مرادآباد کے آر ٹی آئی ایکٹوسٹ سلیم بیگ نے آر ٹی آئی کے تحت پوچھا تھا کہ 2005 میں آر ٹی آئی قانون نافذ ہونے کے بعد سے اب تک کتنے کارکنوں پر ظلم وستم کئے جانے، جیل بھیجے جانے اور ان کے قتل کے معاملے سامنے آئے۔
نئی دہلی :مرکز اور دہلی حکومت نے آر ٹی آئی کارکنوں کے ظلم وستم، جیل بھیجے جانے اور ان کے قتل کی تفصیل اورنمایاں کام کرنے والے کارکنوں کو نوازے جانے کے بارے میں جانکاری دینے سے منع کیا ہے۔سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا ذکر کرتے ہوئے دہلی حکومت نے کہا کہ آر ٹی آئی قانون کے تحت اندھا دھند اور ناقابل عمل مطالبہ یا ہدایت منفی اثر ڈالنے والے ہوںگے۔دوسری طرف، مرکزی حکومت کے ملازمین، عوامی شکایت اور پینشن معاملوں کی وزارت نے اس بارے میں کہا کہ اطلاعات کی وضاحت یا تشریح کرنا اطلاع کے قانون 2005 کے دائرے سے باہر ہے اور چیف عوامی رابطہ افسر (سی پی آئی او) سے یہ امید نہیں کی جاتی ہے کہ وہ اطلاعات پیدا کریں۔ آر ٹی آئی 2005 کے تحت صرف ویسی اطلاعات ہی دستیاب کرائی جا سکتی ہیں جو موجود ہوں۔
مرادآباد کے آر ٹی آئی کارکن سلیم بیگ نے آر ٹی آئی کے تحت وزیر اعظم دفتر اور دہلی حکومت میں وزیراعلیٰ دفتر سے سوال کیا تھا کہ سال 2005 میں آر ٹی آئی قانون نافذ ہونے کے بعد اب تک کتنے کارکنوں پر ظلم وستم کئے جانے، جیل بھیجے جانے اور ان کے قتل کے معاملے سامنے آئے۔ ان معاملات میں کیا کارروائی کی گئی۔اس کے علاوہ حکومت نے آر ٹی آئی کے شعبہ میں نمایاں کارکردگی کے لیے آر ٹی آئی کارکنوں کو نوازے جانے کے بارے میں کوئی قدم اٹھایا ہے، ان کی تفصیل دیں۔آر ٹی آئی ایکٹ نافذ ہونے کے بعد سے اب تک کتنی بار تجزیے کیے گئے اور اس سلسلے میں دیے گئے مشوروں کی عمل آوری کی سمت میں کیا کیا قدم اٹھائے گئے اور اس بارے میں کون کون سے فیصلہ ہوئے۔
دہلی حکومت کے ایڈمنسٹریٹیو ریفارمز ڈیپارٹمنٹ نے سی بی ایس ای بنام آدتیہ بندواپادھیائے معاملے میں سپریم کورٹ کے 9 اگست 2011 کے فیصلے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی اطلاع نہیں دی جا سکتی ہے۔دہلی حکومت نے اس معاملے میں سپریم کور ٹ کے پیرا 37 کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ تمام طرح کی ایسی متفرق اطلاعات جو عوامی اتھارٹی کے کام کاج میں شفافیت اور جوابدہی سے متعلق نہیں ہوں، ان کے لئے آر ٹی آئی قانون کے تحت اندھا دھند اور ناقابل عمل مانگ یا ہدایت منفی اثر ڈالنے والے ہوںگے۔ اس سے انتظامیہ کی صلاحیت بھی منفی طور پر متاثر ہوتی ہے۔ اس لیےجانکاری اکٹّھا کرنے اور پیش کرنے کے لاحاصل کاموں کے ساتھ کام کرنے والا افسر پھنس جاتا ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ قومی ترقی اور انضمام میں رکاوٹ ڈالنے یا اپنے شہریوں کے درمیان امن اور ہم آہنگی کو تباہ کرنے کے لئے اس اوزار کا غلط استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔ نہ ہی ان کو اپنے فرائض کو پورا کرنے کے ایماندار افسروں کے ظلم وستم یا دھمکانے کے ٹول میں تبدیل کیا جانا چاہئے۔اروند کیجریوال کی قیادت والی دہلی حکومت نے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ راشٹر ایسا منظر نامہ نہیں چاہتا ہے جہاں عوامی اتھارٹی کے ملازمین کا 75 فیصد ان کے باقاعدہ فرائض پر عمل کرنے کی بجائے درخواستوں کو اکٹّھا کرنے اور جانکاری پیش کرنے میں خرچ ہوتا ہو۔
آر ٹی آئی کے تحت ملازمین، عوامی شکایت اور پینشن معاملات کی وزارت نے کہا کہ صرف ویسی اطلاع ہی دی جا سکتی ہے جو عوامی اتھارٹی کے پاس موجود ہو اور اس کے قابو میں ہو۔اس بارے میں آر ٹی آئی کے تحت پہلے پی ایم او میں درخواست بھیجی گئی تھی اورپی ایم اونے کہا کہ اس بارے میں دفتر کو درخواست حاصل ہوئی ہے اور اس کو حق اطلاع کا آرٹیکل 6 (3) کے تحت حسب حال کاروائی کے لئے منتقل کیا جا رہا ہے۔پی ایم او نے اس کو ملازمین، عوامی شکایت اور پینشن معاملات کی متعلقہ وزارت اور محکمے کو بھیج دیا تھا۔
Categories: خبریں