تریپورہ کی کہانی کچھ ایسی ہے، جیسے یہاں کے لوگوں کو بتایا جا رہا ہو کہ ان کے لئے سب سے زیادہ اہم اور لائق ستائش وہ شخص ہے، جو اپنی زندگی میں کبھی تریپورہ آیا ہی نہیں۔
کوئی دس سال پہلے شانتی نکیتن جانا ہوا۔ وہاں میری ملاقات وائس چانسلر کے سکریٹری کا کام کر رہےبودھ بھکشو سے ہوئی۔ وہ تریپورہ سے تھے،جہاں سے شانتی نکیتن کی تاسیس کے بعد طالب علموں کا آنا لگاتار جاری تھا۔ کچھ ہی دن بعد میں منی پور گیا، جہاں کی رقص وموسیقی کی روایت حیرت انگیز ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ ٹیگور کبھی منی پور آئے تو نہیں، لیکن تریپورہ مہاراج کے دربار میں منی پوری رقص دیکھ کر اتنا متاثر ہوئے کہ اس کو شانتی نکیتن کے نصاب میں شامل کرا دیا اور منی پور سے استاد بلائے ۔
ٹیگور سات بار ترپیورہ گئے۔’جنن بی چتر‘ پرکاشن سے شائع بی کاس چودھری کے کتابچہ میں اس کی خوبصورت تفصیل ہے۔ مجھے یہ کتاب اسی مہینے میرےتریپورہ کے پہلے سفر میں ملی۔ تریپورہ میں لمبی پاری کھیلنے والے وزیراعلیٰ مانک سرکار کے بارے میں یہاں آنے سے پہلے ہی اچھی خاصی باتیں سن رکھی تھیں۔ ان کا تذکرہ خاص طور سے ان کی ایمانداری، خود مختاری اور تعلیم کے شعبے میں خاص دلچسپی کے لئے ہوتاہے۔ تریپورہ سفر کے دوران طالبعلموں سے میں نے یہی پوچھا کہ یہ باتیں کس حد تک درست ہیں؟
توقع کے مطابق ملی جلی رائے سامنے آئی۔ ایک طالب علم کا تبصرہ تھا کہ نریندر مودی یا ممتا بنرجی کی طرح مانک سرکار کو جگہ جگہ اپنے ہی پوسٹر لگوانے کا شوق نہیں ہے۔ اس کی نظر میں مانک دا کے معمول میں ملنے جلنے کا طریقہ اور شہریوں سے ان کی انسیت ان کو سب سے الگ کرتا ہے۔ ایک دوسرے طالب علم نے بھی ان کی تعریف کی، لیکن اس تنبیہ کے ساتھ کہ ان کی ایمانداری اور عقیدت پر کوئی شک نہیں، لیکن روزگار کے مواقع اور صنعتوں کو بڑھاوا دینے پر ان کو اور کام کرنا چاہیے۔ اس کا ماننا تھا، تریپورہ کی اعلیٰ شرح خواندگی کے باوجود حکومت اس تناسب میں بہتر روزگار دینے میں ناکام رہی ہے۔ جغرافیائی علیحدگی اور کنیکٹوٹی کا مسئلہ اس میں بڑی رکاوٹیں ہیں، لیکن ان سے نجات پانے کی کوشش ناکافی ہیں۔ تیسرا طالب علم حکومت کے متعلق زیادہ تلخ تھا، جس کی رائے میں تریپورہ کے آدیواسی شروع سے بنگلہ بولنے والوں کے امتیازی سلوک کے شکار رہے ہیں۔ ان کی نظر میں اگرتلہ میں تو خوب فلائی اوور بنے، لیکن ٹرائبل علاقے اب بھی اچھی سڑکوں، اسکولوں اور ہسپتالوں کو ترس رہے ہیں۔ وہ تہذیبی طور سے بھی جانبداری کے شکار ہیں۔ پبلک مقامات کی نامزدگی میں بھی بنگلہ کا تسلط دکھتا ہے۔
ایسےہی مکالموں کے درمیان،میں تریپورہ میوزیم پہنچا۔ اس کی عمارت کبھی شاہی محل ہوا کرتی تھی۔ اس کے چھوٹے چھوٹے کمرے تریپورہ کی تہذیبی اورثقافتی تنوع کا احساس کراتے ہیں۔ ایک کمرہ اپنے سماجی اورتاریخی تناظر کے ساتھ تریپورہ کی اس تہذیبی تنوع کا احساس کراتا ہے، جس سے کوئی بھی حیران ہو سکتا ہے ۔یہاں ثقافتی اور قدرتی وراثت کے ساتھ ہی یہاں کے آرٹ اور نقش ونگار کے کمیاب اور شاندارنمونے ملیں گے ۔بہت کچھ اور بھی ہے۔
عام سرکاری عجائب گھر کے نظریے سے یہ تھوڑا الگ ہے۔ اپنے محدود وسائل اور تمام چیلنج کے درمیان تخیل کی فراوانی نے اس کو جیسا روپ دیا ہے، اس کی تعریف ہونی چاہیے۔ ہاں، عجائب گھر دیکھتے ہوئے طالبعلموں کے بنگلہ تسلط والے الزام کی تصدیق ہوتی ہے۔ یہاں ٹیگور اور تریپورہ کو معنون ایک الگ کمرہ ہے۔ حالانکہ عظیم الشان ہال ٹیگور کی زندگی، فلسفہ اور ان کی تخلیقات کو وقف ہے، بچپن سے لےکر بعد تک کے اور البرٹ آئنسٹائن جیسی مشہور عالمی شخصیات کے ساتھ ان کی تصویر ہیں۔ ٹیگور کی شاید ہی کوئی کتاب ،پینٹنگ یا اسکیچ کی کاپیاں ایسی ہوں جو یہاں نمائش میں نہ ملے۔
ٹیگور کو لےکر یہاں بہت پیار دکھتا ہے۔ایسا تو کولکاتہ میں بھی نہیں ہے۔ وہاں کے ریاستی عجائب گھر میں ٹیگور اکیلے نہیں دکھیںگے۔ وہ رام موہن رائے، بنکم چندر، وویکانند، ستیہ جیت رے، نذرالاسلام اور دوسری بنگالی ہستیوں کے ساتھ ہیں۔ لیکن تریپورہ کی کہانی کچھ ایسی ہے، جیسے یہاں کے لوگوں کو بتایا جا رہا ہو کہ ان کے لئے سب سے زیادہ اہم اور لائق ستائش وہ شخص ہے، جو اپنی زندگی میں کبھی تریپورہ آیا ہی نہیں۔
جدید تریپورہ میں آدیواسی اور بنگالی تعلقات پر مونی شنکر مشر کے ایک تحقیقی مضمون میں اس کا تذکرہ ملتا ہے۔ ان کے مطابق، 1950 کی دہائی میں قبائلی ،کمیونسٹ اور بنگالی مہاجر خود کو کانگریس کے قریب پاتے تھے۔ 60کی دہائی کے بعد ان کی امید ٹوٹ گئی اور باخبر قبائلیوں نے ان سے الگ اپنی نئی سیاسی پہچان بنانے کی جدو جہدشروع کی۔ ساتویں دہائی آتے آتے ذات پات کو لے کر جدو جہد نے بنگالیوں کے خلاف بغاوت کی شکل لے لی۔ حالانکہ ریاست میں اب امن ہے، لیکن تہذیبی تانے بانے میں ویسی کثیر جہتی نہیں دکھتی، جیسی عجائب گھر کو آراستہ کرنےوالوں نے سوچی اور دکھائی ہے۔ سی پی آئی (ایم) یہاں اقتدار میں اپناتین دور پورا کر چکی ہے، لیکن وزیراعلیٰ کے ساتھ اس کے زیادہ تر وزیر اب بھی بنگالی ہیں۔ تریپورہ کے جوان اسی پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
.ریاستی عجائب گھر کا ٹیگور پویلین تریپورہ کے ماضی اور حال کا ایک حصہ دکھاتا ہے۔ عجائب گھر میں داخل ہوتے ہی امبیڈکر کا ایک مجسمہ دکھتا ہے، جس کا افتتاح 1995 میں وزیراعلیٰ دشرتھ دیب نے کیا تھا۔ امبیڈکر کو پسماندہ لوگوں کا مسیحا سمجھا جاتا ہے، جو سچ بھی ہے۔ اسی بنیاد پر دشرتھ دیب کو بھی تریپورہ کے پسماندہ لوگوں کا پہلا مسیحا کہا جا سکتا ہے۔ آدیواسی پس منظر سے آنے والے دشرتھ دیب غیر منقسم کمیونسٹ پارٹی میں آنے سے پہلے مشتعل کسان تحریک اور بعد میں مرکزی حکومت کے خلاف مسلح جدو جہد سے جڑے رہے۔ 1952 میں انتخاب لڑنے کے لئے انہوں نے ہتھیار چھوڑے اور چاربار لوک سبھا کے لئے منتخب ہوئے۔ ساتویں دہائی کے مابعد وہ ریاست کی سیاست میں لوٹے اور 1993 میں تریپورہ کے وزیراعلیٰ بنے۔ دراصل امبیڈکر کا مجسمہ عجائب گھر کے مین گیٹ پر ہونا اس ایک دوراندیش سیاستداں کا بڑا علامتی قدم تھا، جس میں مطلق العنانیت کے خلاف مزاحمت تھی۔
آدیواسی اور دلت کئی دہائیوں تک ماکپا حکومت والے مغربی بنگال میں بھی نظرانداز رہے ہیں۔ سیاسی زندگی میں وہ آج بھی حاشیے پر ہیں۔ مغربی بنگال کے ماکپا کو کبھی کوئی دشرتھ دیب نہیں ملا۔ جیوتی بسو صحیح معنوں میں امبیڈکر کی اہمیت نہیں سمجھ سکے۔ مگر تریپورہ کے کچھ شدت پسندوں نے ایک بار ایسا کیا تھا۔ ان کی زندگی اور سیاسی فلسفہ کو پھر سے محسوس کرنے اور ریاست کے مفاد میں اس کو پھر سے اپنانے کی ضرورت ہے۔
Categories: فکر و نظر