خبریں

’ایک قوم ، ایک نصاب‘ سے متعلق عرضی مسترد

جسٹس مشرا نے غازی آباد کے پرائمری اسکول میں اسسٹنٹ ٹیچر نیتا اپادھیائے کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس موضوع پر کیا کہہ سکتے ہیں، سب کچھ عدالت ہی تو نہیں کرسکتی۔ یہ ممکن نہیں ہے۔

Photo : Reuters

Photo : Reuters

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے ایک قوم ایک نصاب کے تحت چھ سے چودہ سال کے بچوں کو یکساں نصاب دستیاب کرانے سے متعلق عرضی آج مسترد کردی۔چیف جسٹس دیپک مشرا ، جسٹس اے ایم کھانولکر اور جسٹس ڈی وی چندر چوڑ کی بنچ نے کہا کہ وہ ایک قوم ایک نصاب کا حکم کیسے دے سکتی ہے۔

جسٹس مشرا نے غازی آباد کے پرائمری اسکول میں اسسٹنٹ ٹیچر نیتا اپادھیائے کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس موضوع پر کیا کہہ سکتے ہیں، سب کچھ عدالت ہی تو نہیں کرسکتی۔ یہ ممکن نہیں ہے۔

عرضی گذار نے حکومت کو چھ سے چودہ سال کے تمام بچوں کو یکساں نصاب سے تعلیم دلانے کی ہدایت دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس عرضی میں مرکز کوچھ سے چودہ سال کے بچوں کیلئے ماحولیات، صحت اور سلامتی نیز سوشلزم ، سیکولرزم اور قومی پرستی کے مضامین پر مصدقہ کتابیں دستیاب کرانے کی ہدایت دینے کی درخواست کی گئی تھی جن میں بنیادی حقوق، بنیادی ذمہ داریوں ، ہدایتی اصولوں اورآئین کی تمہید میں مقرر کردہ سنہرے مقاصد پر مبنی اسباق ہوں۔

محترمہ اپادھیائے نے آئین کی دفعہ 21 اے کے تحت موجودہ تعلیمی نظام کو خامیوں سے پر قرار دیا ۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ بچوں کے حقوق کو مفت اور لازمی تعلیم تک محدود نہیں کرنا چاہئے۔بلکہ بچوں کے ساتھ اقتصادی ، سماجی اور اقتصادی بنیاد پر بھیدبھاو کئے بغیر معیاری تعلیم دستیاب کرانے تک اس کی توسیع کی جانی چاہئے۔