گجرات کے حالیہ انتخابات میں وقتا ًفوقتاً مسلمانوں کو یہ احساس دلانےکی کوشش کی جار ہی کہ وہ اکثریت کے رحم و کرم پر ہی جی سکتے ہیں۔
کچھ دنوں پہلےاحمدآباد میں تھا۔ میں اپنے ایک دوست کے ساتھ جو پال ڈی کے مسلم علاقہ میں رہتا ہے گھومنے نکلا۔ پال ڈی میں جین، ہندو اور مسلمان الگ الگ سوسائٹی میں رہتےہیں۔ یہ وہی علاقہ ہے جہاں ایک پوسٹرسامنے آیا تھا جس میں یہ لکھا گیا تھا’پال ڈی کو جوہاپورہ بننے نہ دے‘۔ پال ڈی میں ایک خاص حیثیت (status) کے لوگ رہتے ہیں۔ جو مسلمان یہاں رہتے ہیں پڑھے لکھے اورمہذب سمجھے جاتے ہیں۔
اس سوال کے جواب میں کہ یہاں کے مسلمان جوہاپورہ یا کسی اور مسلمان علاقے میں کیوں نہیں رہتے۔ دوست نےکہا’یہاں کے رتبے(status)کے لئے‘۔ ہم ا سکوٹر پر اس علاقے کی تفریح کر رہے تھے ،وہ بیچ بیچ میں مسلم محلوں کی طرف اشارہ کرتاجا رہا تھا،اوریہ بتارہا تھا کہ یہ جگہ محفوظ ہے ، یہ زیادہ محفوظ اور یہ سب سے زیادہ محفوظ ہے۔ میں نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا کہ ایسا کیوں ہے؟’ اس نے کہا کہ کوئی بھی اس علاقہ میں داخل نہیں ہو سکتا اگر کوئی ہنگامہ ہوا تو یہ علاقہ مسلم اکثریت والا علاقہ ہے۔ کچھ سو بلوائی اس علاقہ پرحملہ نہیں کر سکتے ہیں جب کہ یہاں کے مسلمانوں کی آبادی ہزاروں پر مشتمل ہے۔ ٓاخر میں ہم ایسی عمارت کے سامنے سے گزرے جہاں جھنڈے، بینرس اور پوسٹرز آویزاں تھے۔ اُس نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ کانگریس کا ہیڈکوارٹر ہے اس وجہ سے بھی یہ علاقہ محفوظ’ (safe) ہے۔
بابری مسجد منہدم ہونے کے پچیس سال اور گودھرا سانحہ کے پندرہ سال بعد بھی گجرات کے مسلمان مسلسل خوف میں زندگی گزار رہے ہیں۔بابری مسجد انہدام ایک ایسا واقعہ تھا جس نے ہندوستان کی نفسیات پر بہت گہرا اثر ڈالا ۔ اس واقعے نے جمہوری اور سیکولرقوتوں کو آزردہ کردیا ۔ کچھ 1300کلومیٹر دور احمدآباد میں بھی اس کےاثرات دیکھنے کو ملے۔فسادات کے بعد گجرات کے مسلمانوں کو زبردستی اور بادل نخواستہ ایسی جگہوں پر منتقل ہونا پڑا جو انکے لئے محفوظ ہوں ۔
میں نے سیف اور سیفٹی جیسے لفظ بارہا فیلڈورک کے دوران دہلی اور احمدآباد میں مسلمانوں کو کہتے سنا ہے۔ اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ آخر اس کے کیا معنی ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ مسلمان ایسے لفظوں کا استعمال کرتے ہیں؟ جتنا میں سمجھ پایا ہوں، محفوظ سے بس تشدد سے حفاظت نہیں ہے۔ بلکہ یہ لفظ اپنے آپ میں اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ایک ایسی جگہ جہاں وہ اپنی شناخت کو لے کر شرمندہ نہ ہوں۔ روز مرہ کی زندگی عزت کے ساتھ جی سکیں۔ جہاں وہ اپنی حب الوطنی کا مظاہرہ کر سکیں۔
2002کے سانحہ کے بعد ، جوہاپورہ ایک محفوظ جگہ کی طرح ابھرا۔ یہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے،یہ احمدآباد اور دوسرے علاقوں سے یہاں رہنے آئے۔ جوہاپورہ کو لوگ چھوٹا پاکستان کے نام سے پکارنے لگے ہیں۔ کچھ دنوں پہلے گجرات کےبی جے پی امیدوار شلیش سوتا نےایک ویڈیو میں ٹوپی ڈاڑھی والوں کی آبادی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کی آبادی کوکم کرنے کی ضرورت ہے۔ پچھلے سال 12 اکتوبر2016کو پروین توگڑیا نے وجےدشمی کو اپنی تقریر میں جوہاپورہ کو لاہور (پاکستان) سے جوڑتے ہوئے کہا کہ یہ دہشت گردی کا کارخانہ ہے ۔
اس علاقے کی حدودجو اسے ہندو اکثریت علاقوں سے الگ کرتی ہیں، جیسےسڑکیں اور دیواریں، انہیں یہا ں سرحد (Border ( کہتے ہیں۔ جو علاقہ سرحد کے اندر شامل ہے وہ مسلمانوں کے لئے محفوظ مانا جاتا ہے اوریہ علاقہ سماجی، اور جغرافیہ طور پر ان باشندوں سے الگ ہے جو سرحدکے اُس پار رہتے ہیں۔ یہ لفظ بارڈر صرف اس شہر میں وجود میں نہیں آیا کہ یہاں کے رہنے والوں کو الگ الگ کر کے دیکھا جائے بلکہ اس لفظ کا وجود اس ملک کی 70 سالہ تاریخ میں کہیں دبا پڑاہے۔ جوہا پورہ کو ایک الگ تھلگ، اپنے ہی ملک میں اس غیر ملکی علاقہ کی طرح شمار کیا جاتا ہے ۔ بارڈرلفظ زبردستی مسلمانوں کو پاکستانی شناخت عطا کرتا ہے۔یہ اس ملک کی حقیقت ہےکہ 70سال گزرنے کے بعد بھی یہاں مسلمانوں کو اس طرح سے دیکھا جاتا ہے ؟کیا مسلمان کو اس ملک کے شہری نہیں ہیں ؟
نا انصافی اور بابری مسجدمنہدم کرنے والوں کو کھلی چھوٹ ملنے سے اس ملک کی سیکولر اور لبرل شناخت پر بہت برا اثر پڑا ہے۔ اس کے نتائج میں یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کہ جو لوگ ہندوتوا سے الگ سوچتے ہیں ہندو راشٹر میں یقین نہیں کرتے ، اس آبادی کو اس ملک کے سیاسی ڈھانچے سے یکسر الگ کیا جارہا ہے ۔ بی جے پی اور ہندوتوا جماعتیں اس منصوبے میں بہت حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔ خاص طور سےاس کے اثرات گجرات کے حالیہ اور پچھلے انتخابی مرحلوں میں نظر آتے دکھائی دیتےہے۔ مسلمانوں کو سیاسی طور پرنظر انداز کرنا، ان کو بے دخل کرنا، اور انہیں ایسے علاقوں میں جمع کرنا جہاں انکا ہونا نہ ہونے کے برابر کردیا جائے۔ہندوستانی سیاست میں اسکو ایک’ ماڈل ‘کی حیثیت سے پیش کیا جارہا ہے۔
گجرات ہندوتوا کے لئے ایک کامیاب لیبارٹری کی حیثیت رکھتا ہے جہاں اس سیاسی تجربے کوبار بار اپنایا جاتا ہے۔ اس کو اپنا کربہت حد تک مسلمانوں کوانتخابی سیاست سے دور رکھنے میں کامیابی بھی ملی ہے۔ مسلم ووٹوں کو بے وقعت سمجھنے میں بی جے پی کے الیکٹرول فارمولہ کا برملا ثبوت انکی پارٹی میں مسلمانوں کی غیر نمائندگی ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس انتخاب میں یہ فارمولہ کانگریس بھی اپنارہی ہے۔ یہ طریقہ کار اس ملک کی انتخابی سیاست کے لئے ایک ناگوار فضا پیدا کرسکتی ہے۔ مسلمانوں کو اب ہر مرحلہ پر الگ کیا جا رہا ہے ۔
گجرات کے حالیہ انتخابات میں وقتا ًفوقتاً مسلمانوں کو یہ احساس دلانےکی کوشش کی جار ہی کہ وہ اکثریت کے رحم و کرم پر ہی جی سکتے ہیں۔ اورنگزیب راج اور انٹی سوشل((Anti-social جیسے طنزیہ القاب کا استعمال اس بات کا ثبوت ہیں کہ کس طریقے سے مسلمانوں کوانتہا پسندی سے جوڑا جارہا ہے۔ مسلمانوں کو وحشی ، شدت پسنداور غیر مہذب سماج کی صورت میں پیش کیا جارہا ہے۔ راجستھان میں ہی دیکھیے کہ کس طرح ایک غریب بے کس مزدور کو ظالمانہ اور بے رحم طریقہ سے زندہ جلایا جاتا ہے ،صرف اس لیے کہ وہ مسلمان تھا۔
کانگریس نے اس انتخاب میں مسلمانوں سے دوری کی روش اپنائی ہے ۔ کیا یہ انکے اور پاٹیداروں کے بیچ جو نیا رشتہ قائم ہوا ہے یا اس ہندوتوا گنتی کے اثر کامظاہرہ ہے جس کے مطابق مسلمانوں کو غیر ضروری اور غیر معمولی سمجھا جاتا ہے۔ یہ جو نئی نئی اصطلاحات ایجاد کی جاتی ہیں، جیسے سوفٹ ہندتوا ، اس سے ایک بڑی الجھن یہ پیدا ہوتی ہے ۔یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ مسلمانوں کو انتخابی سیاست سے بے دخل اور غائب کردینا اس ملک کی بنیاد پہ حملہ کرنے کے برابر ہے۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ بی جے پی یہ انتخابات ہار یا جیت جاتی ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ گجرات کے انتخابات سے مسلمانوں کی انتخابی سیاست اور نمائندگی پہ ملکی اور ریاستی سطح پہ کیا اثر دیکھنے کو ملے گا؟ یہ اس ملک کی سیکولر، لبرل اور جمہوری قدروں پر حملہ ہے۔ ہندوستان پہلے ہی بہت بٹ چکا ہے اور ہر سال سیاست تفریق کے نئے باب کھولتی ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ کس طرح یہاں کے ہندوتوا تشدد کے شکاراور بے دخل آبادی کو اس ریاست کی جمہوری قدروں میں شامل کیا جاتاہے۔ اسی سے اس ملک کا مستقبل طے ہوگا؟
(آئی آئی ا ٓٹی گاندھی نگر سے فارغ آصف علی لون سماجی اور سماجی موضوعات پرلکھتے ہیں۔ )
Categories: فکر و نظر