صلاح بھائی نے شوق گل بوسی میں کانٹوں پہ زباں رکھ دی ہے اورجتنی بھی اذیتیں اورعذاب ہیں،سب اسی وجہ سے ہیں۔فن کارجب دکھ اذیت،عذاب سے گزرتاہے تو اس کی چیخ وکراہ کو کوئی کیوں نہیں سنتا؟
دو ہزارسے پہلے کے صلاح الدین پرویز کونجی حوالے سے میں بالکل نہیں جانتا،ہاں یہ ضرور سنتاتھا کہ وہ ایک متمول اور صاحب ثروت ادیب ہیں۔ سعودی عرب سے انڈیا آتے ہی ان کے علی گڑھ والے گھر میں ہزاروں کی بھیڑ لگ جاتی تھی اور جب وہ باہر نکلتے تھے توایک بڑا سا قافلہ ان کے پیچھے پیچھے چلتاتھا۔
یہ صارفی معاشرت کے محمدصلاح الدین پرویزتھے،جنھیں مادی منفعت کی میزان پر ہر وہ فرد تول رہاتھا،جن کی ان سے توقعات وابستہ تھیں یا جواپنی تمناؤں کی تکمیل کے لیے ان کے استحصال کی سبیلیں تلاش کرتارہتا تھا۔
میری واقفیت صرف اس صلاح الدین پرویز سے ہے جس نے 2000میں ماضی کی علتوں اور علائق سے رشتہ توڑکر تخلیقی روحانیت میں پناہ لے لی تھی۔ اب ایک نئی منزل کی جستجو اور ایک نیاسفردرپیش تھا۔ کچھ نیاکرنے کاجنون اور اس جنون میں مجھے بھی انھوں نے شامل کرلیاتھا۔ گوکہ ان کے پرانے واقف کاروں نے اس جنون سے مجھے خوف زدہ ساکردیاتھا اورمیں اندیشہ ہائے دور دراز میں گرفتار یہی سوچتارہا کہ میں شاخِ نازک پہ آشیانہ بنانے جارہاہوں۔ مگربعد میں صلاح بھائی کے جذبہ ،عمل اور رویے نے وہ شکوک وشبہات اورخدشات رفع کردیے جومیرے ذہن میں نقش کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ تب مجھے محسوس ہوا کہ مادی منفعت کا معاشرہ کبھی کبھی شخصیت اورکردار کومسخ کرکے اپنی محرومیوں کا انتقام لیتاہے اورصلاح الدین پرویز کی منفی تشہیر اسی صارفی ذہنیت کی سازش تھی جس نے ان کی تخلیقی ثروت مندی کے بجائے مادی ثروت کو ان کی شناخت اور شہرت کا بنیادی حوالہ بنادیا۔
صلاح الدین پرویز جیسے خلاق ذہن اردو میں بہت کم ہیں۔ ان کاادراکی افق (Cognitive Horizon)بہت وسیع تھا۔ کامیو، کافکا،کبیر، کرشن، کالی داس، میر تقی میر،میرابائی، رومی،رینے گینونہ جانے کیاکیا انھوں نے پڑھ رکھا تھا۔ سلویاپلاتھ کے تووہ عاشق تھے۔ بود لیئر کے بدی کے پھول میں بھی وہ جانے کیسی کیسی خوشبوئیں تلاش کرلیتے تھے۔عالمی ادبیات نے ہی ان کی آگہی کو عروج بخشاتھا۔ ان کی تخلیق میں عصریت اور عتیقیت کاامتزاج اسی کا کرشمہ ہے۔
صلاح الدین پرویز اسلوب نہیں اسالیب کے شاعرتھے۔ یہ بات محمودہاشمی نے کہی ہے اور یہ سچ ہے کہ ان کا شیوہ بیان،طرزگفتار بہت سے اعتبارات سے معنی خیز ہے۔ لسانی شکست وریخت کا عمل مختلف زبانوں ،بولیوں،لہجوں کا امتزاج،نثرونظم کا نامیاتی، جمالیاتی آہنگ، صنفی امتیازات کا استرداد یہ سب صلاح الدین پرویز کے اسلوبیاتی امتیازات کے نقوش واضح کرتے ہیں۔عربی عجمی شعریات کی اشارت وآہنگ کے آگہی، ہندوستانی سنسکرتی، النکاروں اورشبداولی سے شناسائی نے بھی ان کے اسالیب کو شوکت وجلال اور حسن وجمال عطا کیاہے۔ لسانی خودمختاری اور آزادہ روی کا عمل ان کی بیشتر شاعری میں عیاں ہے:
میں نے ایک لمحے کی تھکن کو بسترپرلٹادیاہے
میرابستر پرانے زمانے کی عورتوں کا بدن ہے
صلاح الدین پرویزکاکسی ازم یاتحریک سے شدت پسندانہ لگاؤ نہیں تھا۔ ان کی گفتگو اور تحریروں سے بھی یہی اندازہ ہوتاہے کہ کسی خاص نظریے کی اسیری انھیں منظور نہیں تھی۔ وہ آزاد اورخودبیں تھے۔ انھیں نظریاتی حصار سے گھٹن محسوس ہوتی تھی اور یوں بھی تخلیق کار جب ایک خاص نظریے میں قید ہوجاتاہے تو حسی اوراظہاری امکانات کے بہت سے دریچے بند ہوجاتے ہیں۔ انھوں نے مابعدجدیدتجربے کیے مگریہ شعوری نہیں ایک لاشعوری عمل تھا۔2000کے بعدجوتخلیقات آئیں ان میں مابعدجدید رویہ حاوی ہے اور اس کی وجہ مابعدجدیدیت کی تفرق آشنائی ، تخلیقی آزادی، بوقلمونی اور کثیرالمعنویت ہے۔ ’دی وار جرنلس‘ میں انھوں نے بین المتونی تجربہ کیا۔ ن م راشدکی نظموں، حسن کوزہ گر اور جہاں زاد کو ڈی کنسٹرکٹ کیاہے۔ مگرردتشکیل کا یہ عمل دریدا کی تھیوری کے زیر اثر نہیں۔ بلکہ ن م راشدکی نظموں سے گہرے تاثر کا نتیجہ ہے۔
یہ بات میں اس لیے کہہ رہاہوں کہ انھوں نے سارتر اورفرائڈ کا باضابطہ بنیادی ماخذ سے مطالعہ توکیاتھا مگر’دریدا‘ کے تعلق سے ان کا مطالعہ اردو کے چندمضامین تک ہی محدود تھا۔ اکثر کسی شخصیت یاتھیوری سے متاثر ہوتے تواسے مکمل طور پر مالہ و ماعلیہ پڑھنے کی کوشش کرتے تھے۔ ’دریدا‘ کے باب میں ایساتجسس میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ اور یوں بھی پرانے متن کی تقلیب وتجدید کے لیے اس ردتشکیل کی آگہی تو ضروری نہیں۔ یہ عمل توزمانہ قدیم سے ہی ہے۔ اس وقت سے ہی جب قرآنی متن کے متبادل ایک اور متن کی تشکیل کی ناکام کوشش کی جارہی تھی اور ویسے بھی ہرتھیوری کے ممکنہ اجزاوعناصر ماضی میں بالقوہ موجود ہوتے ہیں۔ ایک نظریہ ساز انھیں ممکنہ منتشر اجزا کو مربوط کرکے بالفعل ایک نئی شکل دیتاہے۔ ’دریدا‘ نے بھی یہی کیاہوگا۔ مگرحیرت ہوتی ہے کہ مابعدجدیدیت کے مخالفین کہتے ہیں کہ ’دریدا‘ نے ردتشکیل کی تھیوری کا سرقہ حسن بن صباح کی کتاب سے کیاہے۔
بہرحال،صلاح الدین پرویز کا ردتشکیلی تجربہ ان کی فطری تخلیقی جبلت کا ایک حصہ ہے کہ ایک بڑاتخلیقی ذہن اپنی پرواز کے لیے نئے نئے آسمانوں کی جستجو کرتاہے۔ صلاح الدین پرویز نے خودکو شاعری کی کہکشاں میں قید نہیں رکھا بلکہ نئے جہانوں کی جستجو کرتے ہوئے فکشن کے دیارمیں بھی پہنچے اوریہاں بھی اپنی تخلیقی تازگی اورتحرک کے ذریعہ اپنے ہم عصروں کے لیے ایک چیلنج بن گئے۔ اساطیر، دیومالا اورفلسفوں کی نت نئی دنیا خلق کرتے چلے گئے۔نمرتا، سارے دن کا تھکاہواپُرش، ایک دن بیت گیا، آئڈنٹیٹی کارڈ، دی وارجرنلس، ایک ہزاردوراتیں،یہاں بھی انھوں نے اصنافی امتیازات کی سرحدوں کو توڑا اورپرانی ساختوں کی شکست کرکے نئی ہیئتیں وضع کیں۔
صلاح الدین پرویز کے مزاج میں بت شکنی تھی، ان کا ذہن روشنی کی رفتار سے چلتا تھا۔ مگریہ نابغہ ذہن ہمارے عہد کی ناقدری اوربعض ہم عصروں کی naggingکی وجہ سے دھند میں کھوتا چلاگیا اورپھرشاید disorder manic depressive کا شکار بھی ہوگیا۔ ایک حددرجہ حساس انسان جسے چھوٹی چھوٹی بات پر بچوں کی طرح بلکتے، روتے ہوئے میں نے دیکھا ہے۔ وہ ایموشنلی بروکین انسان تھا۔ اسے زمانے نے اتنے زخم دیے اور اتنے ستم کیے کہ ایک ملنسارانسان مردم بیزار ہوگیا۔ اس نے ادیبوں سے بھی حجاب کرلیاکہ اسے ہرادیب منافق لگنے لگا تھا۔ اس کے درد کو کسی نے نہیں سمجھا۔ اس کے کرب کو کسی نے محسوس نہیں کیا اورایک دن وہی عظیم ذہن رکھنے والا ادیب اسپتال میں داخل ہوا توجوشخص attentive attitudeکا طلب گار تھا، دوستوں کی بے وفائیاں ، بے اعتنائیاں دیکھ کر اپنی ذات میں سمٹ گیا۔تنہائی، اجنبیت، وحشت اور بے گانگی کی چادراوڑھ لی ۔ایک تخلیقی ذہن اندر سے ٹوٹ رہا تھا، بکھر رہا تھا، منہدم ہورہاتھامگرکسی کوخبرنہ ہوئی۔ طویل بیماری کے بعدجب افاقہ ہوا تو ایک دن ’سہاراانڈیاکمپلیکس‘ میں آئے، اس دن میں نے ان کی آنکھوں میں پژمردگی سی دیکھی تھی، شایدانھیں بہت کچھ ’آبھاس‘ ہوگیاتھا، وہ اس طرح مل رہے تھے جیسے دوبارہ کبھی ملاقات نہیں ہوگی۔میں چاہتے ہوئے بھی ان سے کچھ نہ کہہ سکا۔ صرف ان کے پان کا تھوڑا سا زردہ نکال کر میں نے باہر پھینک دیا۔مجھے پتہ تھا کہ صلاح بھائی نے شوق گل بوسی میں کانٹوں پہ زباں رکھ دی ہے اورجتنی بھی اذیتیں اورعذاب ہیں،سب اسی وجہ سے ہیں۔وہ ایک ایسی جذباتی، ذہنی کیفیت میں تھے کہ جس کے بیان کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ ہوسکتاہے کہ علامہ سیماب اکبرآبادی کا یہ شعر ان کی اس کیفیت کو بیان کردے:
محبت میں اک ایسا بھی وقت آتا ہے انساں پر
ستاروں کی چمک سے چوٹ لگتی ہے رگ جاں پر
آخری مجموعہ ’بنام غالب‘ کے تین صفحے شاید اسی شعر کی تعبیر ہیں۔ یہ ایسے دردناک ہیں کہ پتھر دل بھی پگھل جائے۔ اس سے اچھا حزنیہ بیانیہ نہیں لکھاجاسکتا۔فن کارجب دکھ اذیت،عذاب سے گزرتاہے تو اس کی چیخ وکراہ کو کوئی کیوں نہیں سنتا۔ وہ آگ کے دریا سے گزرتاہے مگرکسی کے ہاتھ اسے ساحل تک لانے کے لیے نہیں بڑھتے۔ آخر وہ بھی توایک انسان ہوتاہے۔
دل ہی تو ہے نہ سنگ وخشت…
مگرصارفی ثقافت کا سفاک رویہ ایسے ذہنوں کوزندہ دفن کردیتاہے۔ جبکہ ادیب کی تخلیق سے ہی نہیں اس کے دکھ درد سے بھی سماج کو سروکار ہونا چاہیے۔ ذرا سوچئے کہ جو معاشرہ اپنے تخلیقی ذہنوں کا احترام نہیں کرتاکیااس سماج میں انسانی تہذیب زندہ رہ سکتی ہے؟صارفی ثقافت نے صلاح الدین پرویز کی تخلیقی ذہانت کا قتل کیا ہے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ کس کس کی مہر ہے سرمحضرلگی ہوئی۔ کہیں ان کے قتل کے گنہگاروں میں ہم سبھی تو شامل نہیں ہیں!
(مضمون نگار ممتاز ادیب ہیں،یک موضوعی کتابی سلسلسہ ‘انداز بیا ں ‘ان کی ادارت میں شائع ہوتا ہے۔ایک زمانے میں آواں گارد مجلہ استعارہ،صلاح الدین پرویز اور حقانی القاسمی کا ہمزاد تصور کیا جاتا تھا۔)
یہ مضمون 27 اکتوبر 2017کو شائع کیا گیا تھا۔