سی بی آئی افسروں نے بتایا، مبینہ طور پر اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مینجمنٹ کوٹا کے تحت چار کالجوں میں کل 229 داخلہ ہوئے، فی سیٹ 50 لاکھ سے ایک کروڑ روپے وصول کیےگئے۔
نئی دہلی :مینجمنٹ کوٹے کے تحت موٹی رقم کی ادائیگی کے سہارے چار میڈیکل کالجوں میں داخلہ لینے والے 200 سے زیادہ طلباکا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے کیونکہ ویاپم معاملے کی سی بی آئی کی تفتیش میں ان کے سلیکشن میں بدعنوانی کا دعویٰ کیا گیا ہے۔افسروں نے بتایا کہ سی بی آئی نے مدھیہ پردیش حکومت کو خط لکھکر ان امیدواروں کے خلاف ضروری کارروائی کی مانگ کی ہے جو میڈیکل کالجوں میں داخلہ کے لئے کسی داخلہ امتحان میں شامل نہیں ہوئے۔
افسروں نے بتایا کہ یہ قدم مدھیہ پردیش کے ویاپم کے ذریعے 2012 میں کرائے گئے پری میڈیکل ٹیسٹ (پی ایم ٹی) کی سی بی آئی کے ذریعے کی گئی تفتیش پر مبنی ہے۔گزشتہ جمعرات کو ایجنسی نے 592ملزمین کے خلاف ایڈمیشن گھوٹالے میں ان کی مبینہ شمولیت کے لئے بھوپال واقع سی بی آئی کی ایک خاص عدالت میں چارج شیٹ دائر کیا تھا۔ ان ملزمین میں چارپرائیوٹ میڈیکل کالجوں کے چیئر مین شامل ہیں۔
افسروں نے بتایا کہ پرموٹروں میں ایل این میڈیکل کالج کے چیئر مین جے این چوکسے، پیپلس میڈیکل کالج کے ایس این وجے ورگیہ، چرایو میڈیکل کالج کے اجے گوینکا (تمام بھوپال میں)اور اندور کے انڈیکس میڈیکل کالج کے سریش سنگھ بھدوریا شامل ہیں۔تین پرموٹروں نے رابطہ کئے جانے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، بھدوریا نے دعویٰ کیا کہ نہ تو ان کا اور نہ ہی ان کے کالج کا نام سی بی آئی کے چارج شیٹ میں ہے۔سی بی آئی افسروں نے بتایا کہ مبینہ طور پر اصولوں کی خلاف ورزی کرکے انتظامیہ کوٹے کے تحت ان چار کالجوں میں کل 229داخلے ہوئے جس کے لئے فی سیٹ 50 لاکھ سے ایک کروڑ روپے وصول کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ دھیان دینے والی بات یہ ہے کہ انتظامیہ کوٹے کے تحت جن طالب علموں کو داخلہ ملا، وہ کسی بھی داخلہ امتحان میں شامل نہیں ہوئے۔ افسروں نے بتایا کہ ان 229 داخلے میں سے 88انڈیکس میڈیکل کالج میں، 54 چرایو میڈیکل کالج میں، 46 پیپلس میڈیکل کالج میں اور 41 ایل این میڈیکل کالج میں ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ یہ داخلہ ویاپم کے ساتھ ہی مدھیہ پردیش حکومت کے میڈیکل شعبہ کے افسروں اور کچھ ثالثوں کی مبینہ ملی بھگت سے ہوئے۔ ویاپم کا نام اب بدلکر تجارتی امتحان بورڈ ہو گیا ہے۔افسروں نے ان کے کام کرنے کا طریقہ سمجھاتے ہوئے کہا کہ ثالث انجن بوگی انتظام کے تحت داخلہ امتحان میں ایک باصلاحیت امیدوار کو ایسے امیدوار کے آگے بٹھاتے تھے جو بہت زیادہ صلاحیت نہیں رکھتے تاکہ وہ اس سے نقل کر سکے۔ انہوں نے بتایا کہ ثالث اس کے لئے 15 سے 20 لاکھ روپے وصول کرتے تھے۔
افسروں نے بتایا کہ سلیکشن ہو جانے پر باصلاحیت طالب علم اپنا نام میرٹ لسٹ میں آنے اور سرکاری اداروں میں داخلہ کے لیے اہل ہونے کے باوجود ان چار میڈیکل کالجوں میں داخلہ لیتے تھے جن کا نام چارج شیٹ میں ہے۔ یہ کامیاب امیدوار ثالثوں اور پرائیوٹ میڈیکل کالجوں کے افسروں کی ملی بھگت سے بعد میں اپنا داخلہ واپس لے لیتے تھے۔
افسروں نے بتایا کہ کالج کے افسر ان خالی سیٹوں کے بارے میں سرکاری محکمہ کو مطلع کرنے کے بجائے ان سیٹوں کو موٹی رقم وصولکر انتظامیہ کوٹے سے بھر دیتے تھے۔افسروں نے بتایا کہ چارج شیٹ میں جن کا نام ہے ان میں 334 انجن بوگی امیدوار، 155 ان امیدوار کے سرپرست، 46 امتحان کے جائزہ کار، چار پرائیوٹ میڈیکل کالج کے 26 افسر، 22 ثالث، ویاپم کے چار افسر اور مدھیہ پردیش میڈیکل محکمہ برائے تعلیم کے دو افسر شامل ہیں۔
افسروں نے بتایا کہ چارج شیٹ میں ریاستی حکومت کے جن افسروں کے نام ہیں ان میں میڈیکل محکمہ برائے تعلیم کے اس وقت کے ڈائریکٹر ایس سی تیواری اور اس وقت کے جوائنٹ ڈائریکٹر این ایم شریواستو شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ویاپم کے جن چار سابق افسروں کے نام ہیں ان میں اس وقت کے ڈائریکٹر پنکج ترویدی، اس وقت کے سینئر انتظامی تجزیہ کار نتن موہندر، اس وقت کے نائب تجزیہ کار اجئے کمار سین اور اس وقت کے پروگرامر سی کے مشر شامل ہیں۔
Categories: خبریں