لوگ کہتے ہیں جب سامعین،عمران کو سننا چاہتے ہیں تو وہ کیوں نہ دیر تک اپناکلام سنائے۔ بات تو ٹھیک ہے پرہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ مشاعرہ کسی شاعر کا ذاتی اسٹیج نہیں ہوتا،مشاعرے کی اپنی تہذیب ہوتی ہے۔
گزشتہ دنوں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ایک مشاعرہ ہوا۔ مشاعرہ اوکھلا ودھان سبھا کے ایم ایل اے امانت اللہ خان کی جانب سے تھا۔آج کل مشاعروں میں عمران پرتاپ گڑھی کا نام مقبول ہے۔ میں خود عمران کا مداح ہوں۔ اس لئے عمران کو لائیو سننے یہاں پہنچاتھا۔مشاعروں کے شوقین کہتے ہیں کہ عمران لاؤ لشکر کے ساتھ چلتا ہے۔ اُس نے ایک ٹیم تیار کر رکھی ہے ،جو سامعین کے بیچ واہ واہی کرتی ہے۔ جب کوئی معروف شاعر اپنا کلام پڑھ رہا ہوتا ہے تو عمران اسٹیج پر داخل ہوتا ہے، جس کی وجہ سے سامعین کی توجہ پڑھنے والے شاعرکی طرف سے ہٹ جاتی ہے۔
رات کے تقریباً پونے گیارہ بجے تھے ۔ وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی موجودگی میں مشاعرہ اپنے شباب پر تھا۔ الطاف ضیا کلام پڑھ رہے تھے،تبھی اسٹیج کے پیچھے ہلچل شروع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہنگامے میں بدل گئی۔ میں نے اسٹیج کی طرف نظر ڈالی تو دیکھا عمران جلوس نما مجمع کی شکل میں اسٹیج پر تشریف لا رہے ہیں ۔کچھ لوگ کارڈ اور بینر لئے ہوئے اُس کے ساتھ اسٹیج پر چڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔سامعین نے کھڑے ہوکر عمران کا استقبال کیا۔ پھر فوٹوگرافی کا سیشن شروع ہوا۔ بہرحال لوگ الطاف ضیا کو بھول گئے ۔منتظمین نے حالات بھانپ لئے،اور آخرکار امانت اللہ خان کو بیچ میں ہی مائک سے اپیل کرنی پڑی کہ تمام شعرا ایک سی عزت کے حقدار ہیں ۔پھرامانت نے عمران کے ساتھ جلوس کی شکل میں اسٹیج پر آئے لوگوں کو اسٹیج سے نیچے اُتارا تب کہیں جاکر مشاعرہ بحال ہو سکا۔
تقریباً 11بجے عمران پرتاپ گڑھی کو اسٹیج پر دعوت دی گئی ۔ عمران نے 50 منٹ تک اپنے اشعار سنائے اور اپنی جگہ لی۔ لیکن لوگوں کی فرمائش پر ناظم مشاعرہ نے عمران کو پھرسے مائک پر مدعو کیا۔ پھر کیا تھا عمران اور مائک ، مائک اور عمران ،اورشعر کے ساتھ اس کی تقریر۔ کل ملاکر عمران پرتاپ گڑھی نے دو گھنٹے مشاعرہ پڑھا ۔ رات کے ایک بج گئے۔ بمشکل تمام عمران نے مائک چھوڑا اور اپنی جگہ پر بیٹھے۔ پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا،یعنی مشاعرہ ختم ۔ ایک ساتھ تقریباً 70 فیصد لوگ مجمع سے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ قابل ذکر ہے کہ وزیر اعلیٰ کا خطاب ابھی ہونا باقی تھا۔شاید عمران کو اپنی غلطی کا احساس ہوا،وہ فوراًمائک کی طرف لپکے۔ لوگوں سے اپیل کی کہ سب لوگ وزیر ا علیٰ کو سن کر جائیں۔ جانے والے کہاں سنتے ہیں۔ لوگوں نے ایک نہ سنی۔ اُن کی بھی غلطی کہاں تھی۔ رات کا ایک بج رہا تھا۔ تمام لوگ تھک چکے تھے۔ پھر بھی جب کیجریوال نے بولنا شروع کیا تو کچھ لوگ رکنے پر مجبور ہو گئے۔ اُنہوں نے اپنی تقریر مکمل کی اوررخصت ہوئے۔ باقی لوگوں نے بھی گھر کی راہ پکڑی۔ بچے ہوئے لوگ سُخن ور تھے۔مشاعرہ لٹ چُکا تھا۔
منتظمین کے سامنے مشاعرہ کو بحال کرنا کسی چیلنج سے کم نہیں تھا۔ بمشکل تمام مشاعرہ دوبارہ شروع ہو سکا۔ شعرا حضرات میں ناراضگی تھی۔ عمران پرتاپ گڑھی نے لوگوں سے اپیل کی کہ تمام لوگ مشاعرہ کا ماحول بنائے رکھیں ورنہ شعرا حضرات اُن سے ناراض ہوتے ہیں۔
ہاشم فیروزآبادی اپنا کلام پڑھنے کے لئے اسٹیج پر آئے اور بیچ بیچ میں عمران پر طنز کرتے رہے۔ اس دوران عمران کے مداح سامعین کے درمیان سے اُٹھ اُٹھ کر کبھی اسٹیج پر چڑھنے کی کوشش کرتے،کبھی عمران کے ساتھ سیلفی لینے کی کوشش کرتے تو کبھی آٹوگراف ۔ حتیٰ کہ ہاشم فیروزآبادی کو کہنا پڑا کہ اُن کی وجہ سے مشاعرہ میں خلل پڑ رہا ہے ۔ ہاشم کے بعد آنے والے شعرا ءکو شاید ہی کسی نے سنا ہو۔ رات دو بجے تک میں یہی سب ہوتا رہا پھر تھک کر میں نے بھی گھر کی راہ لی۔
گھر آکر میں نے ان باتوں پر غور کیا۔ادبی محفل کے ساتھ اس مذاق کااصل مجرم کون ہے؟ کیا منتظمین جو بھیڑ پر قابو پانے میں ناکام تھے یا پھر ناظم مشاعرہ جس کو عمران پرتاپ گڑھی سے یہ اپیل کرنی چاہئے تھی کہ وہ دوسرے شعرا کا بھی خیال رکھیں یا پھر خود عمران پرتاپ گڑھی اس کے لیے ذمہ دار ہیں۔ لوگ کہتے ہیں جب سامعین،عمران کو سننا چاہتے ہیں تو وہ کیوں نہ دیر تک اپناکلام سنائے۔ بات تو ٹھیک ہے پرہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ مشاعرہ کسی شاعر کا ذاتی اسٹیج نہیں ہوتا،مشاعرے کی اپنی تہذیب ہوتی ہے۔
اب تک جو میں عمران کے بارے سنتا تھا آج اُن کا مشاہدہ بھی کیا۔ یہ لاؤ لشکر ، بینر، سامعین کے بیچ میں سے بار بار اُٹھتے لوگ ، بار بار ملک کے حالات پر عمران کا غم زدہ ہو جانا،مجھے کسی اور شخص کی یاد دلا رہا تھا۔یہ شخص کچھ سال قبل صوبائی سیاست سے نکل کر مرکزی سیاست میں داخل ہوا،شہر شہر جاکر بڑی ریلیاں کیں ،لوگوں کو ملک کے بدتر حالات سے رو برو کرایا۔ لوگوں کو یقین دلایا کہ وہ اس سے بہتر زندگی کے مستحق ہیں۔لوگوں نے کہا اس شخص کا پی آرسسٹم بھی بہت مضبوط ہے۔
اب عمران کو دیکھیے ،حالات حاضرہ پر اُس کی نئی نئی نظم سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ ایک شخص جو اتنا مصروف ہے وہ اتنا سب کیسے لکھ سکتا ہے۔ ہر مشاعرہ میں اسٹیج سے فساد متاثرین کی مدد کا اعلان کرتا ہے ۔کبھی اسٹیج سے کہتا ہےکہ عمر کی مالی مدد کے اعلان سے کچھ لوگوں کے پیٹ میں درد ہوگا ۔ یہ بات نا سمجھی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ سوشل میڈیا اور پی آر کےذریعہ بہت کچھ کیا جاسکتا ہے،بہر کیف ان سب سے تو یہی لگتا ہے کہ دھیرے دھیرے عمران مشاعروں کے مودی بنتے جا رہے ہیں۔
Categories: فکر و نظر