وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان نے نیشنلزم کے ڈسکورس میں راشٹر ماتا لفظ کا اضافہ کر دیا ہے ۔ خوشی سے جھوم اٹھیے کہ اب ہمارے پاس راشٹر ماتا بھی ہیں۔راشٹرماتا پد ما وتی۔
پچھلے ایک ہفتے سے اخبارات اور ٹیلی ویژن والوں کے یہاں خبروں کا اکال پڑا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا پر تو یوں کہیے کہ رائتہ پھیلا ہوا ہے۔پدماوتی اور بس پدماوتی۔ آج صبح جب آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا میری انگلیاں فیس بک پر رینگ رہی تھیں۔ عجیب نشہ ہے۔ بیڈ ٹی کا زمانہ لد گیا۔اب میں فیس بک ہی پی لیتا ہوں۔ مجھے امید ہے آپ بھی اسی نئی عادت کے شکار ہونگے۔
خیر،فیس بک بدستور پدماوتی کی خبروں کے سیلاب میں غوطہ لگا رہا تھا۔بھانت بھانت کے راگ اور بھانت بھانت کے الاپ۔ ’رانی پدماوتی اور خلجی کے پریم کا سچ‘۔’چتورگڑھ کے راجہ کی کہانی‘۔’پدماوتی میں اصل نا انصافی خلجی کے ساتھ ہوئی ہے۔‘ ’کون تھے خلجی سے ہارنے والے ……‘ وغیرہ وغیرہ۔
پورے دن کی مصروفیات سے فارغ ہوکر اخبار کو ہاتھ لگایا تو وہاں بھی دیپیکا براجمان تھیں۔ ہاں میں زیادہ تر شام کے وقت ہی اخبار پڑھتا ہوں،تاکہ ایک ایک ورق چاٹ سکوں۔صبح میں یہ ممکن نہیں ہوپاتا۔ ویسے بھی وہ وقت اب فیس بک کے لئے مقرر ہے۔اوف اوہ میں بھی کتنا بڑ بولا ہوں۔تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ آج کے اخبار میں دیپیکا بدستور حاضر تھیں۔ البتہ انڈین ایکسپر یس نے آج دو راجپوت لیڈران کی پروفائل بھی چھاپی تھی۔ہر یانہ کے سورج پال آمو اور راجستھان کے لوکیندرسنگھ کلوی۔
آمو ہریانہ بی جے پی کے چیف میڈیا کوآرڈی نیٹر ہیں۔ کلوی ’شری راجپوت کرنی سینا‘ کے صدرہیں۔ آمو نے حال ہی میں دیپیکا اور بھنسالی کے سر کاٹنے والوں کے لئے دس کروڑ روپے کے انعام کا اعلان کیا تھا۔کلوی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ رانی پدماوتی کے خاندان سے ہیں۔ انکا خاندان رانی کی نسل کا 37 واں وارث ہے ۔کلوی کے مطابق دیپیکا ایک نالائق اداکارہ ہیں۔ انکا ماننا ہے کہ اس سے پہلے کہ فلم کی تشہیر سے راجپوت سماج کے وقار کو کوئی ٹھیس پہنچے، اسکی کاپیوں کو’ نشٹ‘ کر دینا چاہئے ،ایسے ہی جیسے رانی پدما وتی نے اپنی عصمت کے لئے ’جوہر ‘کیا اور اپنی جان دے دی۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ آ نے والے ایک دو دنوں میں دوسرے وزرائے اعلیٰ سے بھی ملاقات کریں گے اور فلم ریلیز کی تاریخ کے آنے سے پہلے پہلے تک چودہ وزرائے اعلیٰ انکی حمایت میں ہونگے ۔
میں نے یہ سوچا تھا اب جبکہ فلم کی ریلیز ٹل گئی ہے، کچھ خبریں پڑھنے کو ملیں گیں۔لیکن خدا کو منظور ہی نہیں تھا۔بہر حال یہ سب دیکھ کر مجھ سے بھی برداشت نہیں ہوا۔جب ہر فلاں چلاں لکھ رہا ہےتو میں کیوں پیچھے رہوں۔ البتہ میں آپ کو یہ ensureکر سکتا ہوں کہ میری تحریر بھاری بھر کم نہیں ہوگی۔ میں آپ کو خلجی اور پد ما وتی کی تاریخ کا درس نہیں دینے والا۔ ویسے بھی میں کوئی تاریخ داں تو ہوں نہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ اسی ہوڑ میں کتنے لوگ تاریخ نویس بن گئے۔ کچھ نے ہی موقع گنوا یا۔ میں بھی انہیں کم نصیبوں میں سے ایک ہوں۔ خیرمیری ہلکی پھلکی ہی باتوں کو آپ برداشت کرسکتے ہیں۔
اس پورے شور میں آپ نے ایک چیز نوٹس نہیں کی۔میرا مطلب ہے اس شور میں ایک سناٹا بھی ہے۔ ایک عجیب سی خاموشی۔ خاموشی ایسی کہ آپ اگر اسکو پڑھنے کی کوشش کریں،تو سہم جائیں۔ کانگریس کے خیمہ میں عجیب سی چپی ہے۔ مانو سب کو سانپ سونگھ گیا ہو۔حد تو یہ ہے کسی بڑبولے نیتا نے بھی کچھ کہنے کی زحمت نہیں کی۔ دگ وجے سنگھ سے میں ایسے وقتوں میں آس لگائے بیٹھا ہوتا ہوں۔ مگرکیا کیجیے،وہ اپنے پردیس میں کسی یاترا میں مشغول ہیں۔مجھے انکی اس یاترا سے متعلق خبریں انکے فیس بک اپڈیٹس سے ملتی رہتی ہیں۔ اس یاترا میں انکی شریک حیات امرتا بھی انکے ہمراہ ہوتی ہیں۔بہر حال انہیں چھوڑیے۔راجستھان کے سچن پائلٹ اور اشوک گہلوت نے کچھ بولا کیا؟ نہیں نا۔ ان دو لیڈران کا میں نے خاص ذکر کیوں کیا ، آپ خوب سمجھتے ہیں۔
میں نے پروفیسرگوگل سے بھی پوچھ لیا،اہل گاندھی نے بھی اب تک کچھ نہیں بولا ہے۔ subtle طریقے سے کچھ کہا ہو تو مجھے اسکا علم نہیں ۔ مگر آپ جانتے ہیں، جب وہ سیدھے منہ بولتے ہیں تب تو کوئی کان نہیں دھرتا، اشارہ کنایہ کی بھارتیہ راج نیتی میں کیا اوقات ۔خیر،میں کہنا یہ چا ہتا ہوں کہ کانگریس کی خاموشی بس یوں ہی نہیں ہے۔ یہ اپنے ’سافٹ ہندوتوا ‘کے تحت خاموش رہتے ہیں۔ کانگریس کی یہ پالیسی بھارت کے لئے کتنی نقصاندہ ثابت ہوئی ہے اسکا اندازہ نہیں لگا یا جاسکتا ۔
راجستھان،مدھیہ پردیش اور اتر پردیش کے وزرائے اعلیٰ نے کھل کر کرنی سینا کی حمایت کی ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ وہ اپنی ریاستوں میں فلم کو ضروری تبدیلی کے بغیر ریلیزنہیں ہو نے دینگے۔ انکے اس بیان سے راجپوتوں کا حوصلہ کتنا بڑھا ہے آپ اندازہ نہیں لگا سکتے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ دیپیکا کی ناک اور بھنسالی کی گردن کاٹنے کی دھمکی دینے والے موالیوں کے لئے ا ن لیڈران سے ایک شبد تک نہیں بن پڑا۔ البتہ وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان نے نیشنلزم کے ڈسکورس میں راشٹر ماتا لفظ کا اضافہ کر دیا ہے ۔ خوشی سے جھوم اٹھیے کہ اب ہمارے پاس راشٹر ماتا بھی ہیں۔راشٹرماتا پد ما وتی۔
دیپیکا پادو کون کی ناک سے یاد آیا ، جب میں نے یہ خبر پڑھی تھی تو میری زبان سے بے ساختہ نکل پڑا تھا، یا خدا کتنے ظالم ہیں یہ لوگ،اتنی خوبصورت عورت کی ناک کیوں کر کاٹنا چاہتے ہیں۔جی میں آیا کہہ دوں دیپیکا کی ناک کاٹنے سے پہلے تمہیں میری گردن کاٹنی ہوگی۔مگر کیا کیجئے آپ ہی کی طرح میں بھی اب مصلحت پسند ہو گیا ہوں۔فیس بک پر کچھ لکھنے سے پہلے دس بار نہیں تو کم از کم ایک بار ضرور سوچ لیتا ہوں۔ کیا ٹھکانہ اگر میں یہ بات فیس بک پر لکھ دیتا اورآپ اسے لائک کر بیٹھتے، تو شاید مجھ سے پہلے آپ ہی جیل میں ہوتے۔در اصل میں یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ جتنا ان تین ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کے بیان سے موالیوں کو شہ ملا ہے اتنا ہی کانگریس کی خاموشی سے بھی۔ خاموشی میں بھی بڑی طاقت ہوتی ہے۔کبھی فرصت میں اندازہ لگائیے گا۔انگریزی میں اسے loud silence کہتے ہیں۔کانگریس اکثرو بیشتر اسی خاموشی کے ذریعہ اپنا کام کر جاتی ہے۔
بات ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔میں ایک اور خاموشی سے خوف زدہ ہوں۔خاموشی کی یہ شکل زیادہ بھیانک ہے۔اور مہلک بھی۔ آپ ہی بتائیے، اتنی بڑی فلم انڈسٹری میں سے کتنے لوگوں نے منہ کھولا۔ جن لوگوں نے بولا ان کی گنتی کے لئے آپ کے ہا تھوں کی انگلیاں زیادہ پڑ جائیں گی۔شیام بینیگل ، شبانہ اعظمی اور جاوید اختر نے بے باکی سے اپنی بات کہی ہے۔ انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہئے۔
سب سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ جناب لیجنڈابھی تک خاموش ہیں۔میری نظر سے انکا کوئی ٹوئٹ نہیں گزرا ہے۔ سنا ہے وہ ٹوئٹر خوب استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم کی طرح۔ البتہ بالی ووڈ کے بادشاہ نے کچھ ضرور بولا ہے۔گزشتہ سوموار (20 November کو انٹرنیشنل فلم فیسٹیول IFFI)کا افتتاح تھا۔ اس موقع پر چند فنکاروں نے ضرور منہ کھولا۔ مثلا شاہد کپور نے کہا،
ہمیں اپنا آپا نہیں کھونا چاہئے۔ بہت لوگ جذباتی ہور ہے ہیں۔ پدماوتی ایک ایسی فلم ہے،جس پر ہمیں ناز ہے۔ مجھے یقین ہے جب فلم ریلیز ہوگی تو لوگ اسے ضرور پسند کریں گے۔
نانا پاٹیکر نے کہا،
جب ہم تاریخی ڈرامہ بناتے ہیں،تو ہم تخلیقی آزادی کا استعمال کرتے ہیں،اور اس سے کسی کو بھی ناراض نہیں ہونا چاہئے۔وہ لوگ جو فنکاروں پر حملہ کر ہے ہیں انکے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہئے۔
نانا پاٹیکر نے شاہد کپور کی طرح diplomatic ہونے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ انکی بیباکی کو ہم سلام کرتے ہیں۔رنویرسنگھ نے جو بولا ، اس سے اچھا تھا وہ خاموش ہی رہتے۔گرچہ بہت پہلے وہ بول پڑے تھے، مگر پھر بعد میں کسی جگہ یہ بھی کہہ گئے کہ انکے ڈائرکٹر نے انہیں مزید کچھ بھی بولنے سے منع کیا ہے۔ دیپیکا نے بھی شروع میں زبان کھولی،مگر پھر خاموشی اختیار کر گئیں۔ بہر حال وہ فنکار جو اس فلم کے حصہ ہیں، انکا کسی حد تک ڈپلومیٹک ہونا جائز معلوم پڑتا ہے۔ لیکن انڈسٹری کے stalwartsکی زبانیں تو نہیں کٹی ہیں۔ انکی خاموشی سمجھ سے پرے ہے۔
ایک فنکار کو صرف فنکار ہی رہنا چاہئے۔ اگر وہ مصلحت پسند بھی ہے، تو پھر مجھے اسکے فن پر شک کرنا چاہئے۔یہ بڑا المیہ ہی تو ہے، جب ہمارے فنکار، فنکار کم بزنس مین زیادہ دکھنے لگے ہیں۔یہ گہری خاموشی اس بات کی علامت ہے۔وہ فن جو آپ کو offend نہ کرے، وہ فن ہی کیا۔وہ فن جو آپ کو جھنجھوڑے نہ وہ کس کام کا۔ایسا فن جس میں آپ صر ف تالی بجا ئیں وہ فن نہیں ہو سکتا۔
خیر بالی ووڈ کے بادشاہ نے جو بولا اس میں مصلحت کا رس اتنا زیادہ تھا کہ مجھے یہ گھول بر وقت نہیں لگا ۔ایسی گھٹی کسی اور موقع پر مناسب تھی۔ ابھی نہیں۔ انہوں نے ا نگریزی میں چند جملے بولے۔ میں جوں کا توں لکھ دیتا ہوں۔ آپ ہی دیکھ لیجئے۔
You all should know, in our country, among all of you, there will be interests, albeit small stories hidden somewhere. We are truly a land of stories, fables, of cultural history, religious history, mythology and legends. Stories that have mesmerised us, stories that make us think, stories that make us believe, give us hope and inspire our future generations to their future and large potential
گرچہ شاہ رخ خان کے انگریزی کے یہ جملے معنی خیز معلوم پڑتے ہیں، مگر سچ پوچھئے میرا من نہیں بھرا ۔انہوں نے اور بھی باتیں کیں ۔ یقین مانئے وہ بھی باالکل اسی طرح مصلحت کے پریوں سے بھرئی ہوی تھیں۔
اپنی بات ختم کروں اس سے پہلے یہ بتا دوں کہ اب شاید یہ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے فنکاروں سے یہ بھی امید کریں کہ وہ صرف پردہ پر نہیں پردہ کے باہر بھی بولیں۔ایک فنکار کو گھٹنے ٹیکتے ہوتے دیکھ کر مجھے کس قدر صدمہ پہنچتا ہے ، میں بیان نہیں کر سکتا۔ 2016 میں شیو سینا اور بی جے پی کے ٹرولس نے ( بشمول ممبئی پارٹی صدر آشیش شیلر) کرن جوہر کی فلم ’اے دل ہے مشکل‘ کے خلاف وا ویلا کھڑا کر دیا تھا۔ الزام یہ تھا کہ فلم کا ایک ادا کار پاکستانی ہے۔ مظاہرین بہت جلدی تشدد پر اتر آئے تھے۔لہذا کرن جوہر کو مجبور ہو کر ایک بیان دینا پڑا جس میں انہوں نے وعدہ کیا کہ آئندہ وہ کسی بھی پاکستانی اداکار کے ساتھ کام نہیں کریں گے۔انہوں نے جو کہا تھا وہ ملاحظہ کریں:
”میرے لئے میرا ملک سب سے اوپر ہے……میں کہنا چاہتا ہوں کہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے،میں پڑوسی ملک کے فن کاروں سے کوئی تعلق نہیں رکھوں گا……میں فوج کی عزت کرتا ہوں۔“
موالیوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کی اس سے اچھی اور تازہ مثال کیا ہو سکتی ہے۔ مجھے تو ڈر ہے کہ کرن جوہر کے بعد کہیں بھنسالی دوسری مثال نہ قائم کر دیں۔
(مضمون نگار بلاگر اور مترجم ہیں۔)