رعنا ایوب کئی برسوں تک تہلکہ میگزین سے وابستہ رہیں ۔تہلکہ سے الگ ہونے کے بعدبطورآزادصحافی،انہوں نےاپنےکام کو جا ری رکھا۔حالاں کہ وہ اپنے اس پیشہ سے وابستگی کے باوجودرپورٹنگ کر سکتی،مضامین لکھ سکتی تھیں،ٹی وی میں اینکرنگ کرسکتی تھیں،لیکن انھوں نےگجرات کےفسادات اورفرضی انکاونٹرسےمتعلق تفتیش کی اور کئی اہم انکشافات کیے ۔
پیش نظر کتاب اسی اسٹنگ کی روداد ہے۔اس کےلیے رعنانے گجرات میں 8ماہ قیام کیااوراپنی تفتیش کے دوران گجرات فسادات کےوقت اہم عہدوں پر فائز افسران سے بات چیت کی۔رعنا کےہی ایک اسٹوری کی وجہ سے اس وقت گجرات کے وزیر داخلہ اورموجودہ بی جے پی صدرامت شاہ کو گرفتار کیا گیا تھا۔پیش نظر کتاب’گجرات فائلس:پس پردہ حقائق کا انکشاف‘رعنا کی انگریزی کتاب کا اردو ترجمہ ہے ۔ جس کو محمد ضیاءاللہ ندوینے اردو میں ترجمہ کیاہے ۔کتاب میں جملہ گیارہ ابواب مع حواشی موجودہیں۔یہ بات قابل ذکر بات ہے کہ رام چندرگہانے گجرات فائلس کو ایک جرٲت مندانہ اور اہم کتاب قرار دیا ہے۔کتاب میں جسٹس بی این کرشنا کا پیش لفظ ہے ۔
کتاب کے پہلے باب میں رعنانے سہراب الدین سے متعلق نریندر مودی کی اشتعال انگیزتقریر کا حوالہ دیا ۔ اس کےبعدرعنانے مودی سے سہراب کے بارے میں سوال کیاکہ وہ سہراب کو دہشت گرد ٹھہراتےہیں‘جبکہ گجرات کے تین افسران کو سہراب کے فرضی انکاونٹر معاملے میں گرفتار کیا گیا ؟
اس سوال پر مودی نے انھیں کوئی جواب نہیں دیا۔رعنا نے اس بارے میں لکھا ہےکہ”انکاونٹرایک گھناونی سازش کا حصہ تھا ۔ جس کا مقصد بے قصوروں کو قتل کرکے ان پر دہشت گردہونے کا الزام لگانا تھا “
جس وقت یہ کتاب پہلی مرتبہ انگریزی میں آئی‘ مین اسٹریم میڈیا میں اس کتاب کوبلیک آؤٹ کیا گیا ۔کتاب کی ناشر بھی مصنفہ ہی ہیں ۔
دوسرے باب میں مصنفہ لکھتی ہیں کہ انہوں نے اپنی اصل پہچان کو چھپا کرمیتھلی تیاگی کے نام سے ایک آزاد فلم ساز، امریکن فلم انسٹی ٹیوٹ کے طور پر اپنی تفتیش کوآگے بڑھایا۔اس کام کے لیےرعنا نے ایک فرانسیسی طالب علم کی مدد حاصل کی ۔
اس طرح کے جوکھم مول لیتے ہوئے رعنا نے اپنی تفتیش جاری رکھی۔2007میں جی ایل سنگھل گجرات پولیس کے ایک اہم عہدے پر فائز تھے ۔عشرت جہاں کے فرضی انکاونٹر کے معاملے میں رعنا نے اپنی ملاقات کے دوران انتہائی ہوشیاری سےسنگھل سے سوالات کیےاور یہ معلوم کیا کہ کس طرح حکومت گجرات اورپولیس اپنے حق میں دیگرلوگوں کاغلط استعمال کر رہے ہیں۔
رعنانے چوتھے باب میں راجن پریادرشی سے ملاقات کا ذکر کیا ہے ۔پریا درشی پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والا سبکدوش پولیس افسر تھا،انکے ساتھ حکومتی سطح پراور سماجی زندگی میں امتیازی سلوک روا رکھا گیا،رعنا نے ان سے یہ معلوم کیاکہ پولیس کے اعلی عہدےداران حکومت کے اشارہ پر کام کرتے رہے ۔ان حقائق کے منظر عام پر آنے کے بعد رعنا کی کردار کشی بھی کی گئی ۔
پانچویں باب میں رعنا نےخاتون پولیس افسراوشارادا سے ملاقات کی تفصیلات درج کی ہے ۔رعنا نےاپنے گجرات مشن کے دوران جن جن افسران سے معلومات حاصل کی ہے ‘اس سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ حکومت نے ان افسران کو استعمال کرتے ہوئے گجرات میں فسادات کو بھڑکانے کا کام کیا ۔
مجموعی طور پر یہ کتاب گجرات فسادات کے سچ کو سامنے لاتی ہےاور Investigative Journalism کے خطرات سے بھی روشناس کراتی ہے۔
(تبصرہ نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں جرنلزم کے طالب علم ہیں)
Categories: حقوق انسانی, فکر و نظر