راجسمند قتل معاملے پر معروف صحافی رویش کمار ،ارملیش ،سماجی کارکن کویتا شری واستو اور فلم ڈائریکٹر اونیاش داس کے ردعمل
نئی دہلی :رجستھان راجسمند میں نام نہا د لو جہاد کے نام پر مغربی بنگال کے مسلم مزدور کو انتہائی وحشیانہ اور بہیمانہ طریقے سے قتل کیے جانے کا معاملہ کل سامنے آیا تھا۔اس قتل کا ویڈیو وائرل ہونے کے بعدلوگوں کے شدید رد عمل سامنے آرہے ہیں ۔پولیس نے ملزم سمبھو لال کو گرفتا کر لیا ہے ۔پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ ملزم سمبھو لال نے افرازالحق کا قتل دراصل ایک عورت کے ساتھ ہوئی زیادتی کا بدلہ لینے کے لیے کیا تھا۔
پولیس کے اس بیان پر غصے کا اظہار کرتے ہوئے سماجی کارکن اور حقوق انسانی کی تنظیم پی یو سی ایل راجستھان کی صدر کویتا شری واستو کا کہنا ہے کہ پولیس افرازالحق کے وحشیانہ قتل کو صحیح قرار دینے کی کوشش کر رہی ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ اگر تھوڑی دیر کے لیے یہ بات مان بھی لی جائے تو کہ اس قتل میں کی وجہ انتقام ہے توبھی جس طرح کی نفرت بھری زبان کا استعمال ویڈیو میں کیا گیا ہے اس کو کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ قتل ہمیں گراہم اسٹین کے قتل کی یاد دلاتا ہے۔
بہت سے انسانی بم ہمارے درمیان گھوم رہے ہیں:رویش کمار
’راجستھان کے راجسمند میں ایک انسان کو کاٹا، پھر جلا دیا۔ ویڈیو بھی بنایا اور سب کو دکھا دیا۔ جو کاٹا گیا، جلا دیا گیا، مسلمان تھا، جو مار رہا تھا وہ ہندو تھا۔ ٹی وی اور سیاست جو زہر بو رہا ہے، اس کا پیڑ اگ آیا ہے۔ فرقہ پرستی آپ کو انسانی بم میں بدل دیتی ہے۔ ایک ایسا عدم تحفظ پیدا کر دیتی ہے جس کے چلتے آپ ہر وقت تشدد کا سہارا لینے لگتے ہیں۔ ایسے بہت سے انسانی بم ہمارے درمیان گھوم رہے ہیں۔ اس کا فائدہ اٹھاکر چار لوگوں کی گینگ حکومت کرےگی، باقی قتل کے بعد مقدمہ جھیلےگا۔ جن کے یہاں موت ہوگی، ان کے غموں کی پرواہ نہ کرنے کی ٹریننگ آپ کو روز ٹی وی سے دی جا رہی ہے۔ کوئی کیرل کی مثال دےگا تو کوئی کہیں کا ، مگر تشدد کی مذمت کے بعد سب پالیںگے کیونکہ آج کی سیاست کے لئے بہت سے قاتلوں کی ضرورت ہے۔ سماج کتنا بےچین ہے قاتل بننے کے لئے۔
ایک کی تو صرف موت ہوئی ہے، اس کی شہریت چھین لی گئی ہے مگر ایسا کرنے کے لئے دوسرے سماج کے اندر کتنے قاتل پیدا کئے جا چکے ہیں۔ کیا آپ چاہیںگے کہ آپ کے گھر کا کوئی کسی کا بھی قتل کرکے لوٹے۔ بھلے اس کے نظریے کی حکومت بچا لے مگر کیا آپ اس کے ساتھ رہ پائیںگے؟ اس کی چپیٹ میں کون آئےگا، آپ کو پتا نہیں۔ ممکن ہے اسکول سے لوٹتے وقت، کالج میں کھیلتے وقت، کسی معمولی جھگڑے میں تشدد کا یہ خون سوار ہو جائے اور بات بات میں آپ کے گھر کا کوئی قاتل بن جائے۔ اس کو یہ طاقت اسی سیاست اور سوچ سے مل رہی ہے جس کو آپ ٹی وی اور سوشل میڈیا پر دن رات پال پوسکے بڑا کر رہے ہیں۔ کٹرپن اور مذہبی پہچان کی سیاست کے لئے اپنے اندر سے بہت سے قاتل چاہیے جو دوسرے پر حملہ کرنے کے کام آ سکیں۔ سیاست سے مذہب کو دور کر دیجئے ورنہ آپ انسانیت سے دور ہو جائیںگے۔
جن کو آپ ٹرول کہتے ہیں، دراصل یہی سوچ سماج میں کلہاڑی اور ماچس لئے گھوم رہی ہے۔ تبھی کہتا ہوں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے نسلوں کے تباہ ہونے کی رفتار کافی تیز ہو گئی ہے۔ایسی بحث بےلگام ہو چکی ہیں۔ عام آدمی ان کو سنتے ہوئے سنبھالنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ لہذا وہ انسانی بم کی طرح کہیں جاکے پھٹ جاتا ہے۔ قاتل میں بدل جاتا ہے۔ میری اس بات کو اگر سمجھنا ہے تو اس پیج کے کسی بھی پوسٹ کے بعد دی گئی گالیوں کی ذہنیت کو دیکھیے۔ ہندوستان کی سیاسی تہذیب بدل گئی ہے۔ پہلے بھی یہ سب عناصر تھے۔ مگر اب یہ باقاعدہ ہوتا جا رہا ہے۔ تو اس کو لےکر کسی کو شرم بھی نہیں آتی ہے۔
چاہو تو میری شہریت اس ملک سے خارج کر سکتے ہو:اویناش داس
ایک درندے کو گدی سونپ دی گئی ہے ۔’نیچتا ‘کی حد سے بھی زیادہ نیچ آدمی ہے وہ ۔زبان سے لگاتار زہر اگلتا ہے ۔ملک کو شمشان بنانے کی زمین تیار کرنے میں جی جان جٹا ہے۔اب بولو !چاہو تو میری شہریت اس ملک سے خارج کر سکتے ہو۔
‘ہندو ‘تو گائے کی طرح ہے، وہ دہشت گردنہیں ہو سکتا:ارملیش
پھر ایک اور قتل!بےحد وحشیانہ طریقے سے۔ راجستھان کے راجسمند میں۔ پہلے تیز دھاردار ہتھیار سے قتل کیا۔ پھر اس مسلم مزدور کو جلایا۔ اس بےرحمی کی ویڈیوگرافی کرائی! مارنے والا ‘ ہندتوا والا ‘ایک سرپھرا ہندو تھا۔ ‘لو-جہاد ‘، ‘ بدلہ ‘……اور پتا نہیں، کیاکیا بکتا گیا! پھر بھی کچھ کہتے ہیں، ‘ہندو ‘تو گائے کی طرح ہے، وہ نہ دہشت گرد ہو سکتا ہے، نہ ہی قدامت پسند!ایسا کہنے والوں کے بیچ سے ہی ‘ کچھ منظم لوگ ‘اس وحشیانہ اور دہشت کے معلم بنکے ابھرے ہیں!
واضح ہوکہ مغربی بنگال کے مالدہ کے رہنے والے 47 سالہ افرازالحق کے رشتہ داروں نے ان کا قتل کرکے زندہ جلا دینے والے قصوروار کو پھانسی کی سزا دینے کی مانگ کی ہے۔انڈین ایکسپریس سے بات چیت میں افرازالحق کی بیوی گل بہار بی بی نے کہا، ‘جنہوں نے ان کو جانوروں کی طرح مارکے پوری دنیا کو اس کی تصویر دکھائی ان کو پھانسی کی سزا دی جانی چاہیے۔ مجھے انصاف چاہیے۔ ان کو صرف اس لئے مار دیا گیا کیونکہ وہ ایک مسلمان تھے ‘ رشتہ داروں کے مطابق تین لڑکیوں کےباپ افرازالحق اس مہینے کے آخر میں اپنی چھوٹی بیٹی کی شادی کا انتظام کرنے کے لئے گھر واپس آنے والے تھے۔ وہ پچھلے 12 سالوں سے راجستھان میں بےہنر مزدور کی شکل میں کام کر رہے تھے۔