آپ کے ساتھ تو کھیل ہو چکا ہے۔ اب نہ تالی پیٹنےکے لائق بچے ہیں نہ گالی دینے کےلائق۔
قارئین کو آج کا انگریزی والا انڈین ایکسپریس خرید کر رکھ لینا چاہئے۔ ایک قاری کے طور پر آپ بہتر ہوںگے۔ ہندی میں تو یہ سب ملےگا نہیں کیونکہ زیادہ تر ہندی اخبار کے مدیر اپنے دور کی حکومت کے ’کرانی ‘ ہوتے ہیں۔کارپوریٹ کے دستاویزوں کو سمجھنا اور اس میں کمیاں پکڑنا یہ بہت ہی مہارت کا کام ہے۔ اس کے بھیتر کے راز کو سمجھنے کی صلاحیت ہر کسی میں نہیں ہوتی ہے۔ میں تو کئی بار اس وجہ سے بھی ہاتھ کھڑے کر دیتا ہوں۔ نیوز روم میں ایسی قابلیت کے لوگ بھی نہیں ہوتے ہیں جن سے آپ پوچھکر آگے بڑھ سکیں ورنہ کوئی آسانی سے آپ کو گمراہ کر سکتا ہے۔
اس کا حل نکالا ہے’آئی سی آئی جے‘نے۔ دنیا بھرکے (96)نیوز تنظیموں کو ملاکر ایک گروپ بنا دیا ہے۔ اس میں کارپوریٹ کھاتوں کو سمجھنے والے وکیل اور چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ بھی ہیں۔ انڈین ایکسپریس اس کا حصہ ہے۔ آپ کو کوئی ہندی کا اخبار اس کا حصےدار نہیں ملےگا۔ بغیر صحافیوں کے گلوبل نیٹ ورک کے آپ اب کارپوریٹ کی رپورٹنگ ہی نہیں کر سکتے ہیں۔
1 کروڑ 30 لاکھ کارپوریٹ دستاویز وں کو پڑھنے اور سمجھنے کے بعد دنیا بھرکے اخباروں میں شائع ہونا شروع ہوا ہے۔ انڈین ایکسپریس نے آج اس کو کئی صفحات پر شائع کیا ہے۔ آگے بھی شائع کر ےگا۔ پناما پیپرز اور پیراڈائسزپیپرز کو ملاکر دیکھیںگے تو پانچ سو ہزار لوگوں کے پیسے کے نظام پر قبضہ ہے۔ آپ خودہی اپنی اخلاقیات کا کرتا پھاڑتے رہ جائیںگے مگر یہ ظالمانہ اشرافیہ نظام اقتدار کا دامن تھامے رہےگا۔ اس کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ اس کے یہاں کوئی اخلاقیات نہیں ہے۔ وہ اخلاقیات کا فرنٹ بھر ہے۔
راجیہ سبھا میں سب سے امیر اور بی جے پی کے رکن پارلیامنٹ آر کے سنہا کا بھی نام ہے۔ جینت سنہا کا بھی نام ہے۔ دونوں نے جواب بھی دیا ہے۔ نوٹ بندی کی سالگرہ پر کالا دھن مٹنے کا جشن منایا جانے والا ہے۔ ایسے موقع پر پیراڈائز پیپرز کا یہ انکشاف ہمیں جذبات کے رو میں بہنے سے روکےگا۔ امیتابھ بچن، اشوک گہلوت، ڈاکٹر اشوک سیٹھ، کوچنگ کمپنی فٹجی، نیرا راڈیا کا بھی نام ہے۔آنے والے دنوں میں پتا نہیں کس کس کا نام آئےگا، میڈیا کمپنی سے لےکر دوا کمپنی تک معلوم نہیں۔
ایکسپریس کی رپورٹ میں جینت سنہا کی صفائی پڑھیںگے تو لگےگا کہ کوئی خاص معاملہ نہیں ہے۔ جب آپ اسی خبر کوپانڈوڈاٹ کام پر 26 مئی 2014 کو MARKS AMES کے تجزیے کو پڑھیںگے تو لگےگا کہ آپ کے ساتھ تو کھیل ہو چکا ہے۔ اب نہ تالی پیٹنےکے لائق بچے ہیں نہ گالی دینے کےلائق۔ جو آج شائع ہوا ہے اس کو تو MARK AMES نے 26 مئی 2014 کو ہی لکھ دیا تھا کہ اومیدیارنیٹ ورک مودی کی جیت کے لئے کام کر رہا تھا۔ یہی کہ 2009 میں اومیدیارنیٹ ورک نے ہندوستان میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کی، اس سرمایہ کاری میں اس کے ڈائریکٹر جینت سنہا کا بڑارول تھا۔
2013 میں جینت سنہا نے استعفیٰ دےکر مودی کے ’وجے ابھیان ‘میں شامل ہونے کا اعلان کر دیا۔ اسی سال نریندر مودی نے تاجروں کے ایک جلسے میں تقریر کی اور کہا کہ ای کامرس کو کھولنے کی ضرورت ہے۔ یہ بی جے پی کی پالیسی کے ٹھیک الٹ تھا۔ اس وقت بی جے پی، پارلیامنٹ میں ریٹیل سیکٹر میں غیرملکی سرمایہ کاری کی زوردار مخالفت کر رہی تھی۔ بی جے پی حامی تاجرطبقہ پارٹی کے ساتھ دم دار طریقے سے کھڑا تھا کہ اس کے حقوق کی حفاظت بی جے پی ہی کر رہی ہے مگر اس کو بھی نہیں پتا تھا کہ اس پارٹی میں ایک ایسے نیٹ ورک کا اثر ہو چکا ہے جس کا مقصد صرف ایک ہی ہے۔ ای کامرس میں غیرملکی سرمایہ کاری کے مواقع کو بڑھانا۔
مجھےپانڈو ڈاٹ کام کے بارے میں آج ہی پتا چلا۔ میں نہیں جانتا ہوں کیا ہے لیکن آپ بھی سوچئے کہ 26 مئی 2014 کو ہی پردے کے پیچھے ہو رہے اس کھیل کو سمجھ رہا تھا۔ ہم اور آپ اس طرح کے کھیل کو کبھی سمجھ ہی نہیں پائیںگے اور نہ سمجھنےکے لائق ہیں۔ تبھی تو لیڈر ہمارے سامنے ہندو مسلم کی باسی روٹی پھینک کر ہمارا تماشہ دیکھتا ہے۔
جب مودی کی جیت ہوئی تھی تب اومیدیارنیٹ ورک نے ٹوئٹ کرکے مبارکباد دی تھی۔ ٹیلی گراف میں ہزاری باغ میں ہی ایک پریس کانفرنس کی رپورٹ کا حوالہ دیا گیا ہے۔ جس میں مقامی بی جے پی رہنما شیو شنکر پرساد گپت کہتے ہیں کہ جینت سنہا 13-2012 میں دو سال مودی کی ٹیم کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔ اس دوران جینت سنہا اومیدیار نیٹ ورک میں بھی کام کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ 2013 میں استعفیٰ دیا۔
اس میں مارک نے لکھا ہے کہ جینت سنہا اومیدیارنیٹ ورک کے افسر ہوتے ہوئے بھی بی جے پی سے منسلک تھنک ٹینک انڈیا فاؤنڈیشن میں ڈائریکٹر ہیں۔ اسی فاؤنڈیشن کے بارے میں ان دنوں دی وائر میں خبر شائع ہوئی ہے۔ شوریہ ڈوبھال جو قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال کے بیٹے ہیں، وہ اس فاؤنڈیشن کے سب کچھ ہیں۔ جینت سنہا ،ای کامرس میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی چھوٹ کی وکالت کرتے رہتے تھے جبکہ ان کی پارٹی ریٹیل سیکٹر میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو لےکر زوردار مخالفت کرنے کا ڈراما کرتی تھی۔ عوام اس کھیل کو کیسے دیکھے۔ کیا سمجھے۔ بہت مشکل ہے۔ ایکسپریس کی رپورٹ کودی وائر ڈاٹ ان اورپانڈو ڈاٹ کام کے ساتھ پڑھا جانا چاہئے۔
کیا صحیح میں آپ اس طرح کے کھیل کو سمجھنےکے لائق ہیں؟ میرا تو دل بیٹھ گیا ہے۔ جب ہم دی وائر کی رپورٹ پڑھ رہے تھے تب ہمارے سامنےپانڈوڈاٹ کام کی تین سال پرانی رپورٹ نہیں تھی۔ تب ہمارے سامنے پیراڈائز پیپرز نہیں تھے۔ کیا ہم واقعی جانتے ہیں کہ یہ جو لیڈر دن رات ہمارے سامنے دکھتے ہیں وہ کسی کمپنی یا نیٹ ورک کے فرنٹ نہیں ہیں؟ کیا ہم جانتے ہیں کہ 2014 کی جیتکے پیچھے لگے اس طرح کے نیٹ ورک کے کیا مفاد رہے ہوںگے؟ وہ تاریخ کا سب سے مہنگا انتخاب تھا۔ کیا کوئی ان نیٹ ورک کا ایجنٹ بنکر ہمارے سامنے دعویٰ کر رہا تھا؟ جس کو ہم اپنا بنا رہے تھے کیا وہ پہلے ہی کسی اور کا ہو چکا تھا؟
اس لئے جانتے رہئے۔ کسی ہندی اخبار میں یہ سب نہیں ملنے والا ہے۔ اس لئے گالی دینے سے پہلے پڑھئے۔ اب میں اس پر نہیں لکھوںگا۔ یہ بہت ڈراونا ہے۔ ہمیں ہماری ذاتی اخلاقیات سے ہی کچلکر مار دیا جائےگا مگر ان اشراف اور نیٹ ورکوں کا کچھ نہیں ہوگا۔ان کا ملک ایک ہی ہے۔ پیسہ۔ خاموشی سے تماشہ دیکھئے۔
(رویش کمار کا یہ مضمون ان کے فیس بک پیج سے لیا گیا ہے۔)
Categories: فکر و نظر