ادبستان

فلم پدماوتی : راجپوتانہ شان یا علاءالدین خلجی کی مخالفت ؟

راجپوتانہ شان کی نمائش والے ٹریلر اورسیاسی ہنگاموں کے درمیان  سب سے اہم سوال یہی ہے کہ جائسی کی پدماوت سے علاءالدین خلجی کا کیا لینا دینا ہے؟

Padmawati-FacebookFinal

’چنتا کو تلوار کی نوک پر رکھے وہ راجپوت،ریت کی ناؤ لے کر سمندر سے شرط لگائے وہ راجپوت،اور جس کا سر کٹے پھر بھی دھر دشمن سے لڑتا رہے وہ راجپوت‘

’راجپوتی کنگن میں اتنی ہی طاقت ہے ،جتنی راجپوتی تلوار میں‘

راجپوتانہ شان کی اس جے جے کار کو آپ نے سنجے لیلابھنسالی کی آنے والی فلم ’پدماوتی‘کے ٹریلر میں ملاحظہ کیا ہوگا۔ٹریلر سے فلم کی کہانی کا اندازہ لگانا مشکل ہے ،لیکن بھنسالی نے یہ صاف کردیا ہے کہ ان کی فلم میں راجپوتوں کی شان کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔اس میں یوں تو کوئی برائی نہیں ہے،لیکن رنویرسنگھ جو علاءالدین خلجی کے کردار میں ہیں ٗان کو بہت ہی خوفناک انداز میں گوشت خور کے طور پر دکھایا گیا ٗ اور کہیں نہ کہیں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ خلجی بھیڑیا تھا۔ان باتوں پراس وقت تبصرہ نہیں کیا جاسکتا کہ ابھی فلم ریلیز نہیں ہوئی ہے۔

میں آپ سے فلم کے ریلیز ہونے کی بات کر رہاہوں کہ جبکہ اس کی شوٹنگ کے وقت سے ہی ہنگامہ برپا ہے۔اس ہنگامے میں ’کرنی سینا ‘کا نام سب سے اوپر ہے ،اس کے بعد تو ہنگاموں کا ایک سلسلہ ہے ۔ سیاسی پارٹیوں کی مخالفت اور کماروشواس جیسے لوگوں کے ویڈیو کے بعد تازہ ترین ہنگامہ یہ ہے کہ گجرا ت میں بی جے پی نے الیکشن کمیشن اور سینسر بورڈ کو خط لکھ کر کہا کہ اس فلم سے لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچ سکتا ہے ۔اس لیے فلم ریلیز سے پہلے راجپوتوں کے نمائندوں کو دکھائی جائے۔بی جے پی ترجمان نے یہ بھی کہا ہے کہ اس فلم پر پابندی عائد کی جائے یا اس کو گجرات الیکشن کے بعد ریلیز کیا جائے ۔اچھی بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے اس پر پابندی لگانے سے انکار کر دیا ہے۔

اگر سب کچھ ٹھیک رہا توفلم یکم دسمبر کو ریلیز ہوگی۔سب کچھ ٹھیک ہونے کی بات میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اوما بھارتی نے’ کھلا خط ‘لکھ کر سیاسی ماحول کو اور گرم کر دیا ہےٗسیاسی مبصرین اس کو ووٹ بینک کی سیاست سے بھی جوڑ کر دیکھ رہے ہیں۔

گزشتہ دنوں خبرآئی کہ  جمعہ کو فلم کی مخالفت میں راجستھان کے چتوڑ گڑھ میں نجی اسکول کو بند رکھا گیا۔یہ دھمکی بھی دی گئی ہے کہ شہر کے کسی بھی سنیماگھر میں نہ تو فلم ریلیز ہونے دیں گے اور نہ کوئی بینر پوسٹر لگنے دیں گے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فلم کی مخالفت کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی دونوں کر رہے ہیں۔اوما بھارتی نے خط لکھنے سے پہلے  فلم کی پری اسکریننگ کا مطالبہ بھی کیا تھا۔

سیاسی ہنگاموں اور خبروں کے درمیان یہ سوال کئی بار پوچھا جا چکا ہے کہ ہمارے ارد گرد ایسا کیا ہے اور ہمارے اندر کیا پل رہا ہے، جو ہم کسی آرٹسٹ سے اس کی آزادی چھین لینا چاہتے ہیں۔ہمارے اندر اتنی ہمت کہاں سے آتی ہے کہ ہم بڑی آسانی سے کسی فلم ساز کے منہ پر تھپڑ جڑ دیتے ہیں۔

فلم پدماوتی کو لےکر سنجے لیلا بھنسالی کے ساتھ جو کچھ ہواتھاٗ اس کو میں ہماری سوچ‌کے اس تصور کے ساتھ جوڑ‌کر دیکھتا ہوں جو کئی دفعہ کسی لکھنے والے یا فنکار کی جان لینے والی سوچی سمجھی سازش کا حصہ بن جایا کرتی ہے۔

بھنسالی نے تاریخ کے ساتھ چھیڑچھاڑ کیا ہے یا نہیں؟اس پر فلم دیکھنے کے بعد بات کی جائے گی ،لیکن میں ان  ہنگاموں کو ملک محمد جائسی جیسے صوفی شاعر کی توہین سمجھتا ہوں، اور اس کی سخت لفظوں میں مذمت کرتا ہوں۔

’پدماوت‘ کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں کہ یہ جائسی کی شاہکار  تخلیق ہے، جس کو ہم میں سے بہتوں نے اردو، ہندی، بنگلہ انگریزی اور دوسری زبانوں میں ترجمہ اور معنی و مطلب کے ساتھ پڑھ رکھا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ بھنسالی نے اس کہانی کو فیکٹ اور فکشن کی آنکھوں سے کس طرح دیکھا ہے اور اپنی اسکرپٹ کو کس طرح اپنی فلم میں پیش کر رہے ہیں۔ لیکن پدماوتی کی شوٹنگ کی مخالفت کرنے والوں کا ماننا تھا کہ فلم میں رانی پدماوتی کو علاءالدین خلجی کی معشوقہ کے طورپردکھایا جا رہا ہے۔ مخالفت کرنے والوں نے بھنسالی پر حقائق کو توڑمروڑ‌کر پیش کرنے کا الزام لگاتے ہوئے اپنے غصے کا اظہار اس طرح کیا تھاکہ ان کے بال کھینچے اور تھپڑ مارے۔رپورٹ کے مطابق شوٹنگ کے دوران یہ ہنگامہ کرنی سینا اور اس کے کارکنوں نے کیا۔اس واقعہ کے بعد سنجے لیلا بھنسالی اور ان کی یونٹ نے پیک اپ کر لیاتھا۔

ایک مہذب سماج میں مخالفت کے اس انداز پر ہمیں سوچنا چاہئے؟ کلچر اور ثقافت کی دہائی دینے والوں کا یہ طور طریقہ کتنا مہذب ہے؟ ایسے وقت میں یہ سوال اور اہم ہو جاتا ہے جب مخالفت کرنے والوں کا خود یہ کہنا ہو کہ مووی کے ایک ڈریم سین میں رانی پدماوتی اور علاءالدین خلجی کے درمیان’ لو سین‘فلمایا جائے‌گا۔’جائے‌گا‘ہمارے گمان میں کہاں سے آیا؟ یہاں یہ سوال بھی قائم ہوتا ہے کہ کیا بھنسالی کی  اسکرپٹ عام ہو چکی ہے؟ اگر نہیں تو مخالفت کرنے والوں کو کوئی الہام ہوا جو یہ راجپوتوں کی بے عزتی کا بدلہ لینے پہنچے تھے۔ یہ بات مجھے حیران کرتی ہے کہ اس طرح کی  مخالفت کبھی عام لوگوں کی طرف سے کیوں نہیں ہوتی ہر بار کوئی سینا ہی یہ کام کیوں کرتی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس سے پہلے کرنی سینا نے ایکتا کپور کے سیریل جودھااکبر کی بھی مخالفت کی تھی۔

بہر کیف اس وقت فلمی دنیا سمیت مختلف شعبوں کی کئی بڑی ہستیوں نے اس معاملے کی مذمت کی تھی اور اپنا پروٹیسٹ درج کیا تھا۔ اس وقت سشانت سنگھ راجپوت نے جہاں اپنے نام سے راجپوت کے سر نیم کو ہٹا دیا تھا، وہیں انوراگ کشیپ نے اپنے ٹوئٹ میں یہ کہا تھا کہ ان کو اپنے راجپوت ہونے پر شرمندگی کا احساس ہو رہا ہے۔

اس طرح کے پروٹیسٹ کو صحیح غلط کی عینک سے دیکھنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے، لیکن یہ بات تو سچی ہے کہ ایک خاص قسم کی ذہنیت سے جہاں آرٹ کو محدود کرنے بلکہ اس پر لگام لگانے کی مسلسل کوشش کی جا رہی ہے ،وہیں ایسے فلم سازوں کی بھی کمی نہیں ہے جو آرٹ کو بازار کی ضرورت کے حساب سے گلیمرائز کرنے سے نہیں چوکتے۔

یہ بات بھی صحیح ہے کہ تاریخ اور ادب کے کسی کردار کے ساتھ کھلواڑ کی اجازت کسی کو نہیں دی جا سکتی۔ لیکن پہلے یہ طے تو ہو کہ جو دکھایا جا رہا ہے وہ غلط ہے۔ کوئی پہلے سے کیسے طے کر سکتا ہے کہ جو ہونے والا ہے وہ غلط ہی ہے۔ جہاں تک بھنسالی کی فلم کی بات ہے تو اس فلم کی پدماوتی، دیپکا پادوکون نے آگے آکر یہ اس وقت صفائی دی تھی کہ تاریخ کے ساتھ کوئی چھیڑچھاڑ نہیں کی جا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کسی کو صفائی دینے کی ضرورت کیوں محسوس ہو رہی ہے۔کیا سماج کے ٹھیکے داروں کو پہلے سے یہ بتا دینا ضروری ہے کہ کوئی اپنے فن میں کیا پیش کر رہا ہے اور کس طرح پیش کر رہا ہے۔

pppp2

 تاریخ میں پدماوتی کا وجود ہو نہ ہو، لیکن اگر اس اسکرپٹ کی بنیاد جائسی کی پدماوت ہے تو اس کو غلط طریقے سے کسی فلم یا کہانی میں خلجی کی معشوقہ کی شکل میں نہیں دکھایا جا سکتا۔ لیکن جس گلیمرائز اور فیشن ورلڈ کے پیچھے ہم ڈنڈا لےکر گھوم رہے ہیں کیا وہ جائز ہے؟ فلم بننے سے پہلے ہی ہمارا یہ طے کر لینا کہ اس میں ایسا ہوگا؟ کہاں تک ٹھیک ہے اور اگر ہمارے دعوے میں سچائی ہے بھی تو فلم سینسر بورڈ کو اپنا کام کرنے دینا چاہئے۔حالاں کہ اس کا کردار بھی مشکوک ہے۔ان باتوں کی سچائی اپنی جگہ ،اہم بات یہ ہے کہ  مخالفت کی یہ ذہنیت کچھ اور کہتی نظر آتی ہے۔

آرٹ کے نام پر کسی کو کتنی چھوٹ حاصل ہے یہ طے کرنے کا حق کسی سینا کو نہیں ہے،اس کے لئے ملک میں ادارے موجود ہیں۔ بھنسالی کے معاملے میں ان کی طرف سے یہ کہا گیا تھا کہ فلم میں ایسا کوئی سین نہیں ہے اور حقائق کی چھان پھٹک‌کر کے فلم بنائی جا رہی ہے۔ اگر ایسا ہے تو بھنسالی کو اپنا سیٹ ممبئی میں نہیں لگانا چاہئےتھا، اور ہماری حکومت کو ایک فلم ساز کے فلم بنانے کی آزادی کے لئے اپنی طرف سے پختہ انتظام کرنا ہی چاہئےتھا۔

ان باتوں سے الگ مجھے یہ بات ذرا سا پریشان کر رہی ہے کہ بھنسالی کس طرح کی ریسرچ کی بات کر رہے ہیں۔ در اصل میں یہ نہیں جانتا کہ تاریخ والی پدماوتی کی کہانی کیا ہے؟اور اس کی صداقت کیا ہے؟ میں تو اس پدمنی اوررانی پدماوتی کو جانتا ہوں جو جائسی کا شاہکار  ہے۔جائسی کی اس کہانی کو ایک شاعر اور قصہ گو کے تخیل کی بھرپور اڑان کے طور پر بہت پہلے پڑھا تھا۔ اس کہانی کو آج دوبارہ پلٹتے ہوئے میں ذرا سا کنفیوژ ہوں کہ اس کہانی کا کوئی وجود اصل میں ہے یا نہیں۔

ایسے میں یہ بھی سوال ہے کہ اگر جائسی کی پدماوتی صرف ایک تصور ہے تو وہ راجستھان کی تاریخ میں اتنا دخل کیسے رکھتی ہے کہ مقابلہ جاتی امتحانات کے لئے پڑھے جانے والے میگزین میں بھی شامل ہے۔ اور اگر یہ تاریخ میں کوئی کردار محض نہیں ہے تو جائسی کے علاوہ پدماوتی کو جاننے کے ماخذکیا ہیں؟

006

اگر آپ جائسی کی پدماوتی کو جانتے ہیں تو آپ کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ راجا رتن سین کی رانی پدماوتی اور ناگمتی اپنے شوہر کے ساتھ ستی ہو گئی تھی۔ اس لئے اس کہانی کو عشق مجازی کی بڑی گاتھاؤں میں خاص جگہ دی جاتی ہے۔ میں تاریخ کا باقاعدہ طالب علم نہیں ہوں، لیکن مجھے بھنسالی صاحب سے جاننا ہے کہ وہ کس تاریخی حقیقت پر تحقیق کر کے فلم بنا رہے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ امرا ؤ جان اور انارکلی کی طرح یہ بھی ہمارے عوامی تخیل سے آگے بڑھ‌کر ہماری آستھا میں شامل ہو گیا ۔

جائسی کی کہانی کا راوی تو ہیرامن طوطا ہے جو رانی پدماوتی کے لئے شوہر تلاش کرتا ہے اور کئی موقع پر اپنی جان بچاکر اس کہانی کو آگے بڑھاتا ہے۔عام فہم اودھی اور ہندی میں دوہا اور چوپائی کی صورت میں لکھی گئی پدماوت کو اس کی بہت سی خوبیوں کے لئے یاد کیا جاتا ہے۔

رہی بات دلی کے سلطان علاءالدین خلجی کی تو وہ  پدماوتی کے حسن کی کہانی سن‌کر اس پر فریفتہ  ہو جاتا ہے اور جنگ میں ناکام ہونے کے بعد اپنی چالاکی کی وجہ سے ایک دن رتن سین کی دعوت پر اس کے محل میں جاتا ہے اور آئینے میں پدماوتی کے حسن کا دیدار کر لیتا ہے۔ پھر رتن سین کو دھوکے سے قید کرکے دلّی لے آتا ہے۔ بعد میں پدماوتی، رتن سین کو اس کی قید سے آزاد کرا لیتی ہے۔ اس کے بعد جنگ ہوتی ہے۔ پھر وہ اور ناگمتی اپنے شوہر رتن سین کے ساتھ ستی ہو جاتی ہیں۔ اس کہانی میں ایسی ایسی حیران کر دینے والی عبارتیں ہیں کہ یوں لگتا ہے جیسے ہم جائسی کے ساتھ کسی اوڈیسی پر نکلے ہیں۔

اس کہانی کی طرح جائسی کی اپنی موت کی کہانی بھی دلچسپ ہے کہ وہ کبھی کبھی شیر کی شکل بناکر جنگل میں گھوما کرتے تھے۔ ایک بار کسی شکاری نے ان پر حملہ کر دیا اور وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔

ہم رانی پدماوتی کو اسی تخلیق کار کے کردار کے طور پر جانتے ہیں۔ اس لئے مجھے بھنسالی کی فلم کا شدّت سے انتظار ہے کہ ان کی تحقیق کے مطابق پدماوتی کیا ہے اور جائسی کے علاوہ بھی کوئی ماخذاس کردار کو جاننے کے لئے ہمارے پاس ہے؟ ویسے پدماوت پر اب تک کی  ریسرچ کو ایک نظر میں یوں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے ؛

  • صوفی شاعر ملک محمد جائسی کی شاہکار تخلیق ‘ پدماوت ‘ [1540 ء]شیرشاہ کے زمانے میں لکھی گئی۔ اس میں تقریباً 6000 بیت ہیں۔
  • عشق مجازی کی اس کہانی کو دانشوروں نے دو حصے میں بانٹا ہے۔ پہلے حصے کو جائسی کے خالص تخیل (imagination) کی اڑان کہا جا سکتا ہے، جبکہ دوسرے حصے میں کئی تاریخی واقعات کو شعری تمثیل کے طور پر شاعرانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
  • تاریخی واقعات اور کچھ کرداروں کے نام کی وجہ سے پدماوت کی کہانی کو کچھ مؤرخ، تاریخی واقعات سمجھتے ہیں اور ہماری تاریخ کے باب کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
  • اس کہانی میں علاءالدین خلجی نام کے کردار کی موجودگی نے کئی شبہات پیدا کئے ہیں۔پدمنی محل کے کتبے پر بھی خلجی کا نام دیکھا جا سکتا ہے۔ حالانکہ اس کہانی کا علاءالدین خلجی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ علاءالدین خلجی کی ہمعصر تاریخ میں بھی کہیں اس طرح کی کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔

padmini-620x400

  • امیر خسرو جو فتح چتّوڑ کے عینی شاہد کہے جاتے ہیں، انھوں نے اپنی کتاب خزائن الفتوح میں چتّوڑ کی فتح کا ذکر کیا ہے لیکن کہیں بھی پدمنی کی کوئی گفتگو نہیں کی ہے۔
  • اگر یہ مان لیا جائے کہ ہم عصر تاریخ میں اس کا ذکر اس لئے نہیں کیا گیا کہ سلطان سے ناراضگی کون مول لیتا تو تاریخ فیروز شاہی جو خلجی کے بہت بعد لکھی گئی، اور اس میں علاءالدین کی برائیوں کو بھی پیش کیا گیا، اس میں بھی پدمنی والے واقعات کا ذکر کیوں نہیں ہے؟
  • جائسی کی کہانی کے مطابق علاءالدین اور رتن سین کے درمیان مسلسل آٹھ سال تک جنگ ہوتی رہی۔ جبکہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ علاءالدین نے ایک ہی بار میں چتّوڑ کو فتح کر لیا تھا۔
  • علاءالدین کے زمانے میں چتّوڑ کے راجا رتن سین نہیں بلکہ لکھم سین تھے۔
  • علاءالدین خلجی نے 703 ہجری میں چتّوڑ فتح کیا اس کے 244 سال بعد جائسی نے پدماوت لکھی اور 312 سالوں بعد فرشتہ نے تاریخ لکھی۔ کئی دانشوروں کی رائے ہے کہ 300 سالوں میں کسی مؤرخ نے اس طرح کے کسی واقعہ کا ذکر کیوں نہیں کیا۔
  • اگر یہ کوئی تاریخی واقعہ ہے اور پدماوتی کا وجود ہے تو اس کا دلّی کے سلطان علاءالدین خلجی سے کوئی لینا دینا نہیں ہاں، سلطان غیاث الدّین خلجی سے ہو سکتا ہے۔ تاریخ دانوں کے مطابق غیاث الدین کے زمانے میں چتّوڑ کے راجا رتن سین تھے اور غیاث عورتوں کے حسن کا اتنا بڑا پرستار تھا کہ اس نے الگ سے خوبصورت عورتوں کی بستی بنائی تھی۔ جس میں ہر کام عورتوں کے ذمہ تھا۔ ایک طرح سے یہ بستی عورتوں کی خود مختار ریاست تھی۔ اس لئے بہت ممکن ہے کہ اس نے رانی پدماوتی کے لئے چتّوڑ پر حملہ کیا ہو۔
  • غیاث الدّین خلجی سے جڑی کئی باتیں ہیں،جو معاصر تاریخ اور جائسی کی پدماوت میں ایک جیسی معلوم ہوتی ہیں۔ لیکن اس پر بھی ابھی کوئی ایسا کام شاید نہیں ہوا جو پدماوت کو جائسی کے تخیل سے الگ بھی ایک حقیقی کردار کے طور پر پیش کرتا ہو۔
  • ویسے جائسی کے تخیل میں حقیقت کی ملاوٹ کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پدماوتی سے منسوب 16 پالکی والی کہانی اصل میں شیرشاہ کے اس عبارت کی شعری تمثیل ہے جس میں شیرشاہ بنگال کی مہم پر جاتے ہوئے اپنے گھروالوں کو روہتاس کے راجا کے پاس رکھنے کی اجازت لےکر پالکی میں اپنے سپاہی بھیج‌کر قلعہ فتح کرتے ہیں۔
  • اسی طرح جوہر کی رسم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جائسی کے زمانے میں ہی 938 ہجری میں سلطان بہادر گجراتی نے رائے سین کے راجا پر حملہ کیا تو ان کی رانی درگاوتی اور سیکڑوں دوسری رانیوں نے آگ میں کود‌کر جان دے دی تھی۔ شاید جائسی نے اسی تاریخی واقعہ سے اثر لےکر پدماوت میں جوہر کی رسم کو پیش کیا ہے۔

ان ادبی حقائق اور ہنگاموں کے درمیان بھنسالی کی فلم ہمیں کیا دکھائے گی ٗ اس کا انتظار کرتے ہوئے موقع ہو تو جائسی کو پھر سے  پڑھا جاسکتاہے۔