئی نظموں میں نمایاں ہے۔ تاج محل ، نورجہاں کے مزار پر اور پرچھائیاں ایسی ہی نظمیں ہیں:
ثبت جس راہ میں ہوں سطوت شاہی کے نشاں
اس پہ الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی؟
میری محبوب پس پردہ تشہیر وفا
تو نے سطوت کے نشانوں کو تو دیکھا ہوتا
مردہ شاہوں کے مقابر سے بہلنے والی
اپنے تاریک مکانوں کو تو دیکھا ہوتا
ان گنت لوگوں نے دنیا میں محبت کی ہے
کون کہتا ہے کہ صادق نہ تھے جذبے ان کے
لیکن ان کے لئے تشہیر کا سامان نہیں
کیوں کہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے
تاج محل
پہلوئے شاہ میں یہ دختر جمہور کی قبر
کتنے گم گشتہ فسانوں کا پتہ دیتی ہے
کتنے خوں ریز حقائق سے اٹھاتی ہے نقاب
کتنی کچلی ہوئی جانوں کا پتہ دیتی ہے
کیسے مغرور شہنشاہوں کی تسکیں کے لیے
سالہا سال حسیناﺅں کے بازار لکھے
کیسے بہکی ہوئی نظروں کے تعیش کے لیے
سرخ محلوں میں جواں جسموں کے انبار لگے
کیسے ہر شاخ سے منہ بند مہکتی کلیاں
نوچ لی جاتی تھےں تزئین حرم کی خاطر
اور مرجھا کے بھی آزاد نہ ہوسکتی تھیں
ظل سبحان کے الفت کے بھرم کی خاطر
نورجہاں کے مزار پر
سورج کے لہو میں لتھڑی ہوئی وہ شام ہے اب تک یاد مجھے
چاہت کے سنہرے خوابوں کا انجام ہے اب تک یاد مجھے
اس شام مجھے معلوم ہوا کھیتوں کی طرح اس دنیا میں
سہمی ہوئی دوشیزاﺅں کی مسکان بھی بیچی جاتی ہے
اس شام مجھے معلوم ہوا، اس کارگہ زرداری میں
دو بھولی بھالی روحوں کی پہچان بھی بیچی جاتی ہے
اس شام مجھے معلوم ہوا جب باپ کی کھیتی چھن جائے
ممتا کے سنہرے خوابوں کی انمول نشانی بکتی ہے
اس شام مجھے معلوم ہوا جب بھائی جنگ میں کام آئیں
سرمائے کے قحبہ خانے میں بہنوں کی جوانی بکتی ہے
پرچھائیاں
ساحر کے یہا ں یہی وحدت مجنوں گورکھپوری جیسے ناقد کو بھی نظر آتی ہے۔
”وہ خارجی عوارض اور داخلی تاثرات کو سلیقے کے ساتھ سموکر ایک آہنگ بنانے کا فن خوب جانتے ہیں۔ ان کے ہر مصرعے میں مادی محرکات و موثرات کے احساس کے ساتھ وہ کیفیت بڑے سلیقے کے ساتھ گھلی ملی ہوتی ہے، جو بے ساختہ داخلی ابھار کے ساتھ پیدا ہوسکتی ہے“۔
اگر یہی وحدت تخلیقی عظمت کی علامت ہے تو ساحر لاریب عظیم شاعر ہیں ، مگر ہماری تنقید کا المیہ یہ ہے کہ یہاں معیار کی منطق تبدیل ہوتی رہتی ہے، اس لیے اب یہی کہنے میں عافیت ہے کہ ساحرتنقیدی تعینات سے ماورا ہیں ۔ استقرائی، تفکری یا تشریعی، یہ تمام تنقیدی طریق کار ساحر کی تعین قدر میں معاون نہیں ہوسکتے۔
ساحر کی تخلیق (فلمی، ادبی) ان کی عظمت کی شہادت کے لیے کافی ہے۔ ان کے تخلیقی تجربے کا تنوع اور اظہار کے نئے وسائل، تکنیک کے نئے ذرائع ہی وافر ثبوت ہیں کہ ساحر لدھیانوی (8مارچ 1921-25اکتوبر 1980)، اپنے عہد کے مختلف منفرد اور عظیم شاعر ہیں جو اپنی ترسیلی قوت کی بنیاد پر براہ راست قاری سے ایک ذہنی اور جذباتی رشتہ قائم کرنے میں کامیاب ہیں، جس کی ایک نمایاں مثال نظم ’پرچھائیاں‘ ہے جو ایسی حکائیہ تکنیک میں ہے کہ کسی بھی اردو شاعر نے نظموں میں یہ استعمال نہیں کی ہے۔ علی سردار جعفری جیسے ممتاز نظم نگار شاعر اور ناقد نے بھی اس نظم کی بیانیہ سادگی میں مخفی قوت کا اعتراف کرتے ہوئے یہ لکھا کہ:
”ہماری بعض بہترین نظمیں عام انسانوں کی سمجھ کی سطح سے بہت اونچی ہیں، لیکن ساحر کی نظم ’پرچھائیاں‘ اپنی سادہ کہانی اور آسان بیانی کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ وسیع حلقوں تک پہنچ سکے گی۔ اس کے نوے فیصدی سے بھی کچھ زیادہ الفاظ ہماری روز مرہ گفتگو کے الفاظ ہیں۔ کلاسکیت اور روایت کے نام پر ساحر نے اپنی نظم کو اجنبی اور غیر مانوس الفاظ سے بوجھل نہیں بنایا ہے۔ ساحر کی کامیابی اس میں ہے کہ اس نے اپنے سادہ اور آسان الفاظ سے اس عہد کی بعض اہم حقیقتوں کو ایسے مصرعوں میں ڈھال دیا ہے جو زبان پر چڑھ بھی جاتے ہیں اور دل پر اثر بھی کرتے ہیں“۔
ساحر کا یہ بھی کمال ہے کہ انہو ں نے نثری اسلوب کو شاعرانہ شدت کے ساتھ پیش کیا ہے اور کہتے ہیں کہ ”اچھی شاعری وہ ہے جو نثر سے زیادہ سے زیادہ قریب ہو لیکن نثری نہ ہو۔“
ساحر نے نثر اور شاعری کے فاصلوں کو بھی کم کیا ہے۔ ان کی نظموں میں جو فکری و لسانی ارتباط و ارتکاز ہے، وہی ان کی نظمیہ شاعری کا حسن ہے۔ ساحر ایک مربوط و منضبط فکر کے حامل ہیں او ریہ صفت ان کی تخلیق میں ہے۔ کوئی تو وجہ ہوگی کہ ساحر کے اکثر مصرعے کسی سماجی، سیاسی مضمون کا موثر اور متحرک عنوان بن جاتے ہیں بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ درجنوں صفحات پر محیط کسی سماجی یا سیاسی مضمون کے مقابلے میں ساحر کی چند نظمیہ سطریں زیادہ اثر انگیز اور معنی خیز ہوتی ہیں۔
ساحر بڑا شاعر ہے اس لیے بھی کہ ان کی شاعری میں اقتدار، آئین، سماج اور سیاست سے سوال ہے۔ او ریہ وہ سوال ہیں جو کائناتی اور انسانی وجود سے ہمیشہ ہی جڑیں گے۔ جب تک کائنات ہے، ان سوالوں کے سلسلے جاری رہیں گے۔
دولت بڑھی تو ملک میں افلاس کیوں بڑھا
خوش حالی عوام کے اسباب کیا ہوئے؟
میرا خیال ہے کہ ان سوالوں کی دوامیت میں بھی ساحر کی فنی عظمت مضمر ہے۔
تنقید کا کوئی بھی زاویہ ہو، ہر میزان پر ساحر کی شاعری کھری اترے گی،ان کا پلڑا ہمیشہ بھاری رہے گا۔ ساحر کا مقام شاعری کے عیشة راضیہ میں متعین ہے۔ اس کے لیے کسی تنقیدی فرمان کی قطعی ضرورت نہیں ہے کہ ہماری تنقید کے لیے تخلیق کاروں کے مدارج و مراتب کا تعین جوئے شیر لانے سے کم نہیں اور یوں بھی خود ساحر کو ایسی تنقید پر اعتبار ہی کہاں تھا۔
مجھ کو اس کا رنج نہیں ہے لوگ مجھے فن کار نہ مانیں
فکر و سخن کے تاجر مرے شعروں کو اشعار نہ مانیں
یہ شعر شاید اسی بے اعتباری اور عدم اعتماد کا مظہر ہے۔ اور ساحر کوتنقید کی طوطا چشمی کا شدت سے احساس تھا کہ انہوں نے خود بھی اپنے زمانے کی آنکھیں اور چہرے دیکھے تھے۔ اور ان آنکھوں اور چہروں کے بدلتے رنگ اور تاثرات بھی، اسی لیے انہیں پہلے ہی سے یہ ادراک تھا کہ:
کل کوئی مجھ کو یاد کرے، کیوں کوئی مجھ کو یاد کرے
مصروف زمانہ میرے لیے کیوں وقت اپنا برباد کرے
یقناً زمانہ مصروف بھی ہے اور لوگوں کو اپنے وقت کی قدر و قیمت کا پہلے سے بھی کہیں زیادہ احساس ہے، پھر بھی عجب بات ہے کہ ساحر کی قرات کا تسلسل قائم ہے جب کہ بہت سے شعرا قرات کے باب میں ’وقفہ موقوف‘ میں ہیں، مگر محض قرات ہی تو مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ ساحر کے مدرکات و مکاشفات کی تعبیر وتفہیم کے لیے نئی قرات کی ضرورت ہے تاکہ ساحر کی تخلیقی کاملیت، حسیت اور معنویت کے نئے باب روشن ہوں اور ساحر کا وہ، مافیہ، اپنی کلیت میں سامنے آئے جو ان کے نظمیہ اسپیس میں پنہاں ہے۔ اور اس ساحر کی تلاش کی جائے جو اپنی تخلیق کی وجہ سے مختلف طبقات، درجات اور ادبیات میں اپنی الگ الگ مساواتوں Equations کے ساتھ زندہ ہے۔ مختلف الخیال طبقات کی یہی مساواتیں ساحر کو ہر عہد میں نئی زندگی او رنئی معنویت عطا کرتی رہیں گی۔
اور یہ تنقید کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہے کہ تنقید تو کسی بھی تخلیق کے سر پر ’تاج زریں‘ رکھ دیتی ہے، مگر ہوتا یہ ہے کہ ایک مدت کے بعد تاج کے ساتھ ساتھ سر بھی غائب ہوجاتے ہیں۔ ساحر کو ایسے تاج سے ویسے بھی وحشت ہے:
کشکول فن اٹھا کے سوئے خسرواں نہ جا
اب دست اختیار جم و کے میں کچھ نہیں
یہاں پر ’خسرواں‘ سے ساحر کی مراد میرے خیال میں شاید ’نقاد‘ ہی ہے مگر میرا خیال بھی تو ’نقد ناقدین‘ کی طرح غلط ہوسکتا ہے۔
(حقانی القاسمی معروف صحافی، ممتاز ادیب اور تنقید نگار ہیں،یک موضوعی کتابی سلسلسہ ‘انداز بیا ں ‘ان کی ادارت میں شائع ہوتا ہے۔)
یہ مضمون پہلی بار 25اکتوبر2017 کوشائع کیا گیا تھا