ادبستان

کیا اسماعیل میرٹھی صرف بچوں کےشاعراوردرسی کتابوں کےمولف تھے؟

’اردو ادب کا یہ ایک المیہ ہی ہے کہ اسماعیل میرٹھی کو یا تو بچوں کا شاعر تسلیم کیا گیا یا پھر اردو کی پہلی کتاب سے چوتھی کتاب تک کا مولف تصور کیا گیا۔‘

ismaiel merathi

Photo Credit : Monograph by Adil Aseer Dehlvi/Sahitya Academy

اسماعیل میرٹھی آج ہی کے دن 1844کو میرٹھ میں پیدا ہوئے۔اب یہ محلہ اسماعیل نگر کے نام سے معروف ہے۔اسماعیل عام طور پر بچوں کے ادب کے لیے مشہور ہیں ،حالاں کہ ان کو جدید نظم کے بنیاد گزاروں میں خاص اہمیت حاصل ہے۔گوپی چند نارنگ کے بقول ؛بچوں کا دب اسماعیل میرٹھی کی ادبی شخصیت کا محض ایک رخ ہے ۔ان کا شمار جدید نظم کے ہیئتی تجربوں کے بنیاد گزاروں میں بھی ہونا چاہیے۔‘

کوثر مظہری نے اپنی کتاب ’جدید نظم حالی سے میراجی تک ‘میں میرٹھی کی ادبی شناخت اور بعض اہم باتوں کے ضمن میں لکھا ہے کہ ؛ہمارے سماج اور ہمارے اردو ادب کا یہ ایک المیہ ہی ہے کہ اسماعیل میرٹھی کو یا تو بچوں کا شاعر تسلیم کیا گیا یا پھر اردو کی پہلی کتاب سے چوتھی کتاب تک کا مولف تصور کیا گیا۔ یہ سچ ہے کہ انھوں نے بچو ں کے لیے اسلم کی بلّی، کوّا،پن چکّی،ہماری گائے،ایک جگنو اور بچہ، بچہ اور ماں،ایک پودا اور گھاس، ایک لڑکا اور بیر وغیرہ جیسی نظمیں کہیں مگر ان میں ان کے گہرے تجربات اور مشاہدات کے نقوش ملتے ہیں۔ کہیں کہیں تمثیلی رنگ بھی ہے۔

shagofa

Photo Credit: Shagofe

ان نظموں کے علاوہ انہوں نے بڑی نظمیں بھی کہیں جن میں شاعری کے رموز بھی ہیں اور افکار عالی کی پیش کش بھی۔ جیسے جریدہ عبرت، آثار سلف، مکالمہ سیف و سبو،آب زلال، بارش کا پہلا قطرہ، صبح کی آمد، حب وطن، موت کی گھڑی وغیرہ۔ اس سے بڑی ایک اہم بات یہ ہے کہ گرچہ اسماعیل میرٹھی نے پابند نظمیں (قوافی کی پابندی کے ساتھ) کہیں مگر اس عبوری دور میں ہیتئی تجربے بھی ہوئے۔اسماعیل میرٹھی نے قوافی کی پابندی کیے بغیر بچو ں کے لیے دو نظمیں ”چڑیا کے بچے“ اور ”تاروں بھری رات“ کہیں۔ یوں تو حالی بھی قوافی کی پابندی کوغیر ضروری تصور کرتے تھے مگر عملی طور پر ان سے اجتہاد نہ ہوسکا۔ نظم معرّا کے سلسلے میں نقادو ں نے کتنوں کے سر اس کی ایجاد کا سہرا باندھا۔ مگر جس نظم معرا کو بیسویں صدی میں فروغ حاصل ہوا اس کی داغ بیل بزرگ شاعر اسماعیل میرٹھی کے ہاتھوں انیسویں صدی میں پڑ چکی تھی۔‘

 اسماعیل میرٹھی نے نظم و نثر میں بکثرت لکھا،فارسی میں بھی تصنیف و تالیف کا کام کیا۔ 25سال کی عمر میں طلسم اخلاق کے نام سے فسانہ عجائب کی طرز پر قصہ لکھا۔1880میں نصابی ضروریات کے پیش نظر جغرافیہ پر ایک کتاب’مرقع زمین‘کے نام سے تالیف کی۔اس کتاب میں انہوں نے جغرافیہ کے پڑھانے کا طریقہ بھی بتایا۔اسماعیل خود خوش خط تھے ،شاید اس لیے بھی انہوں نے طلبہ کی خوش خطی کے لیےکتابیں تالیف کیں۔اس طرح ان کی ادبی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ درسی ضروریات کے تحت جہاں انہوں نے بنیادی کتابیں تحریرکیں،گرامر کی کتابیں لکھیں وہیں اردو کی غزلیہ شاعری سے زیادہ نظمیہ شاعری کو ہر لحاظ  سے مالا مال کیا ۔

سہارن پورضلع اسکول میں فارسی پڑھائی،بعد میں فارسی کے ہیڈ مولوی بھی مقرر ہوئے۔آگرہ میں بھی بارہ برس درو تدریس کا فریضہ انجام دیا۔ادبی خدمات کے اعتراف میں’خان صاحب‘ کا خطاب ملا۔ان کو علم ہندسہ سے بھی خصوصی دلچسپی تھی ۔اوورسیری کی تعلیم حاصل کر نے رُڑکی کالج بھی گئے تھے ،جہاں انہوں نے داخلے کے لیے امتحان دیا اور علم ہندسہ میں امتیازی درجہ حاصل کیا۔حالاں کہ وہ یہاں اپنی تعلیم جاری نہ رکھ سکے ،لیکن کہتے ہیں کہ ؛’وہ اپنے فرزند اصغر کو جبکہ وہ آگرہ کالج میں ایف اے زیر تعلیم تھے ،یہ مضمون بہ آسانی پڑھا دیا کرتے تھے۔‘

ان کی مشہورنظموں کے کچھ حصے ملاحظہ فرمائیے؛

نہر پر چل رہی ہے پن چکی

دھن کی پوری ہے کام کی پکی

بیٹھتی تو نہیں کبھی تھک کر

تیرے پہیے کو ہے سدا چکر(نظم پن چکی )

صبر و محبت میں ہے سرافرازی

سست کچھوے نے جیت لی بازی

نہیں قصہ یہ دل لگی کے لیے

بلکہ عبرت ہے آدمی کے لیے

ہے سخن اس حجاب میں روپوش

ورنہ کچھوا کہاں کہاں خرگوش (کچھوا اور خرگوش)