نئی نسل تو شاید ان کے نام سے بھی واقف نہ ہو کیونکہ اسے کبھی بتایا ہی نہیں گیا کہ جھنگ کےپرانے محلے میں رہنے والا ا سکول ماسٹر کا بیٹا کون تھا،انہیں صرف یہ رٹایا جا رہا ہے کہ وہ ایک قادیانی تھا اور قادیانی کافر ہوتے ہیں۔
جھنگ کے پرانے شہر کی تنگ اور خاموش گلیوں میں دو کمروں کے ایک مکان کو پاکستان کی قومی یادگار کا درجہ حاصل ہے۔ 400 مربع فٹ کا یہ عام سا گھرطبعیات کا نوبل انعام پانے والے پاکستان کے نامور سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام کا آبائی گھر ہے۔
اندرون بابِ محمد ، جھنگ کا یہ محلہ، پنجاب کے شہروں اور قصبوں کے پرانے محلوں کی طرح مخصوص طرز تعمیر اور بود وباش کےمنفرد انداز کا حامل ہے۔بڑے دروازے سے داخل ہوں تو بازار کے دونوں جانب پرانی او ر چھوٹی چھوٹی دکانوں کا سلسلہ دو رویہ ساتھ چلتا ہے اوردکانوں کے باہر پیدل چلنے والوں کے لیے کچھ جگہ چھوڑ کرخوانچہ فروشوں کا ہجوم رہتا ہے۔ جلیبی اور امرتی یہاں خوب بنتی ہے اور ذائقے میں لاجواب ہے۔ اس گلی کا یہ رنگ قدیمی ہے، شاید اس وقت سے بھی پہلے سے جب چودھری محمد حسین کا ہونہار بیٹا عبدالسلام اس گلی سے گزر کر سکول جایا کرتاتھا۔
عبدالسلام کا گھر پرانے اور خستہ مکانوں کے ایک جھرمٹ میں واقع ہے ۔یہاں زیادہ تر تقسیم ِہند کےوقت کے مہاجر خاندان مقیم ہیں۔ اندازہ ہے کہ تقسیم سےپہلے اس محلے میں زیادہ تر ہندو گھرانے رہاکرتے ہوں گے۔تعمیری لحاظ سے ان گھروں میں کچھ خاص فرق نہیں۔ مگر ڈیڑھ مرلہ کےاس مکان کو یہ فخر حاصل ہے کہ یہاں سےعلم کاایک سلسلہ چلتاہے اور عبدالسلام کا پتہ ملتا ہے۔
میں جھنگ سے قریب ڈیڑھ سو کلومیٹر دور لاہور میں رہتا ہوں اور اس سے پہلے کبھی اس شہر کو دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ جانتا ہوں کہ یہ شہر ہیر رانجھا، چندر بھان اور ہیرا سنگھ جیسے عشاق کا شہر بھی ہے جن کی داستانیں پنجاب کی ثقافتی تاریخ کا لازمی جزبن چکی ہیں۔ مگر کیا کروں کہ میری ہم عصر تاریخ میں جھنگ کاصرف ایک حوالہ ہی بار بار آیا ہے۔ یعنی لشکروں اور سپاہوں کا جھنگ۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ محبت میں امر ہو جانے والے کرداروں کی اس زمین کو یہ دن بھی دیکھنا تھے کہ نفرت، تشدد اور دہشت گردی کی علامتوں نے اسی زمین سے سر اٹھایا ہے۔ یہ حادثہ80 کی دہائی میں پیش آیا جب حق نواز جھنگوی نامی اس شہر کے ایک مولوی نے انجمن سپاہ صحابہ نامی تشدد پسند اور فرقہ وارانہ تنظیم کی بنیاد رکھی۔ یہ پاکستان میں ضیا الحق کے مارشل لا اور افغانستان میں روس کے خلاف امریکہ کی امامت میں مسلمانوں کے عالمی جہاد کا دور تھا۔روس پٹ گیا ، ضیا الحق کا مارشل لا 1988 میں جہاز حادثے کے ساتھ انجام کو پہنچا، افغانستان طالبان نے سنبھال لیا مگر فرقہ وارانہ تشدد کی آگ پاکستان میں زور پکڑ گئی اور انجمن سپاہ صحابہ جھنگ کے پرانے شہر کی ایک مسجد سےہوتی ہوئی اسلام آباد کی پارلیمنٹ تک جا پہنچی۔90ء کے وسط میں اسی جماعت کا ایک دھڑا لشکر جھنگوی کے نام سے جھنگ کی مستقل بدنامی کا باعث بن کر سامنے آیا۔ یہ دھڑا اب لشکر جھنگوی العالمی اور دیگر کئی ناموں کے ساتھ عراق، شام، افغانستان اورپاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہے اور اس خطے میں متحرک دہشت گرد تنظیموں میں سر فہرست ہے۔ میری نسل کے لوگ جھنگ کے اسی تعارف یا بدنامی سےزیادہ واقف ہیں جبکہ ہیر رانجھا کے قصے ، تھل کی ریت کے منظر اور عبدالسلام کے کارنامے طاق نسیاں پر ہیں۔
عبدالسلام کا آبائی مکان دیکھنے کی خواہش کے ساتھ میں نے جب اس سال مارچ میں جھنگ کا سفر کیا تو خیال تھا کہ یہ کوئی خستہ حال اور ویران سی جگہ ہو گی، کیونکہ آن لائن بھی اس کی کوئی ڈھنگ کی تصویر دیکھنے کو نہیں ملی ،لیکن میرا رہنما ، یہاں کا ایک مقامی لڑکا جس نے ان پیچیدہ گلیوں میں یہ گھر ڈھونڈنے میں میری مدد کی، مجھے ایک اچھے بھلے پکے مکان کے پاس لے آیا۔ اس کی تعمیر نویہاں کی سرکاری عمارتوں کی طرز پر ہوئی تھی اور لکڑی کامضبوط دروازہ لگا تھا جس کے اوپر محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے بورڈ آویزاں تھا جس پر اس عمارت کو قومی یادگار قرار دینے کی تفصیل درج تھی۔ دستک دی توادھیڑ عمر کے ایک آدمی نے جھٹ سے دروازہ کھولا اور مہربان تبسم کے ساتھ اندر آنے کی دعوت دی۔ یہ محمد اسماعیل تھے جنہیں پنجاب کے محکمہ آثار قدیمہ کی طرف سے یہاں تعینات کیا گیا ہے۔ وہ اس جگہ کے نگران بھی ہیں اور تاریخ دان بھی۔وہ بتا رہے تھے کہ روزانہ 15 سے 20 افراد اس جگہ کو دیکھنے کے لیے آ جاتے ہیں۔ مقامی سکولوں کے اساتذہ اکثر اپنے طلبا کو لے کر آتے ہیں ، ڈاکٹر سلام کی مناسبت سے یہ جگہ ان کے علمی شوق کو مہمیز دیتی ہے۔
قریب ہی وہ سکول ہے جہاں سے عبدالسلام نے اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی، پھر وہ اسی شہر کے کالج میں داخل ہو ئے اور میٹرک کے امتحان میں یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ ان کی اس کامیابی کی خبر کو اخبارات نے نمایاں جگہ دی۔ گورنمنٹ ہائی سکول جھنگ سٹی 1934 میں ثانوی درجے کا سکول تھا جب عبدالسلام کو جماعت چہارم میں یہاں داخل کرایا گیا۔ سکول میں وہ رجسٹر داخل خارج سنبھال کر رکھا گیا ہے جس میں38-1934 کا ریکارڈ ہے، یہ سال عبدالسلام نے یہاں گزارے تھے اور اس کلاس روم کو بھی بطور یادگار محفوظ رکھا گیا ہے جہاں عبدالسلام تعلیم حاصل کیا کرتے تھے۔سکول کے پرنسپل کے دفتر، لائبریری ، سائنس لیبارٹری اور کلاس رومز میں ڈاکٹر سلام کی متعدد تصویروں سے بھی اس سکول اور اس شہر کے لوگوں کی عبدالسلام سےگہری وابستگی کا اندازہ ہوتا ہے، حالانکہ ان کے مذہبی اعتقاد کی وجہ سے پاکستان میں عمومی طور پرلوگ ان سے لاتعلقی بلکہ بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالسلام کے گھر کے باہر قومی یادگار کا بورڈ دیکھ کر میں سوچ میں پڑ گیا کہ قدرت کا یہ کیا مذاق ہے کہ مکان تو قومی یادگار بن گیا مگر صاحب مکان اس ملک میں بدستور متنازعہ شخصیت ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر عبدالسلام نے پاکستان کی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ بلکہ ان کا شمار تو اس ملک کی سائنسی بنیاد بھرنے والے چنیدہ لوگوں میں بھی سرفہرست ہو گا۔ مگر اس کے جواب میں عبدالسلام کے ساتھ ہمارا حسن سلوک ملاحظہ فرمائیں کہ یہاں ان کی قبر کا کتبہ بھی سرکاری نکتہ چینی سے محفوظ نہیں رہا۔
اگرچہ نواز شریف نے، جب وہ وزیر اعظم تھے، یہ بڑا اعلان کرکے ہمیں خوش کیا کہ اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی میں قائم نیشنل سنٹر فار فزکس کو ڈاکٹر عبدالسلام سے منسوب کیا جائے گا،مگر بعد میں انہی کے داماد اور رکن قومی اسمبلی کیپٹن صفدر نے اسمبلی کے فلور پر ڈاکٹر عبدالسلام کے لیے نفرت آمیز تقریر کرتے ہوئے یونیورسٹی کے شعبے کا نام تبدیل کرنے کا مطالبہ کرکے حساب برابر کر دیا۔ان حالات میں سوچتا ہوں کون یاد رکھے گا کہ 21 نومبر کو ملک کے اس عظیم دانشور، محسن اور سرمایہ افتخار کی 21 ویں برسی ہے۔
دیے سے دیا جلنے کا سنتے آئے ہیں مگر قومی سطح پر ہم نے اپنی ایک نمائندہ مشعل کو عمداً ڈھانپ کررکھا ہے۔ عبدالسلام کا کردار اور کارنامے یہاں قومی بیانیے کا حصہ نہیں۔ نئی نسل کا بڑا حصہ تو شاید ان کے نام سے بھی واقف نہ ہو گا کیونکہ اسے کبھی بتایا ہی نہیں گیا کہ جھنگ کےپرانے محلے میں رہنے والا ایک سکول ماسٹر کا بیٹا کس طرح فروغ پاتا ہوا بالآخر طبعیات کی سائنس کی معراج تک پہنچا۔ انہیں تو صرف یہ رٹایا جا رہا ہے کہ وہ ایک قادیانی تھا اور قادیانی کافر ہوتے ہیں۔
(عون علی لاہور، پاکستان کے فوٹو جرنلسٹ ہیں، اور خاص طور پر تاریخی اہمیت کی حامل شخصیات اور تعمیرات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کا کام یہاں اور فیس بک پر دیکھ سکتے ہیں۔)
Categories: ادبستان, گراؤنڈ رپورٹ