اگر ریپ سروائیور اقتصادی یا سماجی طور پر پسماندہ طبقے سے ہے تو پولیس اور قانون ایک نہیں سنتی ، کئی معاملات میں پولیس ایف آئی آردرج کرنےکے بجائےمعاملہ ” نمٹانے ” یا ” سمجھوتہ ” کرنے پر دباؤ ڈالتی ہے۔
نئی دہلی:حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ(ایچ آر ڈبلیو) نے آج یہاں جاری ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ہندوستان میں ریپ سروائیورکوانصاف اور فوری امداد حاصل کرنے میں بہت سی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ دسمبر 2012 میں دہلی میں طالبہ جیوتی سنگھ پانڈیہ کے گینگ ریپ اور قتل کے بعد سے قانونی اور دیگر اصلاحوں کو اپنایا گیا، لیکن وہ ابھی تک پوری طرح زمین پر نہیں اتر پائے ہیں۔
“سب مجھے ہی الزام دیتے ہیں(‘Everyone Blames Me’: Barriers to Justice and Support Services for Sexual Assault Survivors in India) “کے عنوان سے شائع ایچ آر ڈبلیو کی اس رپورٹ میں جنسی تشدد کے بعدانصاف پانے میں رکاوٹیں، یہ بتاتی ہیں کہ ریپ سروائیور خاص طور سے عورتیں اور لڑکیاں اکثر پولیس اسٹیشنوں اور ہسپتالوں میں بے عزتی کا سامناکرتی ہیں۔ پولیس اکثر ان کی شکایت درج کرنے میں آناکانی کرتی ہے، متاثرین اور گواہوں کو معمولی تحفظ ملتا ہے، اور پیشہ ور معالج ابھی بھی قابل مذمت ” ٹو-فنگر ٹیسٹ “کے لئے دباؤ ڈالتے ہیں۔ انصاف اور وقار کے لئے یہ رکاوٹیں ملزم کے مجرمانہ جائزوں کے دوران متاثر ین کو ملنے والی ناکافی صحت خدمات، مشورہ اور قانونی مدد سے جڑی ہوئی ہیں ۔
ہیومن رائٹس واچ کے جنوبی ایشیا کی ڈائریکٹر میناکشی گانگولی کے مطابق” پانچ سال پہلے، دلّی گینگ ریپ کی بے رحمی سے صدمے سے بھرے ہندوستانیوں نے استحصال کے بارے میں خاموشی کو ختم کرنے اور مجرمانہ انصاف میں اصلاحوں کی مانگ کی۔ آج مضبوط قانون اور پالیسیاں ہیں، لیکن یہ متعین کرنے کے لئے بہت کچھ کیا جانا باقی ہے کہ پولیس، ڈاکٹر اور عدالتیں لواحقین کے ساتھ عزّت کے ساتھ پیش آئیں۔ “
اس رپورٹ کو تیا رکرنے کے لیے ہیومن رائٹس واچ نے چار ہندوستانی ریاستوں، ہریانہ، اتّر پردیش، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں زمینی ریسرچ اور انٹرویو کیا کیونکہ یہاں بڑی تعداد میں ریپ کے واقعات ہوئے ہیں۔ ساتھ ساتھ نئی دہلی اور ممبئی جیسے شہروں میں بھی یہ مطالعہ کیا گیا۔ رپورٹ میں 21 معاملات کی تفصیلات ہیں جن میں سے 18 سال کی کم عمر کی لڑکیوں سے منسلک 10 معاملے شامل ہیں۔ یہ نتیجہ متاثرین، ان کے لواحقین، وکیلوں، انسانی حقوق کارکن، ڈاکٹروں، فورینسک ماہرین، اور انتظامی (سرکاری) اور پولیس افسروں کے ساتھ کئے گئے 65 سے زیادہ انٹرویو پر مبنی ہیں۔ ساتھ ہی یہ ہندوستانی تنظموں کی ریسرچ سے بھی لئے گئے ہیں۔
غور طلب ہے کہ ہندوستانی قانون کے تحت، جو پولیس افسر جنسی استحصال کی شکایت درج کرنے میں ناکام رہتے ہیں، ان کو دو سال تک جیل کی سزا کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔لیکن رپورٹ میں بتا یاگیا ہے کہ پولیس اکثر ایف آئی آردرج نہیں کرتی ہے، جو کہ پولیس تفتیش شروع کرنے کا پہلا قدم ہے۔ وہ خاص کر تب ایسا کرتی ہے اگر متاثرہ اقتصادی یا سماجی طور سے پسماندہ طبقے سے آتی ہو۔ کئی معاملات میں، پولس نے ایف آئی آر داخل کرنے میں رکاوٹ ڈالی یا متاثرہ کے پریوار پر ” نمٹانے ” یا ” سمجھوتہ ” کرنے پر دباؤ ڈالی، بالخصوص اگر ملزم ایک طاقتور پریوار یا طبقے سے تھا۔
اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں گواہ تحفظ قانون کی کمی ریپ سروائیور اور گواہ کو دباؤ میں آنے کے لئے مجبور کر دیتی ہے جو استغاثہ کو کمزور کرتا ہے۔ مثال کے لئے، کھاپ پنچایت، غیر سرکاری دیہی ذاتی کونسل، اکثر دلت اور دیگر نام نہاد ” چھوٹی ذات ” پریواروں پر مجرمانہ معاملے کی تقلید نہیں کرنے یا اپنی گواہی کو بدلنے کا دباؤ ڈالتے ہیں، اگر ملزم متاثر کن ذات سے آتا ہو۔
ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ جنسی تشدد متاثرین، بالخصوص جو غریب اور پسماندہ طبقات سے آتے ہیں، کو مناسب قانونی مدد بھی نہیں ملتی ہے، 1994 کے سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ پولیس کو جنسی تشدد کی متاثرین کو قانونی مدد فراہم کی جانی چاہئے اور تمام پولیس اسٹیشنوں کو قانونی ا مدادی اختیارات کی فہرست رکھنی چاہئے، لیکن وہ شاید ہی ایسا کرتے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کے ذریعے جن 21 معاملات کا دستاویز تیار کیا گیا ہے ان میں سے کسی میں بھی پولیس نے متاثرہ کو قانونی مدد کے ان کے حقوق کے بارے میں مطلع نہیں کیا یا قانونی مدد فراہم نہیں کی۔
ہیومن رائٹس واچ نے اپنی تفتیش میں پایا ہے کہ 2015 میں ریپ سروائیورکے لیے مرکزی حکومت کی طرف سے قائم کرہ معاوضہ فنڈ کے تحت ریپ متاثرہ کو کم از کم 3 لاکھ روپے دئے جانے ہیں، لیکن ہرایک ریاست الگ الگ رقم فراہم کرتے ہیں۔ یہ انتظام غیر موثرہے اور لواحقین کو لمبا انتظار کرنا پڑتا ہے یا وہ اس اسکیم کا استعمال کرنے میں قاصر رہتے ہیں۔ایچ آر ڈبلیو کے ذریعے جن 21 معاملات کا دستاویز تیار کیا گیا ہے ان میں سے صرف تین لواحقین کو معاوضہ حاصل ہوا تھا۔
ون اسٹاپ سینٹر اسکیم، پولیس مدد، قانونی مدد، علاج اور مشورہ فراہم کرنے والی ایک مربوط خدمت ہے جو کہ عمل میں غیر موثر ہے۔ حکومت کے مطابق، اس نے ملک بھر میں 151 مرکز قائم کئے، لیکن ایچ آر ڈبلیو اور دیگر تنظیموں کے ذریعے جمع کیے گئے حقائق مختلف متعلقہ شعبوں اور وزارتوں کے درمیان ہم آہنگی کی کمی کو دکھاتے ہیں۔ ان مراکز کے بارے میں بیداری بھی بہت کم ہے۔
ایچ آر ڈبلیو کی اس رپورٹ کو ہندی اور انگریزی میں پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
Categories: حقوق انسانی, خبریں