ہندوستان میں بچّوں کے تحفظ کو لےکر بنے قانون عالمی سطح کے نہیں ہیں۔ مثلاً،امریکہ کے کوڈ آف فیڈرل ریگولیشن 49،اسٹینڈرڈ نمبر 213 میں ‘چائلڈ رسٹرینٹ سسٹم ‘ کی کمی، یعنی بچّوں کے تحفظ کے لئے گاڑیوں کی سیٹ یا بیٹھنے کا طریقہ ایسا ڈیزائن کیا جانا، جس سے بچّے کی حفاظت بڑھے۔
اچھے سے بال باندھکر پیلی ٹی شرٹ پہنے پانچ سال کی سومیہ کشیپ کی فوٹو دیکھکر یکایک نظریں اس کی بڑی بڑی آنکھوں پر ٹک جاتی ہیں۔ سومیہ کی گول مٹول آنکھیں دنیا کو کھوجنے کی چاہت بیاں کرتی ہیں۔ فوٹو میں دکھ رہی اس کی آنکھوں کی چمک اور معصوم چہرہ اب اصل زندگی میں دیکھنے کو نہیں مل پائےگا۔ دو مہینے پہلے سنیچر کے دن اسکول جاتے وقت وہ اسکول بسکے پہیوں کے نیچے آ گئی۔ دل دہلا دینے والا یہ حادثہ صرف سومیہ کا ہی نہیں ہے، بلکہ ایسے تکلیف دہ حادثہ روزانہ ملک کی سڑکوں پر ہوتے ہیں۔ گزشتہ سال کے اعداد و شمار کو دیکھیں، تو پتا چلتا ہے کہ ہندوستان میں ہر دن 29 بچے سڑک حادثے میں اپنی جان گنواتے ہیں۔ اس سال جنوری کی بات ہے، جب اتر پردیش کے ایٹہ میں تیز رفتار ٹرک نے اسکول بس کو ٹکّر مار دی اور اس حادثہ میں 25 ننھے بچّوں کی زندگی چلی گئی۔ کئی بچّے زخمی ہوئے تھے۔ 42 سیٹ والی اس اسکول بس میں قریب 66 بچّے بیٹھے تھے۔
بچّوں کے تحفظ کو دیکھتے ہوئے 1997 میں سپریم کورٹ نے اسکول بسوں کے تحفظ سے جڑے ڈائریکشن جاری کئے تھے۔اس کے بعد 2005 میں آٹو موٹیو ریسرچ ایسوسی ایشن نے اسکول بسوں میں حفاظتی اقدام کے لئے اے آئی ایس اسٹینڈرڈ063 جاری کیا تھا۔ ایٹہ کے حادثہ کے بعد سینٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن نے کہا تھا کہ اگر تحفظ میں لاپروائی برتی گئی، تو اسکول کی منظوری تک منسوخ ہو سکتی ہے۔ یہ اسٹینڈرڈکس حد تک نافذ ہوئے، یہ نہیں کہا جا سکتا۔ دوسری دقت یہ ہے کہ ایسے اسٹینڈرڈ ان اسکول وین، آر ٹی وی یا منی بسوں پر نافذ نہیں ہوتے، جن پر بڑی تعداد میں بچّوں کو اسکول لایا اور لے جایا جاتا ہے، کیونکہ یہ گاڑی بہت کفایتی ہوتے ہیں۔ موٹر گاڑی ایکٹ1988 میں بچّوں کے تحفظ کو لےکرکوئی ہدایت نہیں دی گئی ہے، حالانکہ اب اس میں کئی تبدیلی کی جا رہی ہے۔ اب اس میں یہ جوڑا گیا ہے کہ چار سال سے زیادہ عمر کے بچّوں کے لئے ہیل میٹ لگانا ضروری ہے اور 14 سال سے کم عمر کے بچّوں کی حفاظت بالغوں کو سیٹ بیلٹ یا گاڑی میں بچّوں سے جڑے حفاظتی سسٹم لگاکرمتعین کرانی ہوگی۔ یہ بل ابھی قانون نہیں بنا ہے، کیونکہ پارلیامنٹ میں تو یہ پاس ہو گیا ہے، مگر راجیہ سبھا میں ابھی اس کا منظور ہونا باقی ہے۔
ایک دوسری دقت یہ بھی ہے کہ ہندوستان میں بچّوں کے تحفظ کو لےکر بنے قانون عالمی سطح کے نہیں ہیں۔ مثلاً،امریکہ کے کوڈ آف فیڈرل ریگولیشن 49،اسٹینڈرڈ نمبر 213 میں ‘چائلڈ رسٹرینٹ سسٹم ‘ کی کمی، یعنی بچّوں کے تحفظ کے لئے گاڑیوں کی سیٹ یا بیٹھنے کا طریقہ ایسا ڈیزائن کیا جانا، جس سے بچّے کی حفاظت بڑھے۔ اس میں بیکلیس رسٹرینٹ، بیلٹ سے جڑی سیٹ، بوسٹر سیٹ، کار بیڈ، اینکر یا ہیل میٹ وغیرہ شامل ہے۔ ہندوستان میں ایسا کوئی اہتمام نہیں ہے، جس کے تحت کار میں کوئی سیٹ صرف بچّوں کے لئے ہو یا بچّوں کے ہیل میٹ ہوں۔ ہیل میٹ پہننے سے سنگین چوٹ سے 70 فیصدی تک بچا جا سکتا ہے اور 40 فیصدی تک موت کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستان میں بچّوں کے لئے اسٹینڈرڈ ہیل میٹ ہی نہیں ملتے۔ بچّے یا تو بڑا ہیل میٹ پہنتے ہیں، یا پھر ان کو ہیل میٹ پہنایا ہی نہیں جاتا۔ ‘چائلڈ رسٹرینٹ سسٹم ‘ کا استعمال دنیا بھر میں کیا جاتا ہے۔
یہ حادثہ کے وقت بچوں کے 70 فیصدی اور چھوٹے بچّوں کے 54سے 80 فیصدی تک موت کے خطرہ کو کم کرتا ہے۔ ہمارے ملک میں ماں اکثر اپنے بچّے کو بری نظر اور تمام طرح کی ہونی انہونی سے بچانے اور چڑیل کو ٹالنے کے لئے کالا تلک لگاتی ہیں۔ جب ہم اپنے بچّے کے تحفظ کو لےکے اتنے فکرمند ہیں، تو بچّوں کے سڑک تحفظ کو لےکر کیوں کوتاہی برتتے ہیں؟
گزشتہ سال ملک کے دس ہزار سے زیادہ بچّوں کی جان سڑک حادثات میں گئی۔ لیکن یہ اعداد و شمار ان بچّوں کے ہیں، جو سڑک پر آمد ورفت کر رہے تھے۔ اس کے ساتھ ہی ایک تشویشناک بات یہ بھی ہے کہ سڑک پر رہنے والے بچّوں کے حادثات کے ہمارے پاس کوئی اعداد و شمار نہیں ہیں۔ ان کو تو تحفظ کے زمرہ میں بھی نہیں رکھا گیا ہے، جبکہ ان کو اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ تحفظ ہر بچّے کا حق ہے۔
Categories: فکر و نظر