ادبستان

شبلی نعمانی :’شعرالعجم‘وجودمیں نہ آتی توہم تخیل کی تہذیب سے آشنانہ ہوپاتے

یہ عجب تماشہ ہے کہ میرتقی میرپرایک معمولی مضمون لکھنے والا ہمارے ہاں ناقد کہلاتاہے لیکن نیوٹن کے نظریہ پرنقد کرنے والا Criticنہیں بن پاتا۔ جبکہ تنقید کا دائرہ سائنسی، سماجی علوم کو بھی محیط ہے۔

Photo : SlideShare.net

Photo : SlideShare.net

حالی اور شبلی کی تنقید کاشجرہ نسب ایک ہے۔مشرقی شعریات کادونوں نے براہ راست غائر مطالعہ بھی کیاہے اور ترجمہ کے وسیلے سے مغربی افکار و نظریات سے آشنا بھی تھے۔

اساسی فکریات میں اتحاد کے باوجود حالی اورشبلی کے نظریات نقدمیں کچھ اختلافات اورفاصلے بھی ہیں۔ حالی کے نظریہ شعر کا محور ملٹن کا ایک مقولہ ہے جس پر بقول خلیل الرحمن اعظمی خودملٹن بھی عمل پیرانہ ہواتوشبلی کے نظریہ شعر کی اساس ارسطو کانظریہ تخیل و محاکات ہے۔ سادگی، اصلیت اور جوش حالی کے یہاں شعر کے عناصر ترکیبی ہیں توشبلی محاکات اور تخیل کواجزائے اصلی قراردیتے ہیں۔ حالی کے یہاں معنی پرزور ہے توشبلی بندش کی چستی اور اندازبیان کو اہمیت دیتے ہیں۔حالی اپنے دیوان کے سرنامہ پر درمع الدھر کیف مادار لکھ کر زمانہ شناسی اور چلو تم ادھرکو ہواہوجدھر کی بات کرتے ہیں توشبلی جڑوں کی طرف واپسی پرزوردیتے ہوئے ماضی سے مکمل طورپر مربوط رہنے کی وکالت کرتے ہیں اوریہ کہتے ہیں کہ ’مسلمانوں کی ترقی یہ ہے کہ پیچھے ہٹتے جائیں، پیچھے ہٹتے جائیں یہاں تک کہ صحابہ کی صف سے جاکے مل جائیں۔‘

حالی پیروی مغربی کی بات کرتے ہیں توشبلی جادہ مغربیاں کودل پذیر ، دل آویز، دل آرا کہتے ہوئے اورمغربی فیوض وبرکات کا اعتراف کرتے ہوئے مغرب کے ثقافتی تحفظات، تعصبات اور منفی ادراکات کا علمی استدراک بھی کرتے ہیں۔حالی کاذہن گلشن ہند کی خوشبو سے معطر ہے توشبلی کے ساغرمیں بادہ شیرازبھی ہے۔ حالی کی نثر سادہ اور شفاف ہے تو شبلی کی نثر میں جمالیاتی استدلالی کیفیت ہے۔

عرفان وادراک کی سطح پران فطری فاصلوں کے ساتھ حالی اورشبلی دونوں ہی ادب کے معمار اور ستون کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دونوں ہماراماضی بھی ہیں اورمستقبل بھی—— اپنے عہد کی کی ترجیحات کے تناظر میں ہم انھیں حجت نہ بھی تسلیم کریں تب بھی شبلی اور حالی ہمارے حوالے میں شامل رہیں گے۔

حالی نے ’مقدمہ شعروشاعری‘ کی صورت میں اردو تنقید کونقش اول عطاکیا توشبلی نے ’موازنہ انیس ودبیر‘ لکھ کر تقابلی تنقید کی بنیاد رکھی اور ’شعرالعجم‘ سے عملی تنقید کی نئی راہ دکھائی۔یہی ’شعرالعجم‘ میراموضوع بحث ہے مگراس سے پہلے شبلی کے نظام نقد کے حوالے سے چندضمنی باتیں ضروری ہیں۔

شبلی مختلف شعبہ ہائے ذہن سے وابستہ تھے۔ وہ مورخ، فلسفی، سوانح نگار، سیرت نویس، معلم، فقیہ، محدث، شاعر و ناقد تھے۔وہ ایسی بوقلموں اور متنوع شخصیت تھے جنھیں صاحب تاریخ ادب اردو نے کثیر الاشواق ،جامع الاذواق اورمجموعہ کمالات مختلفہ قرار دیاہے۔ عربی، فارسی کے علاوہ فرنچ زبان سے بھی واقف تھے۔ مختلف ملکوں کے فلسفوں، ثقافتوں اورتہذیبوں کی تاریخ سے آگاہ تھے۔ وہ Interculturally competentتھے، مگر ان کی ذہنی مناسبت فلسفہ وتاریخ سے زیادہ تھی اوراس کی وجہ یہ تھی کہ سرسیداحمد خاں نے علی گڑھ کے زمانہ قیام میں انھیں صیغہ تاریخ کا جنرل سکریٹری مقرر کیاتھا۔ ابن خلدون کے فلسفہ تاریخ نے انھیں مہمیزکیا اوراسی فلسفہ تاریخ کے وسیلے سے تنقید کے مختلف تصورات تک ان کی رسائی ہوئی۔

شبلی کی تنقید کے دائرے میں تاریخ، ثقافت، علم کلام اور دیگر علوم وفنون شامل ہیں۔ ان کی اصل تنقیدتو الانتقاد علی المدن الاسلامی، الجزیہ، کتب خانہ اسکندریہ، اورنگ زیب عالم گیر کے ذریعہ تہذیبی کلامیہ کی صورت میں سامنے آئی جس کی توسیعی شکلیں ایڈورڈسعید کی اورنٹلزم، ہومی بھابا کےسین،شن اورگائتری چکرورتی کے فلسفیانہ ڈسکورس میں نظرآتی ہیں۔

شبلی کااصل میدان فلسفہ،تاریخ اورتہذیب کی تنقید ہے۔شبلی کی تنقید کوادبیات تک محدود نہیں کیاجاسکتا۔ یہاں اس المیہ کا ذکرضروری ہے کہ ہم نے تنقید کوادب سے اس طرح مختص کردیا ہے کہ تنقید خودگھٹن سی محسوس کرنے لگی ہے، جبکہ ادب کا معاملہ یہ ہے کہ ادب کا خودمختار،قائم بالذات،خودمکتفی وجود ہے ہی نہیں، یہ مکمل طور سے قائم بالذات ہے۔ ادب کا بنیادی انحصار نفسیات، سماجیات، لسانیات، تاریخ اور فلسفہ پر ہے اور ان ہی علوم وفنون سے ادب کو تنقیدی نظریات بھی میسرآتے ہیں۔ یونگ، فرائڈ ہوں یاہرسل،سوسیوریاژاک دریدا یا جان اسٹوارٹ مل، یہ سب بالترتیب نفسیات، لسانیات، تاریخ یاسیاسی اقتصادیات سے وابستہ ہیں، مگریہ عجب تماشہ ہے کہ میرتقی میرپرایک معمولی مضمون لکھنے والا ہمارے ہاں ناقد کہلاتاہے لیکن نیوٹن کے نظریہ پرنقد کرنے والا Criticنہیں بن پاتا۔ جبکہ تنقید کا دائرہ سائنسی، سماجی علوم کو بھی محیط ہے۔

شبلی نے اپنی تمام تنقیدی قوتوں اوربصیرتوں کا استعمال یورپ کے اس بیانیہ کو رد کرنے میں صرف کیا جس کی بنیاد اسنیلا اورجبرپر تھی۔ شبلی نے مغرب کے ثقافتی ادراک کوچیلنج کیا اوریورپ نے باقی دنیا سے جوایک ثنوی سماجی ربط (Social Binary Relation)قائم کررکھاتھا، اس سے لوگوں کو آشناکیا اور مستشرقین کے اس تاثر کی تردید کی کہ مشرق وسطی میں مسلمان حکمرانوں نے صرف خلوت گہ خوباں اور شبستاں نگاراں کو آباد کررکھاتھا، مغربی اور نوآبادیاتی اندازفکر کی مکمل مخالفت شبلی نے کی اور یوں بھی 1857ءمیں جب شبلی پیداہوئے تھے تواس وقت ہندوستانیوں کی حیثیت Subalternجیسی ہوگئی تھی۔ نوآبادکار اپنے ثقافتی تشخصات کے تسلط کے لیے کوشاں تھے اور کچھ ارباب علم و دانش بھی نوآبادیاتی مقاصد اور مفادات کی تکمیل میں معاون ثابت ہورہے تھے۔ ایسے وقت میں شبلی نے مشرق کے ثقافتی مظاہر کی نہ صرف تعبیر وتشریح کی بلکہ مشرق کی تاریخ وتہذیب کوایک نیاتشخص عطاکیا۔

’شعرالعجم‘ اسی ثقافتی تشخص اورجستجو کا نتیجہ ہے مگر شعرالعجم شبلی کے تنقیدی ذہن وجہات کاصرف ایک ذیلی عنوان ہے۔

علامہ شبلی نعمانی شعرالعجم کے سبب تصنیف کے ذیل میں لکھتے ہیں:

’ایرانی ہمیشہ سے تہذیب،معاشرت اور علوم وفنون میں ممتاز رہے۔اسلام نے ان کو ممتازتر کردیا۔ بوعلی سینا، غزالی، رازی، طوسی،امام بخاری،مسلم،سیبویہ، جوہری سب ایران ہی کی خاک سے اٹھے تھے۔ آج تمام اسلامی دنیا میں ایران ہی کی تہذیب ومعاشرت جاری ہے—— ایران کی خاک فنون لطیفہ کی قابلیت میں سب سے ممتازتھی اور بالخصوص شاعری اس کاخمیر تھا۔ اسلام نے اس خاص جوہرکوزیادہ چمکایا اوراس حد تک پہنچایاکہ تمام دنیاکی شاعری ایک طرف اور صرف ایران کی شاعری ایک طرف لیکن افسوس یہ ہے کہ آج تک کسی اسلامی زبان میں ایران کی شاعری کی کوئی ایسی تاریخ نہیں لکھی گئی جس سے ظاہرہوتا کہ شاعری کب شروع ہوئی؟‘

شعرالعجم کی تالیف کے پیچھے کچھ ایسے محرکات بھی ہوسکتے ہیں جس کا مقصد کچھ مفروضات اور مزعومات کی تردیدہو۔ مولانا حبیب خاں الرحمن شیروانی کی ایک تحریر سے اس نوع کا ایک اشارہ ملتاہے جس میں انھوںنے ہماری بدمذاقی کا رونا روتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ بدمذاقی نہیں توکیاہے کہ ایک صدائے بازگشت کان میں پڑگئی کہ فارسی شاعری مضامین فطرت سے عاری ہے، اس میں بداخلاقی کے مضامین ہیں ہم میں بھی فونوگراف کی طرح ہی صدابلند ہوگئی مگران فطرت پسندوں میں کتنے ہیں جنھوں نے فارسی شعر و سخن کے باقاعدہ مطالعے کے بعدیہ رائے قائم کی ہے۔‘

شیروانی صاحب کا اشارہ صاف طور پرسمجھ میں آتاہے اوریہ حقیقت ہے کہ فارسی شاعری کا جو مزاج ہے اسے اگر denotative meaningمیں لیاجائے تو بات بداخلاقی کی سامنے آئے گی ہی، ہاں اگرconnotative meaingکے تناظر میں فارسی شاعری کا تجزیہ کیاجائے توپھر سارے اعتراضات رفع ہوجاتے ہیں۔

شبلی نے ’شعرالعجم‘ میں شعرائے سامانیہ،رابعہ، رودکی، عرفی،دقیقی، بلخی، خبازی، مروزی، عنصری، فرخی، فردوسی، طوسی، منوچہری، سنائی، عمرخیام، انوری، نظامی، عطار، اصفہانی، سعدی، امیرخسرو، سلمان ساوجی، حافظ شیرازی، ابن یمین، صنعانی، فیضی، عرفی، نظیری، طالب آملی، صائب اصفہانی، ابوطالب حکیم وغیرہ کے احوال واذکار سے صرف روشناس نہیں کرایاہے بلکہ فارسی شعرا کے تخیل کی تہذیب، بدیع الاسلوبی، جدت ادا، لطافت خیال، جوش بیان اور ان سخنوروں کی قوت تخیل ومحاکات سے روبرو کرانے کی کوشش کی ہے اوراپنے نظریہ شعر، تخیل ومحاکات کے شعری شواہدپیش کیے ہیں۔ ابوطالب حکیم کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ اس کا ہرشعر قوت تخیل کا ایک منظرہے۔ شاعر کوتمام عالم اورعالم کے تمام واقعات قوت تخیل کی وجہ سے ایک اور ہی صورت میں نظرآتے ہیں۔

شبلی بندش کی چستی پر بھی زوردیتے ہیں چنانچہ ’شعرالعجم‘ حصہ دوم میں حافظ شیرازی کے ضمن میں مشترک مضامین والے شعروں میں بندش کی چستی کی مثالیں دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ حسن کلام کابڑا جوہریہی حسن بندش ہے اورحافظ کاقول نقل کرتے ہیں کہ مضمون توبازاریوں تک کوسوجھتے ہیں جو کچھ فرق اور امتیاز ہے۔لطف اوربندش کا ہے۔ سیکڑوں مثالیں موجودہیںکہ ایک مضمون کسی شاعر نے باندھا اوروہی مضمون دوسرے نے باندھا۔الفاظ تک اکثر مشترک ہیں لیکن لفظوںکے الٹ پھیر اور ترتیب سے وہی مضمون کہاں سے پہنچ گیا۔

اس ضمن میں ایک مثال میرا نیس اور دبیر کے یہاں سے پیش کی جاسکتی ہے۔ میرانیس کے مرتبے کا شعرہے:

یہ تو نہیں کہا کہ شہ مشرقین ہوں

مولا نے سر جھکا کے کہا میں حسین ہوں

اسی کو دبیر نے یوں باندھا:

فرمایا میں حسین علیہ السلام ہوں

شبلی نے شعرالعجم میں شعرا کے امتیازات اورتفردات کے تعین کاایک طریق کاربھی عطاکیاہے۔ شعری متون کی روشنی میں شاعری کے مضامین اورممیزات طے کرکے ایک نئی راہ دکھائی ہے۔ اس طرح شعرالعجم عملی تنقید یااطلاقی تنقید کی ایک روشن مثال ہے۔

عملی تنقید کے علاوہ شعرالعجم میں کچھ نظری مباحث بھی ہیں۔ چوتھی جلد میں شبلی نے شاعری کی حقیقت و ماہیئت، شاعری کے مختلف عناصر مثلامحاکات، تخیل، تشبیہ واستعارہ، جدت ولطف ادا ،حسن الفاظ، الفاظ کے انواع واثر، الفاظ کی فصاحت وغرابت پربحث کی ہے۔ مگریہ شبلی کی ذہنی اختراع نہیں ہیں۔ ان میں زیادہ بحثیں وہ ہیں جوارسطو اورجان اسٹیورٹ مل نے اپنے مضمون What is Poetryمیں کہی ہیں۔ واضح رہے کہ ارسطو کا بنیادی میدان فلسفہ ہے تومل بنیادی طورپر ایک فلسفی اورپالٹیکل اکنامسٹ ہیں اور یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ہم تک بیشترتنقیدی تھیوری ثانوی ذرائع سے ہی پہنچی ہے۔ جدیدتنقیدی تھیوریز کی رسائی بھی اسی طور پر ہوئی ہے۔ ژاک دریدا کافلسفہ پس ساختیات (Post Astructularism)بھی ثانوی ذریعہ سے ہی پہنچا ہے کیونکہ دریدا ایک فرانسیسی دانشور ہیں، جن کی کتابیں فرنچ زبان میں ہیں۔ ان کی بیشتر کتابوں کے ترجمے انگریزی میں ہوئے۔ پس ساختیات کانظریہ ہم تک گائتری چکرورتی کے ترجمہGramma Fology کے ذریعہ پہنچاہے۔ اس لیے شبلی کے ان تصورات کوبھی ان کے بنیادی تصور کی حیثیت سے نہیں پرکھا جاناچاہیے۔ یہ مستعار اورمستفاد تنقیدی نظریات ہیں۔

شبلی نظریہ سازTheorizerنہیں ہیں اورنہ ہی انھیں اس قسم کا کوئی ادعاہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ’شعرالعجم‘نے ہماری تنقید کونئے نشانات عطاکیے ہیں،نئی راہیں دکھائی ہیں۔اس کے بعض مباحث سے آج کے جدید تنقیدی نظریات وتصورات کا رشتہ جڑسکتاہے۔ مرزاخلیل احمدبیگ نے شبلی کاتصورلفظ ومعنی پر بحث کرتے ہوئے ’شعرالعجم‘ میں فصاحت وبلاغت کے مسئلہ کو جدید اسلوبیات اورلسانیات سے جوڑکر دیکھا ہے اور واضح طورپر یہ اعتراف کیا ہے کہ آج جدیدلسانیات اور اسلوبیات کی روشنی میں اسلوب کی تشکیل وتوضیح کاجوکام جاری ہے اس کی جڑیں بلاشبہ ’شعرالعجم‘ میں تلاش کی جاسکتی ہیں۔

میراتومانناہے کہ مابعدجدیدنظریہ کے عناصر کی جستجو بھی ’شعرالعجم‘ میں بہ آسانی کی جاسکتی ہے۔ خاص طور پرمعنیات کی نفی کے نظام اورجدلیاتی وضع کی تلاش توبالکل ہی دشوار نہیں ہے۔تانیثی کلامیہ (فمنسٹ ڈسکورس) کامواد ہی شعرالعجم میں موجودہے۔ فردوسی کے شاہنامہ میں تانیثیت کے نقوش موجودہیں اور اس سے فیمنزم کو بہت روشنی مل سکتی ہے۔ کیونکہ بقول شبلی فردوسی پہلاشخص ہے اورپچھلا بھی جس نے اس مظلوم گروہ کی قدرکی ہے۔ ان کے رتبہ کوسمجھاہے،ان کو بلند مرتبہ ثابت کیاہے۔ شاہنامہ میں عورتیں مردوں کے ہمسر نظرآتی ہیں۔ بڑے بڑے مہمات میں ان کی رائے لی جاتی ہے۔ سلاطین کی طرف سے سفیربن کر جاتی ہیں، شہزادے اورسلاطین ان سے مشورے لیتے ہیں۔ شاہنامہ سے معلوم ہوتاہے کہ اکثرمقامات پر عورت ہی کی حسن تدبیر نے مہمات کو سرکیاہے جن عورتوں کو اتفاق سے تاج وتخت ہاتھ آیاہے، انھوں نے نہایت قابلیت سے حکومت کے فرائض کوانجام دیاہے۔

شاہنامہ کے جتنے بھی نسائی کردار ہیں ہما، رودابہ، دخت آفرید، مبشرہ، سب باکمال ہیں۔ایثارووفا، جرات کی علامت، شبلی نے لکھاہے کہ شاہنامہ کے مقابلہ میں ہومر کی ایلیڈپرنظرڈالو توقصہ کی بنیادہیلن پر ہے۔یونان اور ترکی کی دہ سالہ قیامت انگیزجنگ اسی کی بدولت ہے لیکن وہ ایسی بدچلن عورت ہے کہ اپنے شوہر کوچھوڑکر آشنا کے ساتھ نکل گئی۔ شاہنامہ میں صرف سودابہ ایک عورت ہے جس نے عصمت کوداغ لگاناچاہا لیکن فردوسی اس کو رستم کے ہاتھ سے قتل کرادیتاہے کہ ایران کے دامن عزت پر داغ نہ آئے۔

شعرالعجم نظری اورعملی تنقید کے لیے ایک نشان راہ ہے اسی لیے مولانا اسلم جیراج پوری، حافظ محمودشیرانی کی سخت تنقیدوں کے باوجود یہ کتاب نہ صرف برصغیر ہندوپاک میں مقبول ہوئی،بلکہ اس کے چودہ ایڈیشن شائع ہوئے۔ ایران اور افغانستان میں بھی اسے بے پناہ مقبولیت اور حوالہ جاتی حیثیت حاصل ہوئی۔ محمدتقی فخرداعی گیلانی نے فارسی میں اس کا ترجمہ کیا۔ لٹریری ہسٹری آف پرشیا کے مصنف براو ¿ن نے بھی اس کی ستائش کی۔ پروفیسر امیرحسن عابدی نے لکھا کہ علامہ شبلی کویہ اولیت حاصل ہے کہ سب سے پہلے انھوں نے فارسی شاعری کو انتقادی نظر سے دیکھا۔

مہدی افادی نے اعتراف کیاہے کہ ’شعرالعجم‘ تنقید عالیہ کا بہتر سے بہتر نمونہ ہے،جس پردنیا کی کوئی بھی زبان نازکرسکتی ہے۔

یقیناً’شعرالعجم‘ ایک مایہ ناز کتاب ہے جو وجودمیں نہ آتی توشاید ہم تخیل کی اس تہذیب سے آشنانہ ہوپاتے جوصرف ایران سے مخصوص ہے۔شعرالعجم کی خوش نصیبی ہے کہ یہ ابھی تک ناقدین کے ذہن کا محور بنی ہوئی ہے مگر اس کی اورحالی کے ’مقدمہ شعروشاعری‘ دونوں کی بدنصیبی یہ ہے کہ یہ شاعروں کی نگاہوں کامرکز نہیں بن پائیں۔ جبکہ اصلاً یہ دونوں کتابیں شاعری کے لیے ہدایت نامہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ حالی نے اپنی شاعری کا تنقیدی جوازپیش کرنے کے لیے ’مقدمہ شعر‘لکھاتھا اورشاعروں کے لیے اس میں پندوموعظت کے انباربھی لگائے تھے۔ ان دونوں کتابوں کے بنیادی مسائل و مباحث کارشتہ ناقدین سے زیادہ شاعروں سے ہے اور المیہ یہ ہے کہ یہی طبقہ اسے درخوراعتنا نہیںسمجھ رہاہے۔ اس تعلق سے حالی اور شبلی کوشاعروں سے شکایت ہونی چاہیے مگرناقدین کوبھی حالی اورشبلی سے یہ شکوہ ہے کہ ان دونوں نے اصناف نثرکو درخوراعتنا نہ سمجھااورنقدشعر کی طرح نقدنثر کی کوئی بنیاد نہیں رکھی۔