ملک کی دوسرے ریاستوں کی طرح گجرات میں بھی آدیواسیوں کی کوئی خاص ترقی نہیں ہوئی ہے۔ان کے لیےصرف کام ڈھونڈناہی بڑا مسئلہ نہیں، مناسب مزدوری بھی نہیں ملتی۔
سابرکانٹھا ضلع کے آدیواسی علاقے پوشینا کے نوجوان اشوک نے اپنے گھر کے باہر کی طرف سڑک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ جو سڑک یہاں بن رہی ہے، اس میں باہر سے لوگ آکر یہاں مزدوری کر رہے ہے۔ حکومت ہم لوگوں کو یہاں کام کیوں نہی دے سکتی ہے؟ اس سے ہمیں کام بھی مل جائےگا اور ہمیں کام ڈھونڈنے کے لئے باہر دوسرے شہروں میں بھی نہیں جانا ہوگا۔ اشوک اور اس کے جیسے دوسرے آدیواسیوں کے لئے صرف کام ڈھونڈنا ہی ایک بڑا مسئلہ نہیں بلکہ مناسب مزدوری ملنا بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔
گجرات میں ہیرے کی صنعت کا مرکز کہے جانے والےسورت ضلع سے تقریباً 50کلومیٹر دور مُہووا کے انتیش کو صحیح مزدوری نہیں ملتی ہے۔ 25 سالہ انتیش اپنی ماں اور بیوی کے ساتھ رہتا ہے۔ اسی کے لفظوں میں پڑھالکھا نہیں ہونے کی وجہ سے اس کو کوئی ٹھیک ٹھاک کام نہیں ملا اور ابھی وہ کسی دوسرے کے کھیت میں مزدوری کرتا ہے اور اس کا محنتانہ (8 گھنٹے کے کام کا) صرف 100 روپے ملتا ہے۔ تعلیم کی کمی، روزگار کی کمی اور تمام اہم پارٹیوں کے ذریعے آدیواسیوں کو بنیادی سہولیات کو لےکر نظراندازکر نے کی وجہ سے ان میں الیکشن کو لےکرکوئی خاص دلچسپی نہیں دکھتی ہے۔ لیڈر بھی ان کے پاس صرف الیکشن کے وقت ہی آتے ہیں۔
بنیادی ضروریات کی کمی کے علاوہ سرکاری سسٹم بھی ان سے ٹھگی ہی کرتا ہے۔ انتیش کے ہی دو پڑوسی کرن جو کہ ایک سرکاری اسکول میں چپراسی کے عہدے پر کارگزار ہیں اور دوسرے پڑوسی بکولا جو کہ نجی کمپنی میں کام کرتےہیں، ان تینوں نے ایک سُر میں یہ بات کہی کہ راشن دکان پر جب ہم راشن کے لئے جاتے ہیں تو پہلے ہمیں اناج کے لئے کوپن لینا پڑتا ہے۔ لیکن کنٹرول والے خود 5 روپیے والے کوپن کے لئے 10روپیہ لے لیتے ہیں (حالانکہ اصولاً کوپن کی کوئی فیس نہیں ہے)۔ کوپن پر کیا لکھا ہوتا ہے وہ ہمیں دکھاتے بھی نہیں ہے۔ بس 3 لوگوں کی فیملی کے لئے 3 کلو چاول، 6 کلو گیہوں اور 1 کلو چینی ملتی ہے جو کہ ضرورت سے بہت کم ہے۔ حکومت کو ہمیں اور اناج دینا چاہئے۔
ملک کی دوسرے ریاستوں کی طرح گجرات میں بھی آدیواسی کی کوئی خاص ترقی نہیں ہوئی ہے۔ ہاں ان کے یہاں سڑک، بجلی اور پانی کی سہولت میں ترقی ہوئی ہے۔ 2011کے سینسس کے مطابق ملک میں 8.6 فیصد آبادی قبائلی ہے جن میں 90 فیصد آبادی ابھی بھی گاؤں میں رہتی ہے۔ گجرات میں قبائلی آبادی 14فیصد ہے۔ریاست کے 25 ضلع میں سے 10 اضلاع ایسے ہیں جہاں 5 لاکھ کے قریب یا اس سے زیادہ کی آبادی قبائلی ہے۔ وسط گجرات کے دوہاد ضلع میں سب سے زیادہ 15.80لاکھ کی قبائلی آبادی ہے، جبکہ بڑودرا 11.50 لاکھ، ولساڑ میں 9 لاکھ اور سورت میں 8.56 لاکھ کی آبادی ہے۔ اگر اس کو مجموعی آبادی کے تناسب میں دیکھے توبھی 4 اضلاع دوہاد، دی دانگ، تاپی اور نرمدا وغیرہ ضلع کے تمام آبادی کے 80 فیصد یا اس سے زیادہ آبادی قبائلی ہے۔ آدیواسیوں کا اکثریتی علاقہ گجرات کے نقشے کے اوپر شمالی گجرات سے لےکر وسط گجرات ہوتے ہوئے جنوبی گجرات کے سرحدی ریاستوں راجستھان، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر سے سٹے اضلاع ہیں۔ ریاست میں 182اسمبلی سیٹوں میں 27 سیٹیں قبائلیوں کےلئے محفوظ ہیں۔
پچھلے کچھ الیکشن کے اعداد و شمار دیکھیں تو ریاست میں دو دہائی سے بھی زیادہ وقت سے حکمراں پارٹی بی جے پی کا قبائلی علاقوں میں تسلط کم ہی ہوا ہے۔ 2002کے انتخاب میں بی جے پی 27 میں سے 15 سیٹیں جتنے میں کامیاب رہی تھی جبکہ کانگریس کو 10 سیٹیں ملی تھی اور 2 سیٹیں JD (U) کو ملی۔وہیں 2007 میں بی جے پی کی سیٹ گھٹکر 11اور 2012 کے انتخاب میں یہ اعداد و شمار 10 سیٹیں ہو گئی۔ انہی انتخابات میں کانگریس بالترتیب 15 اور 16 سیٹیں جیتی۔ مطلب یہ ہے کہ جہاں بی جے پی ریاست کے گزشتہ تین انتخابات میں کُل اسمبلی سیٹوں کا اوسطاً 65 فیصد جیتتی رہی وہی قبائلی محفوظ سیٹوں پر ان کا فیصد گھٹکر 44 فیصد کے پاس پہنچ جاتا ہے۔وہیں دوسری طرف کانگریس گزشتہ تین انتخابات میں کُل سیٹوں کا اوسطاً 31 فیصد سیٹیں جیتتی رہی ہے لیکن قبائلیوں کے لیے محفوظ سیٹوں پر ان کا پرفارمنس بڑھکر 52 فیصد ہو جاتا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہوگا کہ 2017کے الیکشن میں ووٹوں کا رجحان کیا ہوتا ہے۔
(مضمون نگاراشوکا یونیورسٹی میں ریسرچ فیلو ہیں اور ملک کے کئی ریاستوں میں انتخابی تجزیے کا کام کر چکے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر, گراؤنڈ رپورٹ