خاص رپورٹ :نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اجیت ڈوبھال کے صاحبزادے شوریہ ڈوبھال کے ذریعے چلائے جارہے انڈیا فاؤنڈیشن سےکئی مرکزی وزیر ڈائریکٹر کے طور پر جڑے ہیں۔ یہ ادارہ ایسے غیر ملکی اور ہندوستانی کارپوریٹ کی فنڈنگ پر منحصر کرتاہے جو حکومت کے ساتھ ڈیل بھی کرتی ہیں۔
نئی دہلی:‘ کیرل میں اسلامی انتہا پسندی اور آدیواسیوں کے جبراً مذہب تبدیل کیے جانے جیسے موضوعات پر تفصیلی مضمون (مونوگراف)چھاپنے والی تنظیم کے طور پر انڈیا فاؤنڈیشن کا وجود 2009سے ہے۔ لیکن 2014 سے انڈیا فاؤنڈیشن کی جس طرح سےترقی ہوئی ہے، اس کو کسی معجزہ سے کم نہیں کہا جا سکتا ہے۔
آج یہ ہندوستان کا سب سے مؤثر تھنک ٹینک ہے، جو غیرملکی اور ہندوستانی صنعت کی اہم ہستیوں کو وزیروں اور افسروں کے ساتھ بیٹھکرسرکاری پالیسیوں پر تفصیل سے بات چیت کرنے کے لئے پلیٹ فارم مہیّا کراتا ہے۔ لیکن انڈیا فاؤنڈیشن کی غیرشفاف مالیاتی اسٹرکچر، اس میں سینئر وزیروں کے ڈائریکٹرز کے طور پر موجودگی اور یہ حقیقت بھی کہ اس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر شوریہ ڈوبھال کا اعلانیہ کام gemini financial services کو چلانا ہے۔gemini financial servicesاو ای سی ڈی اور ابھر رہی ایشیائی معیشت کے درمیان لین دین اور سرمایہ کاری کے شعبے میں مہارت رکھنے والی کمپنی ہے۔ یہ باتیں ایک ساتھمل کر مفاد کے تصادم اور لابنگ کے امکان کو بھی جنم دیتے ہیں۔ یہ وہ مسائل ہیں، جن کو حکومت کے گلیاروں سے ہمیشہ کے لئے مٹا دینے کا وعدہ وزیر اعظم مودی نے کیا تھا۔
شوریہ ڈوبھال سیاسی طور پر مؤثر قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال کے بیٹے ہیں اور یہ ‘اتفاق ‘ہندوستانی سیاست اور عام زندگی میں بیماری کی طرح موجودنسل پرستی کے مسئلہ میں ایک نئی جہت کو سامنے لاتا ہے۔موجودہ سیاسی ماحول میں اس رشتے پر عوامی طور پر شاید ہی کبھی بحث ہوتی ہے۔ اس بات کا تھوڑا سا اندازہ لگانے کے لئے کہ مفاد کےاس ممکنہ تصادم کو لےکر خاموشی کتنی غیر فطری ہے، اس کو سمجھنے کے لئے ایک بارمان لیتے ہیں کہ سونیا گاندھی کے داماد رابرٹ واڈرا سعودی عرب کے ایک راج کمار کے مالی خدمات سے متعلق فرم کے پارٹنر کے طور پر ملک کے وزیردفاع اور تجارتی وزیر کو اپنے تھنک ٹینک میں شامل کرتے ہیں اور پھر سلسلہ وار طریقے سے کئی پروگرام کرتے ہیں۔ ان کے لئے پیسہ جن کمپنیوں کے ذریعے چکایا جاتا ہے، ان کا نام ظاہر نہیں کیا جاتا۔
جونیئر ڈوبھال اور بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری رام مادھو کے ذریعے چلائے جانے والے انڈیا فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹرز میں وزیر دفاع نرملا سیتارمن، تجارتی اور صنعتی وزیر سریش پربھو، دو ریاستی وزراجینت سنہا اور ایم جے اکبرکے نام شامل ہیں۔چار وزراسنگھ پریوار کے ایک قدآور رہنما اور ایک کاروباری جن کے بااثر والد وزیر اعظم دفتر میں ہیں، ان سب نے ملکر انڈیا فاؤنڈیشن کو ایک ادارے کے طور پر اس قدر مستحکم کیا ہے، جس کے بارے میں تھنک ٹینک کی دنیا کے مشہور کھلاڑی بھی صرف خواب میں ہی سوچ سکتے ہیں۔
فاؤنڈیشن کے ذریعے منعقد کئے جانے والے ہر پروگرام میں اس شعبے کے اہم پالیسی سازوں کی شرکت ہوتی ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف ان میں کافی بھیڑ ہوتی ہے، بلکہ اسپانسر کی بھی کوئی کمی نہیں ہوتی،ان اسپانسر میں ہندوستانی اور غیر ملکی سرکاری ایجنسیاں اور پرائیویٹ کمپنیاں، دونوں شامل ہیں۔لیکن، انڈیا فاؤنڈیشن کی کامیابی کا رازجو کہ اصل میں اس کی سب سے بڑی کمزوری بھی ہےان 6ے لوگوں کی براہ راست موجودگی،مفاد کے تصادم کو لےکر کچھ پریشان کرنے والے سوال بھی کھڑے کرتے ہیں۔ساتھ ہی اس سے اس خدشے کو بھی طاقت ملتی ہے کہ کیا غیر ملکی اور ہندوستانی کمپنیاں فاؤنڈیشن کے پروگراموں کو حمایت اس لئے دیتی ہیں تاکہ ویسے مسائل میں، جن میں ان کا تجارتی فائدہ جڑا ہو، حکومت کی عنایت حاصل کی جا سکے!ایک ٹرسٹ کے طور پر فاؤنڈیشن کے لئے اپنی بیلینس شیٹ اور مالی لین دین کو عوامی طورپر ظاہر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ا س کے بورڈ میں ڈائریکٹر کے طور پر وزیروں کی موجودگی کے باوجود یہ اپنےریونیو کے ذرائع کے بارے میں کوئی معلومات دینے سے انکار کرتا ہے۔
اس اسٹوری کے لئے دی وائر نے ان تمام 6 ڈائریکٹروں کو ایک تفصیلی سوال نامہ بھیجا تھا۔ لیکن وزیر وں نے اس کا جواب نہیں دیا۔رام مادھو نے یہ وعدہ کیا کہ کوئی ‘مناسب آدمی ‘ان سوالوں کا جواب دےگا۔ لیکن، ایسا بھی نہیں ہوا۔اس سوال پر کہ فاؤنڈیشن کےریونیو کا ماخذ کیا ہے، شوریہ ڈوبھال بھی دی وائر کو بس اتنا کہنے کے لئے تیار ہوئے :’ کانفرنسوں سے، اشتہارات اور جرنل سے۔’انہوں نے اس ریونیو کے ذرائع کو لےکر پوچھے گئے سوالوں کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اور نہ ہی اس بات کی ہی کوئی وضاحت کی کہ انڈیا فاؤنڈیشن، جس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ ایک ٹرسٹ کے طور پر رجسٹرڈ ہے، آخر اپنے روز کے کام کاج کا خرچ کیسے اٹھاتا ہے؟ اس خرچ میں لٹین دلّی کے ہیلی روڈ میں لئے گئےمکان کا کرایہ اور ملازمین کی تنخواہ شامل ہیں۔
انڈیا فاؤنڈیشن کو ملنے والے پیسوں کے ذرائع کی معلومات دینے کو لےکر ڈوبھال کی یہ جھجک نئی نہیں ہے۔ 2015 میں بھی وہ دی اکونامک ٹائمس کو بس اتناہی کہنے کو تیار تھے :ٹرسٹ کے طور پر رجسٹرڈ فاؤنڈیشن کی فنڈنگ کے بارے میں پوچھے جانے پر ڈوبھال نے کہا-ماہنامہ جرنل آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔
‘ ہمیں اسپانسر ملے ہوئے ہیں اور ہمیں مختلف ذرائع سے اشتہار ملتے ہیں۔ یہ سب ہمارے ذریعے کئے جانے والے کاموں یا ہمارے ذریعے منعقد کئے جانے والے سیمیناروں کے اردگرد کیا جاتا ہے۔ ہم مختلف حصہ داروں کے ساتھ ساجھےداری کرتے ہیں اور ہم اپنے حصے کا کام کرتے ہیں اور وہ اپنے حصے کا کام کرتے ہیں۔ ‘
ایسے میں جبکہ ا س کے ڈائریکٹر میں وزیروں کے نام شامل ہیں، ان ‘چندوں ‘ اور ‘ اسپانسرشپ ‘ کے ذرائع ٗمفاد عامہ سے جڑا کافی اہم معاملہ بن جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس کے بارے میں کافی کم یا نامعلوم سی معلومات موجود ہے۔ سوائے ان تصویروں کے جس کو انڈیا فاؤنڈیشن نے اپنی ویب سائٹ پر ڈال رکھا ہے۔(یہاں یادداشت کے لئے بتا دیں کہ انڈیا فاؤنڈیشن جرنل کے جن شماروں کی دی وائر نے تفتیش کی، ان میں اشتہارات کی بھرمارنہیں تھی۔)
غیر ملکیDefence کمپنیوں سے اسپانسرشپ
انڈیا فاؤنڈیشن کی دو تقریب(ایک ہند مہاساگر پر اور دوسرا ‘ اسمارٹ بارڈر مینجمنٹ’ پر)کے اسپانسر کے نام تصویروں میں دکھائی دے رہے تھے۔ مثال کے طور پر بوئنگ جیسی غیر ملکی دفاعی اور ایوی ایشن کمپنیاں اور اسرائلی فرم ماگل، ساتھ ہی ڈی بی ایس جیسے غیر ملکی بینک اور کئی نجی ہندوستانی کمپنیوں کے نام اس میں بطور اسپانسر لکھے ہوئے ہیں۔لیکن اس سپانسرشپ کی نوعیت، یعنی کتنا پیسہ دیا گیا اور کس کو دیا گیا، انڈیا فاؤنڈیشن کو یا کسی ‘پارٹنر ‘ کو، اس بارے میں کوئی معلومات نہیں ہے۔
دی وائر نے انڈیا فاؤنڈیشن میں ڈائریکٹر کے طور پر کام کرنے والے چاروں وزیر کو خط لکھکر فاؤنڈیشن کے ذریعے ایسے تقاریب کی میزبانی کےجواز کو لےکر سوال پوچھا، جن کو ایسی کمپنیوں کے ذریعے فنڈ یا ڈونیشن دیا گیا، جن کے کاروباری مسئلے ان کی وزارت کے ساتھ جڑے ہو سکتے ہیں۔نرملا سیتارمن سے یہ پوچھا گیا کہ ‘ کیا آپ یہ منظور کریںگی آپ کے انڈیا فاؤنڈیشن ،جو غیر ملکی کمپنیوں سے براہ راست یا بلاواسطہ طور پر پیسے لیتا ہے، خاص کر ان کمپنیوں کے جن کا آپ کے ذریعے سنبھالے گئے وزارتوں (تجارتی اور صنعتی اور اب وزارت دفاع) سے ناطہ رہا ہے،کے ڈائریکٹر کے طور پر کام کرنے سے مفاد کے تصادم کا معاملہ بنتا ہے؟’ایسےہی سوال سریش پربھو، ایم جے اکبر اور جینت سنہا سے بھی پوچھے گئے۔ اس رپورٹ کی اشاعت کے وقت تک، ان میں سے کسی کا بھی جواب نہیں آیا۔
جب ایک سابق ڈیفینسسیکرٹری سے دی وائر نے یہ پوچھا کہ کیا وزیر دفاع کے کسی ایسے فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر کے طور پر کام کرنے کو مناسب ٹھہرایا جا سکتا ہے، جس نے ان کی وزارت سے رشتہ رکھنے والی کسی کمپنی سے مالی مدد لی ہے؟ ، تو ان کا جواب تھا کہ ‘ یقینی طور پر اس سے بچا جانا چاہئے۔ ‘
اس سال مئی میں،سی بی آئی نے منموہن سنگھ حکومت کے دور اقتدار میں ہندوستان کے ذریعے خریدے گئے بوئنگ ایئرکرافٹ کی ابتدائی تفتیش شروع کی۔خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی نے سی بی آئی کے ترجمان آرکے گوڑ کے حوالے سے لکھا تھا، ‘اس میں لگائے گئے الزام 70،000 کروڑ روپے کی لاگت سے قومی ایئر لائنس کے لئے 111 ایئرکرافٹ کی خرید سے متعلق ہیں۔ ایسا غیر ملکی ایئرکرافٹ بنانے والوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے کیا گیا۔ ایسی خرید کی وجہ سے پہلے سے ہی خستہ حال قومی ایوی ایشن کمپنی کو اور مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ ‘
فاؤنڈیشن کے ایک ڈائریکٹر (جینت) سنہا ایوی ایشن وزیر مملکت ہیں۔ ایک ایسے تھنک ٹینک کا ممبر ہونا، جو ایک ایسی کمپنی سے فنڈ لیتا ہے، جس کے ایئرکرافٹ کی فروخت پر تفتیش چل رہی ہے، واضح طور پر مفاد کے تصادم کا معاملہ بنتا ہے۔دی وائر نے ایک سابق کابینہ معتمد سے وزیروں کی انڈیا فاؤنڈیشن کے بورڈ میں بطور ڈائریکٹر کام کرنے کے جوازکے بارے میں سوال پوچھا۔ ان کا جواب تھا، ‘اگر وزیر فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر ہیں اور فاؤنڈیشن ان سے جڑے موضوعات پر کانفرنس کرتا ہے-مثلاً، ہندوستان کو کیسا دفاعی حصول اصول اپنانا چاہئے-تب یقینی طور پر یہ مفاد کے ٹکراؤ کا معاملہ ہے اور اس سے پرہیز کیا جانا چاہئے۔ ‘ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہاں تک کہ کمپنیوں کے ذریعے فاؤنڈیشن کی فنڈنگ میں بھی مفاد کے ٹکراؤ کا معاملہ بن سکتا ہے، اگر کانفرنس کا تعلق ایسی پالیسی سے ہو جس میں کارپوریٹ کا مفاد ہو۔ ‘
ہمارے چارٹر میں لابنگ شامل نہیں ہے : ڈوبھال
انڈیا فاؤنڈیشن اپنے آپ کو ‘ہندوستانی سیاست کے مسئلوں، چیلنجز اور امکان پر مرکوز ایک آزاد ریسرچ سینٹر ‘ کہتا ہے۔ لیکن، شوریہ ڈوبھال ایک ویڈیو انٹرویو میں کافی صاف گوئی سےکہتےہیں کہ فاؤنڈیشن ہماری پالیسی سے جڑے کئی جہتوں پر کافی نزدیکی ڈھنگ سے بی جے پی اور حکومت کے ساتھ ملکر کام کرتا ہے۔’اس قبولیت کو تھنک ٹینک کے سربراہ کے طور پر شفافیت برتنے کی کوشش بھی کہا جا سکتا ہے، یا ‘ کارپوریٹ فائنینس اور صلاح ‘کے کاروبار سے جڑے کسی آدمی کی اقتدار سے قربت کے اشتہار کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ظاہر ہے، یہ بلا وجہ نہیں ہے کہ اس انٹرویو کو gemini financial services کی ویب سائٹ پر لگایا گیا ہے۔
اس سے پہلے ایک پرائیویٹ ایکویٹی فرم جی ایس کیپٹل چلانے والے ڈوبھال نے 2016 میں اپنی کمپنی کا انضمام جی ایف ایس کے ساتھ کر دیا۔جی ایف ایس کے چیئر مین پرنس مشال بن عبداللہ بن ترکی بن عبدالعزیز السعود سعودی عرب کے حکمراں خاندان کے ممبر ہیں اور عبداللہ بن ترکی بن عبدالعزیز السعود کے بیٹے ہیں۔
جیمنی کا ہوم پیج ممکنہ گراہکوں سے کہتا ہے،
‘ ہم معاملے کے حساب سے اپنے گراہکوں کے لئےپالیسی صلاح کار کے طور پر کام کرتے ہیں۔ عام طور پر یہ غیرروایتی حالتیں ہیں، جن میں کارپوریٹ متنازعہ حل، نئے / مشکل بازاروں اور جوائنٹ وینچروں میں داخلہ (یا اس سے باہر نکلنا) شامل ہے۔ ‘
جیمنی کے میدان عمل کو دیکھتے ہوئے دی وائر نے ڈوبھال سے یہ پوچھا کہ کیا انڈیا فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر کے طور پر ان کے رول میں جہاں صاف طور پر کابینہ وزیر وں اور سینئر سرکاری افسروں تک ان کی خاص پہنچ ہے، جن میں سے کئی ناشتہ کی بیٹھک اور تھنک ٹینک کے ذریعے منعقد دوسرے پروگراموں میں باقاعدہ طور پر شرکت کرتے ہیں-اور ایک فرم کے پارٹنر کے طور پر ان کے رول میں، جو غیر ملکی اور ملکی سرمایہ کار وں کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں-مفاد کے ٹکراؤ کا معاملہ بنتا ہے؟
ان کا جواب تھا، مفاد کے ٹکراؤ کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، کیونکہ انڈیا فاؤنڈیشن نہ تو خود سے، نہ ہی کسی دوسرے کی طرف سے کوئی تجارتی لین دین کرتا ہے۔ ‘
ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی جوڑا، ‘انڈیا فاؤنڈیشن ایک تھنک ٹینک ہے، جس کا وجود 2009 سے ہے۔ اس کی سرگرمیوں میں ریسرچ، قومی اہمیت کے مسئلے پر ایک نقطہ نظر کو تیار کرنا اور اس کی تشہیر کرنا شامل ہے۔ اس کے چارٹر میں لابنگ یا اس سے جڑی کوئی دوسری سرگرمی شامل نہیں ہے۔ ‘
بھلے ہی ظاہری طور پر فاؤنڈیشن لابنگ میں شامل نہ ہوتا ہو، لیکن ا س کے تقاریب کو صاف طور پر کارپوریٹوں اور دوسرے اسٹیک ہولڈروں کو اہم افسروں کے ساتھ ملنے کا موقع دینے کے وعدے کے اردگرد تیار کیا جاتا ہے۔واضح طور پر ان افسروں کو اپنی مصروفیت کو بیچ میں چھوڑکر انڈیا فاؤنڈیشن کی دعوت پر آنا پڑتا ہے، کیونکہ اس کی پہنچ حکومت کی سب سے اونچی سطح تک ہے۔ذرا انڈیا فاؤنڈیشن کے ذریعے فکی کے ساتھ ملکر ‘اسمارٹ بارڈر مینجمنٹ’موضوع پر کرائے گئے ایک تقریب کی تشہیر ی کتابچہ کی زبان پر دھیان دیجئے ،یہ اپنے ممکنہ گراہک سے پوچھتا ہے:
‘ آپ کس سے ملنے کی امید کرتے ہیں ‘اور اس کے بعد وزیروں اور شعبوں کی پوری فہرست پیش کرتا ہے، جو وہاں آنے والے ہیں۔
سرکاری افسر اور نجی شعبے کے بازیگرکانفرنسوں اور دوسری تقاریب میں اکثر ایک دوسرے سے ملتے جلتے رہتے ہیں۔ لیکن، وزیر کا ڈائریکٹر ہونا، انڈیا فاؤنڈیشن کو اضافی وزن دیتا ہے۔اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وزیروں کے عہدوں کا استعمال ایک تھنک ٹینک کی شہرت اور پہنچ کو بڑھانے کے لئے کیا جا رہا ہے، جو اپنے سیاسی جڑاؤ کو کسی سے چھپاتا نہیں ہے؟
غیر ملکی پیسے سے ‘ راشٹرواد’ کی ترقی
اس کی ویب سائٹ کے مطابق انڈیا فاؤنڈیشن، ‘ہندوستانی راشٹر واد کےنقطہ نظر کو واضح ‘ کرنا چاہتا ہے۔ انڈیا فاؤنڈیشن کا ویژن اول درجےکا تھنک ٹینک بننے کا ہے، جس کی مدد سے ہندوستانی تہذیب کے ہم عصر سماج پر پڑنے والے اثر کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ‘لیکن، دوسرے رضاکار تنظیموں کی ہی طرح، جن پر بی جے پی اور مودی حکومت اکثر ‘ باغی ‘ ہونے کا الزام لگاتی ہے، انڈیا فاؤنڈیشن بھی اپنی سرگرمیوں کے لئے غیر ملکی پیسوں پر منحصر ہے۔
ایک ٹرسٹ یعنی غیر سرکاری تنظیم کے طور پر انڈیا فاؤنڈیشن کی حیثیت کو دیکھتے ہوئے، اس کے ذریعے غیر ملکی چندے کا استعمال فارین کنٹری بیوشنس ریگولیشن ایکٹ (ایف سی آر اے) کے تحت آتا ہے۔حالانکہ، ڈوبھال، مادھو اور چاروں وزیرڈائریکٹر نے فاؤنڈیشن کو غیرملکوں سے ملنے والے پیسوں کو لےکر دی وائر کے ذریعے پوچھے گئے سوالوں کا جواب نہیں دینے کا فیصلہ کیا، مگر وزارت داخلہ کے ذریعے چلائی جارہی fcraonline.nic.in ویب سائٹ اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ انڈیا فاؤنڈیشن کے پاس 2022 تک کے لئے قانونی/جائز ایف سی آر اے سرٹیفیکٹ ہے اور اس کی تجدیدکاری 6 جون، 2017 کو کی گئی۔
ایف سی آر اے ویب سائٹ سے حالانکہ یہ پتہ نہیں چلتا کہ انڈیا فاؤنڈیشن کو پہلی بار ایف سی آر اے سرٹیفیکٹ کب دیا گیا؟
‘ آخر یتجدید کا ذکر یہ دکھاتا ہے کہ فاؤنڈیشن کے پاس پہلے بھی ایف سی آر اے سرٹیفیکٹ تھا، لیکن ایف سی آر اے لائسنس ہولڈر تمام غیر سرکاری تنظیموں کے لئے پچھلے چار سالوں کے لئے ضروری ‘ غیر ملکی کرنسی رٹرن ‘ فائلنگ کے ڈیٹا بیس کی تفتیش کرنے پر شوریہ ڈوبھال کے انڈیا فاؤنڈیشن کی کوئی اینٹری نہیں ملی۔حالانکہ، وہاں ہرسال کے لئے ایک انڈیا فاؤنڈیشن کا ذکر ضرور تھا، لیکن وہ سفیر سوریہ کانت ترپاٹھی کے ذریعے رجسٹرڈ انڈیا فاؤنڈیشن ہے، جو خاص طور پر سڑکوں پر گھومنے والے بچّوں کو کھانا اور گھر اور غریبوں کو صحت سے متعلق خدمات دینے کے لیے کام کرتا ہے۔یہ مانا جا سکتا ہے کہ ایف سی آر اے کی ویب سائٹ نے انڈیا فاؤنڈیشن کے سرٹیفیکٹ کو غلطی سے تجدیدکاری کے طور پر دکھا دیا ہے۔ دی وائر نے جس چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ سے رابطہ کیا، اس نے سیریل نمبر کی بنیاد پر بتایا کہ غالباً یہ سرٹیفیکٹ نیا ہے۔
اس لئے ایف سی رٹرن کا نہ ہونا اپنے آپ میں مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن ایک نئے ایف سی آر اے رجسٹریشن سے یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ این جی او اب تک غیر ملکی پیسہ حاصل کرنے میں کس طرح کامیاب رہا۔وزارت داخلہ غیر سرکاری تنظیموں کے لئےاس کی خاص سرگرمیوں کے لئے غیر ملکی فنڈ کا استعمال کرنے کے تعلق میں ‘ سابقہ اجازت ‘ لینے کا اہتمام کرتی ہے، لیکن دلّی اور اس کے آس پاس کے لئے اس طرح کی اجازت دئے جانے سے متعلق ایف سی آر اے ویب سائٹ کے ڈیٹا بیس میں 2015 تک انڈیا فاؤنڈیشن کے نام کے آگے کچھ نہیں ملتا۔ 2015 کے بعد کی کوئی جانکاری یہاں دستیاب نہیں ہے۔
دی وائر نے شوریہ ڈوبھال سے انڈیا فاؤنڈیشن کے ایف سی آر اے درخواست کی تفصیل مانگی اور ساتھ ہی یہ مانتے ہوئے کہ ایف سی آر اے کا ڈیٹا بیس نامکمل ہو سکتا ہے، یہ سوال بھی پوچھا کہ کیا اس نے ‘سابقہ اجازت ‘ کے راستے سے کوئی غیر ملکی پیسہ حاصل کیا ہے؟ لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔غیر سرکاری تنظیم کبھی کبھی کامرشیل سروس کانٹریکٹ کے راستے سے بھی غیر ملکی پیسے حاصل کرتے ہیں۔
لیکن ڈوبھال نے اپنے پہلے کے جواب میں یہ کہا تھا کہ انڈیا فاؤنڈیشن ‘ کسی طرح کا تجارتی لین دین نہیں کرتا ہے ‘ یعنی غیرملکوں سے پیسہ حاصل کرنے کا یہ راستہ بھی پہلے سے ہی بند دکھائی دیتا ہے۔ایک ایسے وقت میں جب مودی حکومت نے ایف سی آر اے کی خلاف ورزی چاہے وہ اصل ہو یا خیالی کا استعمال غیر سرکاری تنظیموں کے بینک کھاتوں پر تالا جڑنے کے لئے کیا ہے، ایک تھنک ٹینک جس کے ڈائریکٹر میں وزیر اور سینئر بی جے پی رہنما شامل ہیں، غیر ملکی فنڈ کے استعمال کو لےکر شفافیت نہیں برتنادوہرے رویے کے کی طرف اشارہ نہیں کرتا۔
پی ایم او کی خاموشی
دی وائر نے وزیر اعظم کے چیف سیکریٹری نرپیندر مشرا سے پوچھا کہ کیا انہوں نے اور مودی نے ان ڈائریکٹر وں کے ممکنہ مفاد کے ٹکراؤ کی طرف دھیان دیا ہے، جو وزیروں کے طور پر بھی کام کر رہے ہیں؟ساتھ ہی اس حقیقت کی طرف بھی کہ شوریہ ڈوبھال کے والد پی ایم او کے اعلیٰ افسر ہیں، جن کے مفاد کےشعبے میں ایسی بات چیت کا حصہ ہونا شامل ہے، جن کاسروکارایسے فیصلوں سے ہو سکتا ہے، جو انڈیا فاؤنڈیشن کی تقریبات کو اسپانسر کرنے والی کمپنیوں سے تعلق رکھتے ہوں؟اس تعلق سے کوئی جواب نہیں آیا۔
ان چار وزیروں،رام مادھو اور شوریہ ڈوبھال کے علاوہ انڈیا فاؤنڈیشن کے دیگر ڈائریکٹر بھی بی جے پی سے کسی نہ کسی طور پر جڑے رہے ہیں-سوپن داس گپتا، ریٹائرڈ آئی اے ایس اور اب نہرو میموریل میوزیم اینڈ لائبریری کے ڈائریکٹر شکتی سنہا، پرسار بھارتی بورڈ کے چیئر مین اے۔ سوریہ پرکاش۔
ان کے علاوہ دیگر ڈائریکٹر ہیں ہندوستانی فوج کے تھنک ٹینک سینٹر فار لینڈ وارفیر اسٹڈیز کے سابق ڈائریکٹردھرو سی کٹوچ، سابق بحریہ افسر آلوک بنسل، جنہوں نے اس سے پہلے ایڈسا میں کام کیا، اشول متّل جو خود کو ایک اسٹوڈنٹ مینٹرنگ کمپنی کا مینیجنگ ڈائریکٹر بتاتے ہیں، آئی سی ڈبلیواے کے سابق صدر چندر وادھوا اور کولکاتہ کی باوری گروپ کے چیئر مین بنود بھنڈاری۔
(سواتی چترویدی صحافی ہیں اور دہلی میں رہتی ہیں۔)
Categories: خبریں